ہوں اُسی چاند ستاروں کے بھرے میلے میں
ماورا اور خواجہ فرید سنگت کے زیرِ اہتمام توقیرؔ احمد شریفی کے پہلے مجموعہ کلام ’’یاد کے کنارے‘‘ کی تقریبِ رونمائی
ازقلم: حسیب اعجاز عاش
پر کشش شخصیت کے مالک توقیرؔ احمد شریفی اپنے منفرد و دلفریب کلام کے باعث سلطنتِ سخن میں اپنا خاص مقام رکھتے ہیں۔توقیرؔ احمد شریفی کا تعلق زندہ دلانِ شہر لاہور سے ہے ابتدائی تعلیم ملتان سے حاصل کی جبکہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی۔بسلسلہ روزگار سعودیہ عرب میں بھی مقیم رہے ہیں۔اپنے شعبہ میں انکی قابلیت و خدمات کو ہر سطح پر سراہا گیا ہے انکا شمار پاکستان کے پہلے الیکٹریکل سیفٹی کوڈ کے مصنفین میں ہوتا ہے۔انہیں زمانہ طالب علمی میں ہی شاعری سے خاص لگاؤ تھا۔توقیرؔ احمد شریفی کے پہلے مجموعہ کلام’’یاد کے کنارے‘‘ بھی منظر عام پر آچکا ہے جسے اہل ادب کی بصارت و بصیرت نے خوب پسندکیا ہے۔
مطالعہِ’’یاد کے کنارے‘‘ توقیرؔ احمد شریفی کی شخصیت و فن کے حوالے سے کئی چھپے پہلوؤں کو بے نقاب کرتا ہے۔اِن کے کلام میں حسنِ ترتیب، تنوعِ فکر، جمالِ شعری، خیال آفرینی خوب ملتا ہے مگر لہجہ نہایت صاف و سادہ،حسین و موثر انداز، بیان سلیس و فصیح ہونے کے باوجود کلام معنی خیزاور فکر انگیز ہے جو قابل رشک ہے۔کہیں لب و لہجہ میں دلربائی کا کمال ،شوخی اور رنگینی بھی نظر آتی ہے تو کہیں اخلاص و ایثار،خاکساری،فکری پختگی اور خدا پرستی ، کہیں بے ساختگی و روانی،آفاقیت و عالمگیریت ،تو کہیں انکی شاعری میں معاملاتِ زندگی کے مسائل اور داخلی وخارجی واردتوں کا تذکرہ بھی خوب ملتا ہے۔’’یاد کے کنارے‘‘ کے حوالے سے سعید الظفر صدیقی لکھتے ہیں کہ توقیر ؔ احمد شریفی کی شاعری میں فلسفے کے بجائے دلی کیفیات کا رنگ نمایاں ہے جو شعر کی خوشبو ہوا کرتا ہے ۔مجھے قطعی امید ہے کہ ان کا یہ شعری مجموعہ اپنی مخصوص فنی شناخت کے ساتھ اردو ادب میں ضرور اہمیت کی نظر سے دیکھا جائے گا۔اقبال راہیؔ لکھتے ہیں کہ توقیرؔ احمد شریفی نے اپنے اندر شاعر کو بیدار رکھا ہے اور اسے نیند کی وادیوں کے سپرد نہیں کیا۔انکے لکھنے کا انداز اُڑتی ہوئی خوشنما تتلیوں کی طرح جاذبِ نظر ہے انہوں نے بہت تھوڑا عرصہ میں اپنے لئے قبیلہ شعراء میں اہم مقام بنا لیا ہے۔ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کی رائے میں توقیرؔ احمد شریفی ہمارے درمیان زندگی اور شاعری کی توقیر بنا ہوا ہے ،اس کے شعری مجموعے کا نام ’’یاد کے کنارے‘‘ ہے مگر وہ دور آباد سمندر میں ڈوبنا چاہتا ہے ،اُسے معلوم ہے کہ دل دریا سمندروں ڈونگھے ہیں وہ اپنے دل کے کنارے بیٹھا ہوا اپنی یادوں کو تلاش کر رہا ہے جو اُن راستوں میں کھو گئی ہیں جنہیں وہ بہت پیچھے چھوڑ آیا ہے۔اکرم سحر فارانی کے خیال میں توقیرؔ احمد شریفی کی غزلیں نئی جہتیں اور نئے زاویئے فراہم کرتی ہیں اور نظموں میں خیال کی تعمیر جوش اور گھن گرج پائی جاتی ہے ۔خالد شریف کے اظہار خیال میں شریفیؔ کی شاعری معمول کی شاعری نہیں یہ عامل کی شاعری ہے دھیمے دھیمے جذبوں کی آنچ پر پکی ہوئی اپنی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو دیتی ہوئی ۔ نغمگی میں کلام اور روح میں قیام کرتی ہوئی شاعری۔توقیر کا طرزِ اظہار ہے اور یہی اُس کی فنی ریاضت کا ثمرہے۔
چند روز قبل ہی ماورا اور خواجہ فرید سنگت کے زیرِ اہتمام اِس مجموعہ کلام کی رونمائی کے حوالے سے ایک شاندار و یادگار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ممتاز شاعر و ادیب کیپٹن عطا محمد خان کی زیرِصدارت اس تقریب میں صوفیہ بیدار، خالد شریف، سلیم اختر،
خالد ساجد، صغری صدف، محمود ظفراقبال، حسن عسکری کاظمی اور سعود عثمانی نے بحثیت مہمانانِ خصوصی کے شرکت کے لئے محفل کو پُروقار بنا دیا۔تقریب میں رفعت توقیر، اقبال بھٹی، مہوش جلیل، شفیع قمر، سلطان حیات، جاوید اقبال، شاہد بخاری، مہ جبین ملک،میاں فہیم قمر، سائرہ عرفان، مدیحہ، طارق منظور، عثمان جاوید ،امام بخاری، سلطان حیات، ہارون احمد، یامین خالد، ،ہاشم احمد ہارون، راشد ممتاز،منشاء قاضی،وسیم عباس، محمد عمران(عمران آرٹ)، ذبیدہ ، حمید سیٹھی، شیخ قمر، دلشاد نسیم، فخر عباس، عبدالخالق، مریم رانا سمیت اہل ادب حضرات کی کثیر تعداد سے ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا ،نظامت کے فرائض صوفیہ بیدار نے خوش اسلوبی سے نبھائے ،اختتامِ تقریب تک انکے خوبصورت لفظیات کا جادو سماعتوں پر خوب چلتا رہا۔نویرہ بابر نے کلامِ شریفی پیش کیا۔سحر فرحانی نے غزل اور اقبال راہی نے نظم سماعتوں کی نذر کی اورخوب داد بٹوری۔ محمود ظفر اقبال(سعودیہ)، سعود عثمانی، اعتبار ساجد، حسین مجروع، رخسانہ سلہری، الشیخ جہانگیر محمود، خالد ساجد، حسن عسکری کاظمی،اشفاق رؤف، نرگس ناہید نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ توقیرؔ احمد شریفی کی شاعری تازہ موسموں کی عبارت ثابت ہوئی ہے۔انہیں فطرتاً زبان و بیان اور منفرد اسلوب پر گرفت حاصل ہے۔لفظ کی حرمت، لفظ کی نشست و برخاست سے باخوبی واقف، لفظ کے ساتھ مخلص، لفظ کے ساتھ برتاؤ میں محتاط رویہ اپنا یا ہے۔انکی یہ پہلی کاوش ادبی حلقوں میں اپنامقام ضرور حاصل کر گی۔مقررین نے خوبصورت محفل کے انعقاد پر منتظمین کو شکریہ ادا کیا اور توقیرؔ احمد شریفی کو اُنکے پہلے مجموعہ کلامؔ ’’یاد کے کنارے‘‘ کی اشاعت پر دلی مبارکباد بھی پیش کی ۔
اظہار خیال کرتے ہوئے صاحِب کتاب توقیرؔ احمد شریفی نے پہلے ماورا اور خواجہ فرید سنگت سے تقریب کے انعقاد پر اظہار تشکر کیااور حاضرین سے تقریب میں شرکت پر شکریہ ادا بھی کیا خصوصاًاپنے دوستوں حکیم سلیم اختر ملک، سید علی رضا کاظمی اور تنویر احمد نازی کا ، جنہوں نے کتاب کے سلسلے میں مفید مشوروں سے نوازا اور عثمان ضیاء کابھی جنہوں نے کتاب کی ترتیب و تزئین میں بہت معاونت کی اور عزیزہ ثروت اویس کا بھی جنہوں نے شعری سفر کی طرف واپسی پر آمادہ کیا۔انہوں نے اپنے پہلے مجموعہ کلام سے انتخاب بھی پیش کیا جو سماعتوں کو خوب بھایا۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر ممتاز شاعر و ادیب کیپٹن عطا محمد خان نے اپنے صدارتی کلمات میں توقیرؔ احمد شریفی کو انکے پہلے مجموعہ کلام کی اشاعت پر مبارکباد پیش اور خوبصورت اور منظم تقریب کے انعقاد پر ماورا اور خواجہ فرید سنگت کے بھی معترف ہوئے۔اس موقع پر نرگس ناہید، دلشاد ناہید، فاخرہ انجم، رخسانہ سلہری نے صاحبِ کتاب پھولوں کے گلدستے بھی پیش کئے۔ڈاکٹر عمران دانش نے توقیرؔ احمد شریفی کو ’’یاد کے کنارے‘‘ کے حوالے سے اپنا مکالہ بھی پیش کیا،جو قلتِ وقت کے باعث سماعتوں کی نذر کرنے سے قاصررہے تھے۔کلامِ شریفی کا عکس محفل پر شام بھر آویزاں رہا،یوں الحمرا ہال کی ادبی بیٹھک میں ایک اور خوبصورت ادبی محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔توقیرؔ احمد شریفی کے حسنِ تخیل سے آپ بھی لطف اندوز ہوئیے۔
عشق کے کھیل میں اب گھات نہیں پہلی سی
دل کے مہروں میں کہیں مات نہیں پہلی سی
وہ ملا ہے تو ہمیں آج کئی روز کے بعد
بات اتنی ہے کہ وہ بات نہیں پہلی سی
دیکھ کر اُس کو مِری آنکھ تو نمناک ہوئی
مانتا ہوں کہ وہ برسات نہیں پہلی سی
ہوں اُسی چاند ستاروں کے بھرے میلے میں
پھر بھی ایسا ہی لگے رات نہیں پہلی سی
گھومے جاتا ہے اُسی ایک سے چرخے کی طرح
پر وہ توقیرؔ تِری کات نہیں پہلی سی