میری ٹوٹی پھوٹی انگریزی سنتے ہی صاحب بہادر ہتھے سے اکھڑ گئے اور چیخ کر بولے میں تمہارا ملازم ہوں ؟ تم کون ہو تے ہو مجھے پو چھنے والے ، فورا بلاءو پو لیس کو یہ بلیک میلر مجھے قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں ، انہیں گرفتار کراءو ۔ ۔ لمحہ لمحہ گذرنے کے ساتھ ساتھ صاحب کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا ، ان کا سا نولارنگ سیاہ ہو چکا تھا منہ سے کف بہہ رہے تھے اور آ نکھوں میں وحشت تھی ۔ ۔ ۔ ہ میں ان کے رد عمل کی تو امید تھی مگر اندازہ نہیں تھا کہ ایسا ہو گا ۔ ۔
ایکسین اور دیگر افسران انہیں سنبھا لنے میں لگے تھے کہ ایک دم ایک شخص اٹھا اور اس نے ہ میں پکڑ کر کمرے سے با ہر نکال دیا اور کہنے لگا کہ ایکسین صاحب ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہیں ، آ پ کی با توں سے انہیں دورہ پڑ گیا ہے آپ ابھی چلے جا ئیں یہاں سے پلیز ۔ ۔
حب ہائی بلڈ یہ بھی انہی دنوں کا قصہ تھا جب ہم قلم اور کاغذ لئے خبر کی تلاش میں مارے مارے پھرا کرتے تھے ذہن میں بس ایک ہی دھن سوار ہو تی تھی کہ کچھ نیا ہو جا ئے ۔ صبح پا کستان کا آ فس ان دنوں کالج روڈ پر علیز ہو ٹل کی عمارت کے چو بارہ پر ہوا کرتا تھا یہ علیز ہوٹل بننے سے پہلے کی بات ہے ان دنوں یہاں ہوٹل نہیں بنا نہیں بنا تھا بلکہ ایک کاروں کا شو روم ہوا کرتا تھا جس کے مالک سلیم خان چا نڈیہ تھے انہوں نے ہی یہاں بعد میں علیز ہوٹل تعمیر کیا جو کالج روڈ پر بننے والا پہلا معیاری ہوٹل تھا بعد میں یہ ہوٹل فروخت ہو گیا اور سلیم چا نڈیہ ملتان شفٹ ہو گئے ۔ سلیم چانڈیہ کار شو روم کے چو بارہ پر ہمارا آ فس تھا ملک مقبول الہی ویسے تو خبریں سے منسلک تھے اور ہیں مگر صحافت کے ابتدائی دنوں میں جب وہ خبریں کے ڈسٹرکٹ رپورٹر نہیں بنے تھے دیگر مقامی اور علا قائی اخبارات کے ساتھ ساتھ صبح پا کستان سے بھی ایک خصو صی تعلق رہا جو اس زمانے میں قائم تھا اور آج بھی قائم ہے ، کہا جا سکتا ہے کہ فیلڈ میں ہم ایک دوسرے کے بہترین سا تھی تھے ۔ اس روز بھی ملک مقبول میرے ساتھ تھے بلکہ اگر یہ کہوں کہ میں ان کے ساتھ تھا صحیح ہو گا کہ موٹر سائیکل ان کی تھی ۔
ہم حسب عادت دفتر سے نکلے اور شا ئد ہماری منزل ایس پی آ فس تھی دن کے دس گیارہ بجے ہوں گے جب ہم مو جودہ تحصیل آ فس کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص بجلی کے کھمبے پر چڑھا کنڈی لگا رہا ہے ان دنوں ڈسٹرکٹ کورٹس کی عمارات زیر تعمیر تھیں اور وہاں بڑے بڑے ریت کے ٹیلے ہوا کرتے تھے ڈسٹرکٹ کو رٹس کا ٹھیکہ بھکر اور لیہ کے دو معروف ٹھیکیدار کمپنیوں کے پاس تھا ۔ دو نوں ٹھیکیدار کمپنیوں کی پرو فیشنل شہرت بہت اچھی تھی ہم نے جو ایک بندے کو بجلی پول پر چڑھے کنڈی لگا تے دیکھا تو ہم وہاں جا کر رک گئے اور اس بندے کا پول سے اترنے کا انتظار کر نے لگے ۔
وہ شخص بڑے اطمینان سے کھمبے سے نیچے اترا اور سلام کے بعد ہم سے مخاطب ہوا ۔ ۔ جی سا ئیں
میں نے پو چھا کیا کر رہے تھے ، کہنے لگا کہ ۔ ۔ تار لیندا پیا ہم ۔ ۔
اچھا ۔ ۔ کو ن تھیندا ہیں ؟ واپڈا ملازم ہیں ؟
نہ جی میں ٹھیکیداراں دا ملازم ہاں ، مزدوراں کم شروع کرنا ہے ایں واسطے بجلی تار لیندا پیا ہم ۔ ۔ ۔
او بھائی ۔ ۔ تم جو کھمبے پر چڑھ کر بجلی کی تاریں لگا رہے ہو میٹر نہیں لگا ہوا کیا ؟ کیا تمہیں ڈر نہیں لگتا ۔ ۔
میں نے اپنے خد شات کو یقینی بنانے کے لئے مزدور صاحب سے دوبارہ پو چھا ۔ ۔
نہ سا ئیں ۔ ۔ مزدور نے سادگی سے مختصرسا جواب دیا
میں نے پو چھا کہ ٹھیکیدار صاحب کہاں ہیں جواب ملا ہسپتال میں ۔ ۔ وہ وہاں بھی کام کر رہے ہیں ایک پراجیکٹ پر ۔ ۔
ہسپتال میں نرسنگ سکول کی عمارت زیر تعمیر تھی اور ٹھیکیدار صاحب بھی ساءٹ پر موجود تھے ۔ ہماری خواہش پر ٹھیکیدار نے ہ میں اپنے شا ندار زیر تعمیر پرا جیکٹ دیکھنے کی اجازت دے دی ۔ منشی صاحب نے تفصیل سے ہ میں بلڈنگ کا وزٹ کرایا اتنا کہ اس دوران ہ میں وہ پوائینٹ نظر آ ہی گیا جہاں کمپنی والوں نے بجلی کی کنڈی لگا ئی ہو ئی تھی ۔ ہم نے وہ پوائینٹ دیکھنے اور ٹھیکیدا ر صاحب کی چا ئے پینے کے بعد واپسی کی راہ لی ۔
واپسی پر مسئلہ یہ زیر بحث رہا کہ اب کیا کیا جا ئے ;238; خاصی سوچ بچار کے بعد طے پایا کہ بجلی چوری کی اس بڑی واردات سے ڈی سی صاحب کو انفارم کیا جائے اور ان کے علم میں لا نے کے بعد خبر شا ءع کی جائے ،کہ ڈی سی آ فس کے ناک تلے دن دیہاڑے دھڑلے سے کنڈی لگا کر بجلی چوری کی جا رہی ہے ۔ اس بارے ڈی سی بہادر سے پو چھنا ہی زیادہ منا سب تھا ۔ یہ پروگرام بنا کر ہم ڈی سی صاحب سے ملاقات کے لئے ان کے دفتر پہنچ گئے ۔ ڈپٹی کمشنر نے ہماری بات غور سے سنی وہ اس خبر سے بہت حیران اور پریشان ہو ئے کہ ان کے آفس سے متصل زیر تعمیر ایوان عدل کمپلیکس کے ٹھیکیدار بجلی چوری کر کے قانون کا کھلے بندوں مذاق اڑا رہے ہیں انہوں نے ہ میں ہدایت کی کہ ہم فورا ایکسین واپڈا سے ملیں اور انہیں اس ساری صورت حال سے با خبر کریں اور ساتھ ہی فون پر خود بھی ایکسین واپڈا سے اس معا ملے پر بات کی ہم واپڈا دفتر پہنچے اور ایکسین صاحب سے درخواست کی کہ وہ ہمارے ساتھ چلیں ہم ان مقامات کی نشاند ہی کر نا چا ہتے ہیں جہاں بجلی چوری کی جا رہی ہے ۔ ایکسین واپڈا ایک وضعدار اور نیک نام آ فیسر تھے تھے بہت پریشان ہو ئے ۔ ۔ پو چھا کیا جی او آر جا نا ہے ;238; ہم نے کہا نہیں سر ۔ ۔ بس آپ کے آفس کے بالکل قریب ، ایکسین نے بڑی حیرانگی سے پو چھا اور کہاں ۔ ۔ ہم نے درخواست کی چلیں تو سر ۔ ۔ کہنے لگے ۔ ۔ او کے ۔ ۔
ہم صاحب کی سر کاری جیپ میں ان کے ساتھ بیٹھ گئے ساءٹ پر پہنچے ، ساءٹ پر بڑے بڑے ریت کے ٹیلوں کے درمیاں لگے بجلی کے کھمبے پر کنڈی لگی ہو ئی تھی اور لیبر کام کر رہی تھی ۔ ۔ صاحب نے بڑے غصہ میں کنڈی اتارنے کے احکامات جاری کئے ۔ کنڈی اتروائی اور کہا اب چلیں ۔ ۔ ہم نے عرض کیا کہ ایک اور ساءٹ بھی ہے جہاں بجلی چوری ہو رہی ہے ، فرمانے لگے سمجھ آ گئی ہے ، وہاں کا انتظام بھی کر لیتے ہیں ۔ ۔ ہم واپڈا آفس پہنچے ایکسین صاحب سے پو چھا کہ کیا بجلی چوری کا کیس بنے گا ذمہ داروں پر ;238; جواب نہ ملنے پر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ایس پی آفس آ گئے ۔ احمد مبارک ایس پی تھے بڑے دبنگ پو لیس آفیسر تھے سنتے سب کی مگر کرتے اپنی تھے ۔ ان سے ملاقات کی اور آج کی ساری روئداد سنا ئی ایس پی صاحب نے بھی پہلے ڈی سی اور بعد میں ایکسین واپڈا سے فون پر بات کی اور معاملے بارے تفصیل معلوم کی ۔ ۔
کہنے لگے اچھا کیا آپ لو گوں نے ضلعی انتظا میہ کو اعتماد میں لے کر یہ سب کچھ کیا ، مسئلہ خاصا اہم ہے , دیکھتے ہیں ۔ ۔ ہم نے عرض کی بجلی چوری کا کیس بنتا ہے ، ایف آئی آر ہو نی چا ہیئے ؟
دفتر پہنچ کر پہلے خبر بنائی اور ایک پھرایک کا غذ پر یہ سب تفصیلات لکھ کر وفاقی منسٹر واپڈا ، وزیر اعلی پنجاب اور دیگر حکام بالا کو فیکس کر دیں ۔ وہ اس لئے کہ ہ میں لگ رہا تھا کہ آج جو معرکہ مارا ہے اس کا رد عمل شدید ہونا ہے ۔ ۔ اور ہوا بھی یہی جب شام گئے ہم دفتر سے گھر پہنچے تو گھر کی چھوٹی سی بیٹھک میں ٹھیکیدار سمیت بہت سے دوست ہمارے منتظر تھے ۔ ۔
( باقی اگلی قسط میں )