یہ سو چتے سو چتے مجھے ایک بار پھر نیند نے آ دبو چا اور میں گھوڑے بیچ کر سو گیا صبح کے گیارہ بجے ہوں گے جب مجھے اپنے دائیں بازو پر دبا ؤ کا احسا س ہوا مجھے لگا کہ میرے بازو پر یہ دباؤ لمحہ لمحہ بڑھتا جا رہا ہے میں نے گھبرا کرآ نکھیں کھو لیں تو دیکھا کہ ڈاکٹر راؤنڈ پر آ ئے ہو ئے تھے ایک نرس میرا بلڈ پریشر چیک کر رہی تھیں میرے بازو پر محسوس ہو نے والا دباؤ دراصل بی پی آ پریٹس( BP Apparatus) کا دبا ؤ تھا ، بلڈ پریشر نارمل تھا مجھے نیند سے جا گتا دیکھ کر ڈاکٹرمسکرا ئے اور بو لے "بہت ہو گیا آرام ۔۔۔بس اب نیند سے جا گیں اور گھر جا ئیں” میرے استفسار پر ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ میرا بلڈ پریشر سمیت سب کچھ نارمل ہے میرے سارے ٹیسٹ ٹھیک ہیں اور مجھے کچھ نہیں ہے یہ کہتے ہو ئے ڈاکٹر صاحب بغیر کچھ میڈ یسن تجویز کئے کمرے سے چلے گئے اور ہم نے گھر جانے کی تیاری شروع کر دی اسلم نے سامان سمیٹنا شروع کر دیا میں ڈارائیور کو فون کیا کہ وہ گا ڑی ہسپتال لے آئے تھوڑی ہی دیر گذری تھی کہ ڈرائیور کی مس کال آ گئی جس کا مطلب تھا کہ وہ گا ڑی لے آ یا ہے اسلم نے سامان اٹھا یا اور ہم ہسپتال سے باہر نکل آ ئے ، ڈرائیورگاڑی سمیت ہسپتال کمپاؤنڈ میں مو جود تھا
گھر پہنچے تو وہاں بہت سے عزیزو اقارب مو جود تھے پتہ چلا کہ میری طبع ناسازی کا سن کر سبھی کل سے آ ئے ہو ئے ہیں میرے بہ خیریت ہسپتال سے گھر واپسی پر سبھی خوش تھے دو پہر کا کھا ناکھانے کے بعد جب سب احباب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تب میں بھی اپنے کمرے میں آ گیا تبھی دروازے کی بیل بجی با ہر نکلا تو دیکھا "خلو "ہے بڑی گرمجوشی سے جپھی ڈالتے ہو ئے بو لا یار مجھے رات گئے تمہارے بارے پتہ چلا تھا کہ تم بیمار ہو اور ہسپتال میں داخل ہو رات خاصی دیر ہو گئی تھی صبح گھر کے کام کاج کرتے دیر ہو گئی اب فرصت ملی تو سوچا تمہارا پتہ کر لوں ۔۔ شکر ہے گھر ہی مل گئے وگرنہ ہسپتال آ نا پڑتا ۔اس نے پوری قوت سے مجھے بھنچتے ہو ئے اپنی بات مکمل کی ۔۔
اچھا کیا ۔۔ میں نے اس کے دونوں بازؤں کی گرفت سے نکلنے کی ناکام کو شش کرتے ہو ئے جواب دیا
اس نے دو تین بار دا ئیں سے با ئیں اور با ئیں سے دا ئیں کند ھے پر اپنا چہرہ رگڑا پھر حسب روائت میری پیشانی کو چو ما اور پھر تقریبا مجھے اپنے سے پرے دکھیلتے ہو ئے علیحدہ کیا ۔ "خلو” میرا بچپن کا دوست ہے خلو کا اصل نام تو خلیل ہے لیکن ہم سب گا ؤں والوں کی ماسی اس کی اماں اسے” خلو” کہہ کر پکارتی تھی تڑکے تڑکے جب ماسی بھینسوں کے باڑے میں گوبر کے اوپلے تھاپ رہی ہو تی اس وقت خلو کو بلانے کے لئے بڑے زور سے اس کی آوازیں سنا ئی دیتیں خلو ۔۔ خلو ۔۔ ارے او خلو ۔۔ کہاں مرگیا ہے جواب کیوں نہیں دے رہا ۔۔ مونڈی ٹوٹے ۔۔ او خلو ۔۔ اور جب ماسی آوازیں دے دے کر تھک جا تی اور اس کی بلند آ واز بڑ براہٹ میں بدل جاتی تب "خلو "آ نکھیں ملتا ہوا کمرے سے نکلتا ۔۔ یہ ماسی کا روز کا معمول تھا اور ماسی کی اسی باز گشت نے خلیل کو” خلو "مشہور کر دیا تھا "خلو "میرا ایسا دوست ہےجسے ہمارے ہاں دیسی زبان میں کچھے کا یار کہا جا تا ، کچی پکی کلاس سے ہائی سکول تک ہم ٹاٹ پر ایک دوسرے کے ہمسائے رہے خلو جب بھی ملتا ہے گلے ملنا زور سے بھیچنا پیشانی چو منا اور آخر میں میرے دونوں کو ہا تھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر دیر تک گرمجوشی سے ہلاتے رہنا اس کی پرانی عادت ہے وہ جب بھی ملتا ہے اس کی گرمجوشی پہلے سے زیادہ ہو تی ہے سچی بات میں اس سے ملتے ہوئے گھبرا تا ہوں گلے ملتے وقت اس کی گرمجوشی مجھے ہلا دیتی ہے میرے اوسان خطا ہو جاتے ہیں مگر اکثر سو چتا ہوں کہ "خلو” کی ملاقات میں میرے لئے جتنی چا ہت ، طلب اور گرم جوشی ہو تی ہے اتنی کہیں اور سے تو نہیں ملتی تب مجھے” خلو” بہت پیارا لگتا ہے اور اس کی اخلاص اور بے ریا معصوم سی محبت کی گرمجوشی آج کی اس حرص و ہوس کی دنیا مٰیں غنیمت لگتی ہے
کیا لوگے ؟ ڈرائنگ روم میں صوفے پر بیٹھتے ہو ئے میں نے "خلو "سے پو چھا
لو ۔۔گے۔۔ سے کیا مطلب ہے تمہارا یار ۔۔ کنجوس مکھی چوس ۔۔ بھئی کھانے کا وقت ہے کھانا کھا ؤں گا ۔۔ ” خلو "نے ہی ہی ہی کرتے ہو ئے مقصد کی بات کی
گاؤں کا چکر لگا ؟ کھانے کے بعد چا ئے پیتے ہو ئے میں نے "خلو "سے پو چھا
ہاں ابھی تو گیا ہوا تھا ۔۔ پچھلے پورے پندرہ دن میں نے گا ؤں میں ہی گذارے ہیں
اچھا ۔۔ اکیلے اکیلے چلے گئے ۔۔ مجھے بتاتے میں بھی چل پڑتا ۔۔ زمانہ ہی گذر گیا گا ؤں سے نکلے ۔۔ کیسے ہیں سب لوگ ؟ میں نے پو چھا
سب ٹھیک ہیں ۔۔ آ ج کل سڑک بن رہی ہے پکی ۔۔ ریت کے ٹیلوں کو سیدھا کر رہے ہیں بلڈوزر ۔۔
اچھا ۔۔ میں نے سو چتے ہو ئے جواب دیا ۔۔ سڑک کہاں بن رہی ہے سٹیشن کے قریب تو نہیں بن رہی کیا ۔۔ میں نے پو چھا
نہیں یہ آ بادی کے قریب ۔۔۔مراثیوں کے گھروں کے نزدیک جہاں پہلے کچی سڑک تھی وہاں ہی بن رہی ہے ۔۔سٹیشن کے ٹیلے سارے ویسے کے ویسے ہیں جیسا تو انہیں چھوڑ کر آ یا تھا ۔۔ یہ کہتے ہو ئے اس نے مسکرا کر مجھے دیکھا
میرا بچپن میرے ننھیالی گاؤں میں گذرا ۔ ہماری یہ چھوٹی سی بستی ریلوے لائن کے مغرب میں واقع ان بہت سی بستیوں میں سے ایک تھی جو ریلوے لائن اور ان آ باد یوں کے درمیان ریت کے بڑے بڑے پہاڑوں جیسے اونچے ریت کے ٹیلوں کے عقب میں ایسے ترتیب سے سیدھی لائن میں بسی تھیں جیسے کو ئی ریل گاڑی کے ڈبے ہوں ، ان بستیوں کے نشیب میں ایک دریائی نالہ بہتا تھاجس کی چوڑائی کچھ زیادہ نہیں تھی لیکن بچپن میں ہمیں یہ چھوٹا سا دریائی نالہ بہت بڑا دریا لگتا تھا اور گر میوں میں جب سیلاب آ تا تو یہ چھوٹا سا تنگ دریائی نا لہ بہت بڑے سمندر کی شکل اختیار کر لیتا ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب سیلاب آ یا کرتے تھے اور پانی کے بحران جیسے لفظوں سے لوگوں کے کان نا آ شنا تھے ۔ بستی کے وسط میں ایک پرا ئمری سکول تھا اور اسی سکول میں میں اور” خلو” ہم مکتب تھے ۔ ہم دونوں کوئی زیادہ شرارتی بچے نہیں تھے لیکن جب ہمیں سبق یاد نہ ہو تا کلاس سے بھاگ جا نا ہمیں بھی آ تا تھا خاص طور پر ریاضی سے ہماری جان جاتی تھی نہ ہمیں اس وقت حساب آ تا تھا اور سچی بات نہ حساب آج آ تا ہے ، جو نہی استاد جی بستوں سے سلیٹ نکا لنے کا کہتے ہم پانی پینے یا "پشی” کر نے کا بہانہ کرتے اور کلاس سے بھگوڑے ہو جا تے اور سکول سے بھاگنے کے بعد یہی ریت کے ٹیلے ہماری پناہ گا ہیں ہو تے اور پھر سارا وقت ان ٹیلوں پر پکڑم پکڑائی اور لکن چھپائی کھیلتے گذر جا تا جو نہی چھٹی کا وقت ہوتا ہم کھلے میدان میں لگنے والے ایک کمرے والے سکول میں حاضر ہو جاتے تختی بستہ اٹھا تے ہو ئے ریت سے آ لودہ ہاتھ پاؤں چہرے اور گرد آ لود کپڑوں کے ساتھ گھر کی راہ لیتے ۔۔ باقی اگلی قسط میں
ضرور پڑھیں ۔ بات بتنگڑ قسط7