مرا دل جب کبھی تنہا ہوا ہے
کبھی دریا کبھی صحرا ہوا ہے
اب اپنے گھونسلے میں ہر پرندہ
عذابِ خوف سے سہما ہوا ہے
ہم اُس تیرہ شبستاں کےمکیں ہیں
جہاں پر چاند گہنایا ہوا ہے
کسی سے مل کےبھی شاید بچھڑنا
کتاب زیست میں لکھا ہوا ہے
تری آنکھیں فقط بدلی نہیں ہیں
مزاجِ دہر بھی بدلا ہوا ہے
تری گلیوں کا آوارہ مسافر
کسی سے پوچھیے وہ کیا ہوا ہے
وہ بزمِ غیر میں بیٹھے ہیں، جیسے
فر شتوںمیں خدا اُترا ہوا ہے
تکلف برطرف اےحسنِ جاناں
تجھے راہی نے پہچانا ہوا ہے
غزل ۔۔۔ ریاض راہی