کرپشن زادے
تحریر: محمد شہروز
دنیا میں کرپشن کی دو اقسام پائی جاتی ہیں- ایک وہ جو باقی دنیا میں ہوتی ہے دوسری جو پاکستان میں کی جاتی ہے- فرق اخلاقیات کا ہے- پاناما لیکس ہی کی مثال لے لیں, باقی ملکوں کے وزیر ٹیکس چوری اور بدعنوانی سے بنائی گئی بزنس ایمپائرز اور آف شور کمپنیوں کے سکینڈلز منظرِ عام پر آنے کے بعد مستعفی ہو رہے ہیں یا پھر ڈیوڈ کیمرون کی طرح کٹہرے میں کھڑے ہو کر تحریری دستاویزات
اور دیگر ثبوتوں کے ہمراہ ناقدین کے سوالوں کا جواب دے رہے ہیں- جبکہ پاکستان کے وزیرِاعظم "آپ بیتی” سنا رہے ہیں- مقامِ ماتم ہے کہ موصوف کے پالتو وزیر پانامہ پیپرز جیسے عالمی تحقیقی سکینڈل کو ن لیگ کے خلاف سازش کا نام دے رہے ہیں-
اب آتے ہیں بنیاد کی طرف, یہ ایک غلط العام مفروضہ ہے کہ غیر قانونی طریقے سے دولت کا حصول بدعنوانی یاکرپشن کہلاتا ہے- کرپشن صرف سیاسی و کاروباری حضرات سے منسوب نہیں کی جا سکتی- مذہہبی, معاشی و اقتصادی, تعلیمی اور اخلاقیاتی سطح پر بھی کرپشن کا سایہ ہے- مہذب ممالک میں آئین اور قانون کی مکمل حکمرانی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں احتساب کو یقینی بنایا جاتا ہے- پاکستان کی سیاست کی بات کریں تو یہاں حکمرانوں نے آئین اور جمہوریت کو ہی کرپشن کی ڈھالیں
بنا رکھا ہے- یہاں صرف ‘اسحٰق’ چلتا ہے, احتساب نہی
سیاست کے بعد پاکستان کے لوگوں پر سب سے بڑا ظلم یہاں کا مذہہبی طبقہ کر رہا ہے- جس معاشرے میں ملک و قوم کی جڑوں کو کھوکھلا کر دینے والے جرائم کے خلاف بات کرنا ‘غیر اسلامی’ شے بن جائے وہاں وطن کی باگ ڈور ڈاکوؤں ہی کے ہاتھ لگ جایا کرتی ہے-
میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ جو اسلام آیا ہی معاشرے کی فلاح کیلئے تھا وہ اب کان آنکھ بند کئے مسجدوں مدرسوں تک محدود ہو کر کیوں رہ گیا ہے؟؟ غریب عوام کا حق کھانے والوں کے خلاف عملی طور پر میدان میں نہ اترنے والے کم علم مولانا حضرات مذہہبی کرپشن کو فروغ دے رہے ہیں-
اور پھر مذہہبی کرپٹ افراد جب سیاسی بدعنوانوں کے فضائل و مناقب پڑھنا شروع کرتے ہیں تو دین کی اصل روح کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں-
ایسا نہیں کہ باقی معاشروں میں کرپشن کا وجود نہیں, کیونکہ جہاں انسان کا وجود ہو گا وہاں اچھائی برائی دونوں کا وجود ہو گا – وہاں کرپٹ اور ایماندار دونوں طرح کے افراد ہوں گے- مگر جو چیز امتیاز پیدا کرتی ہے وہ ہے اخلاقیات- اور جن کا اوڑھنا بچھونا عیاشی اور لوٹ مار ہو, معاشی و اقتصادی قتل ہو، حق مانگنے والوں پر ریاستی دہشتگردی جن کا شوق ہو، جہاں لٹیرے زمیندار کے فرنگی بیٹے کے پروٹوکول کی بھینٹ پر ایک معصوم بسمہ کا چڑھا کر معافی تک مانگنے کا رواج نہ ہو — وہاں اخلاقی طور پر استعفے دئیے جاتے ہیں اور نہ ہی گناہ تسلیم کئے جاتے ہیں— اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی تاریخ ہے— جس کا غیر جانبداری سے مطالعہ کرنے پر یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کرپشن کی داستانیں آج کی نہیں بلکہ عوام کا لہو 70 سال سے ان کے خونی جبڑوں پر لگا ہوا ہے— جس ملک کی آزادی کے دو سال بعد ہی تاریخ کے سب سے بڑے کرپٹ دور کا آغاز نام نہاد "الاٹمنٹ” کے نام سے ہوا وہاں کس کی جراّت ہے نیشنل انٹرسٹ کی بات کرے؟؟؟
اور اس بات کہ تہہ تک جائیں تو علم ہو جائے گا کہ سات دیہائیوں سے لیکر آج تک ملک انہی عیار جاگیرداروں کی بگڑی ہوئی اولادوں کا دسترخوان بنا ہوا ہے! جہاں 95 فیصد وسائل پر صرف 5 فیصد لوگ قابض ہوں وہاں کون احتساب کرنے کی اجازت دے گا؟؟؟ وہاں راستہ صرف ایک رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ قوم سڑکوں پہ کٹہرے لگائے اور سڑکوں پر ہی پھانسیوں کے پھندے لگائے!
یہاں پر میں آپ کو چند ماہ قبل کا ایک واقعہ سناتا ہوں- ان دنوں میں اپنے آبائی گاؤں رکا ہوا تھا- ایک دن کیا دیکھتا ہوں کہ ایک مینڈک پھدک پھدک کر چولہے پر رکھے ایک برتن میں جا گرا- برتن بھی چند سیکنڈز پہلے رکھا تھا جس میں ابھی صرف پانی تھا جو کہ آہستہ آہستہ گرم ہو رہا تھا- جوں جوں پانی کا درجہ حرارت بڑھتا گیا مینڈک اپنی جسمانی ساخت کو اسی ٹمپریچر کے مطابق تبدیل کرتا رہا- مگر جونہی درجہ حرارت نقطہء ابال ) Boiling Point ( کو چھونے لگا مینڈک پھدکنے لگا اور پوری توانائی سے باہر کی طرف چھلانگیں لگانے لگا- مگر چونکہ وہ اپنی ساری توانائی پہلے ہی خود کو پانی کےبڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے مطابق ڈھالنے میں صرف کر چکا تھا اس لئے اب اسکے باہر نکلنے کی ہر کوششش ناکام گئی اور وہ جان ہار گیا——
یہاں میرا ایک سوال ہے؟؟ کس چیز نے اس کی جان لی؟؟
آپ سب کا جواب ہو گا کہ گرم پانی نے!!
مگر ایسا نہیں—
اسکی جان درحقیقت اسکے غلط فیصلے نے لی کہ کس وقت چھلانگ لگانی ہے اور کس وقت توانائی کا استعمال کرنا ہے!!
پاکستانی قوم کی مثال بھی اس مینڈک کی سی ہے—
اور یہ بات حق ہے کہ آج ان حکمرانوں سے جان چھڑانے کا بہترین وقت ہے— پاناما لیکس پاکستانیوں کیلئے ایک غیبی مدد ہے— سکوتِ ڈھاکہ کے بعد پھر بھی ملک لولے لنگڑے انداز سے چلتا رہا لیکن اگر اس واقعے کو بھی قوم نے درگزر کر دیا تو پھر کسی بہتری کی توقع ایک سہانا خواب بن کر رہ جائے گی!
آج اگر قوم ان تمام لوگوں کے احتساب کیلئے گھروں سے باہر نکلتی ہے جن لوگوں کو عالمی میڈیا سمیت قومی میڈیا ننگا کر چکا ہے تو ملک کی سمت ایک روشن مستقبل کی طرف موڑی جا سکتی ہے— کیونکہ پاناما لیکس نے جن لوگوں کو بے نقاب کیا یہ اصل میں کرپشن زادوں کا ایک نیٹ ورک ہے جو دنیا کی تمام دولت کے 8 فیصد پر قابض ہے— اور یہ سکینڈل ابھی صرف ایک ٹریلر تھا — اگر پاکستانی قوم بھی آئس لینڈ, یوکرائن, کرغزستان, مالٹا, انگلینڈ اور برازیل کے لوگوں کی طرح ان حرامخوروں کو جیلوں میں ڈلوانے کیلئے اپنا فرض ادا کرتی ہے تو بعید نہیں کہ خدا اس کوشش کے بدلے ملک کی قسمت سنوار دے!