زراعت کو ختم کرنے کی سازش پر کون عمل پیرا ہے ؟
رمضان کا تعلق خوشاب کے ایک گاؤں بوتالہ سے تھا وہ اپنے تمام بھائیوں میں سب سے بڑا اور سمجھدار نوجوان تھا اراضی کم تھی اور روز گار کا کوئی سلسلہ نہ تھا جو رمضان کے گھرانے کی معیشت کی گاڑی کو کھینچتا اس کے باوجود رمضان اپنی زرعی اراضی کا سینہ چیر کر اناج پیدا کرتا اور قلیل زرعی آمدن سے گھر کی دال روٹی چلتی ایسے میں رمضان کے چھوٹے بھائیوں نے دیار غیر جانے کا قصد کیا سو اپنے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ایک روز باپ کی جمع پونجی سے دیس سے پردیس سدھار گئے اب
گھر کا سارا انتظام و انصرام رمضان کے ناتواں کندھوں پر تھا بھائی محنت کے بل بوتے پر زر کماتے اور گھر لاتے رہے تو دوسری جانب رمضان نے بھی قلیل اراضی کی زرخیزی کی خاطر نہ پوہ کے جاڑے دیکھے اور نہ سورج کا جھلساؤ اُس کی محنت میں دخیل ہوا پانی کی قلت اکثر کسانوں کی محنت غارت کرتی رہی اور جب گاہے بگاہے حسب معمول پانی کی معمولی ترسیل کھیتوں کی دہلیز تک پہنچتی توکسانوں کے مرجھائے چہروں پر ایسی خوشی کا غازہ نظر آتا جو دل سے پھوٹتی ہے اور چہرے پر آکر لوسی دینے لگتی ہے رمضان کا تعلق بھی ایسے کسانوں سے تھا جن کی اراضی کے ہونٹ پانی کی پیاس کی شدت سے ہمیشہ خشک رہتے ہیں یہی وجہ ہے کسی بھی موسمی فصل کے بیج ڈالنے سے لیکر اُگاؤ پھر فصلات کی بار آوری تک خدشات کا لامحدود سلسلہ ان کسانو ں کی سانسوں کے ساتھ ازل سے جڑا ہوا ہے
یہ موسم سرما کی ایک کہر آلود رات تھی بستر استراحت کو چھوڑنا محال تھا مگر چارااور کماد کی فصل کیلئے پانی ضروری تھا ورنہ مویشی بھوکوں مرجاتے کیونکہ پانی کی فصل کی ترسیل کسی وقت بھی منقطع ہو جاتی اور پانی کی ترسیل رکنے کا سلسلہ بیشتر اوقات مہینوں پر محیط ہوجاتا والد نے لاکھ منع کیا کہ اس سردی میں نہ جاؤ بیوی کا اصرار بھی رمضان کے ارادہ میں دراڑ نہ ڈال سکا وہ بستر کی نرمی اور گرمی کو خیر باد کہہ کر رات کے بارہ بجے کسی اپنے کندھے پر رکھ کر کھیتوں کی جانب چل پڑا سردی کی شدت اپنے نقطہءِ عروج کو چھو رہی تھی رمضان نے پانی اپنے کھیت کی طرف موڑا اور ننگے پاؤں کھیتوں کی نگرانی شروع کر دی اسی دوران جب وہ ایک کیارے میں پانی موڑ رہا تھا پانی کے کٹاؤ کی جگہ پر چھپے ایک کالے ناگ نے اُس کے پاؤں پر کاٹ لیا رمضان نے اُسے مارنے کی کوشش کی مگر وہ اُس کی دسترس سے نکل گیا زہر نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا مگر رمضان پانی کو مکمل کئے بغیر جانے کیلئے تیار نہ تھا وہ سانپ کے کاٹے کو معمولی سمجھ رہا تھا جب زہر نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا تورمضان کا جسم ٹوٹنے لگا مگر وہ اپنے کھیتوں کی پیاس بجھانے کیلئے پانی کی ترسیل کو مکمل کرنے کا خواہاں تھا قوتِ مدافعت جواب دینے لگی تو وہ گھر پہنچا اپنی بیوی کو تمام حال کہہ سنایا باپ جو دوسرے کمرے میں سویا ہوا تھا آوازیں سن کر اُٹھ بیٹھا اور رمضان سے ماجرا پوچھا رمضان سے جب حقیقت حال کا پتہ چلا تو تو اُنہوں نے جوہر آباد ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال جانے کی جلدی کی جب باپ اور اُس کے قریبی عزیز جنہیں صورت حال کا پتہ چل چکا تھا لیکر روانہ ہوئے لبوں پر رمضان کی زندگی کی دعائیں تھی مگر موت رمضان کی سانسوں کے قریب تر ہوتی جارہی تھی کسی کی دعا رنگ نہ لائی کیونکہ وقت بہت گزر چکا تھا رمضان جانبر نہ ہوسکا اُس نے مرکز مسیحائی کی دہلیز پر دم توڑ دیا ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ اگر آپ ایک گھنٹہ پہلے پہنچ جاتے تو متوفی کی جان بچائی جاسکتی تھی رمضان اپنی اراضی کی پیاس بجھانے کیلئے موت کے منہ میں چلا گیا کئی برس پہلے کا یہ واقعہ مجھے اُس روز یاد آیا جب کسانوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والے خوشاب کے ملک عزیز الرحمٰن شلولی نے کسانوں کا استحصال کرنے والے صنعتکار اقتداریہ طبقہ کی طرف سے زراعت کو تباہ کرنے کے منصوبہ کو بے نقاب کرتے ہوئے بتایا کہ کسان تو سانپ کے منہ پر دسمبر کے کڑکتے جاڑوں میں پانی لگاتا ہے اور جب فصل کی بار آوری ہوتی ہے تونرخوں کی منڈی میں اُس کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا 23قسم کے ٹیکسز میں اُس کا بال بال جکڑا ہوا ہے عزیز الرحمان نے دور خلا میں گھورتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی واحد صنعت زراعت ہے جس کے ساتھ 79فیصد پاکستانیوں کی معیشت جڑی ہوئی ہے موجودہ بجٹ میں زراعت کی ترقی کیلئے کچھ بھی نہیں رکھا گیا موجودہ حکمران دھنیا تک انڈیا سے برآمد کرتے ہیں جلانے والی لکڑی 400روپے من کے حساب سے بکتی ہے لیکن گنا جس سے بنیادی ضرورت چینی بنتی ہے 150روپے من بک رہا ہے جس میں سے گنا پیدا کرنے والا کسان 25روپے کٹائی اور25کیرج کی مد میں ادا کرتا ہے اور جب شوگر ملز کے ایجنٹ جن کی گنا خریداری مراکز کے نام پر لوٹ مار کی دکانیں قدم قدم پر سیزن کے دوران چلتی ہیں کے پاس جب یہ گنا پہنچتا ہے تو وہاں من کی اکائی 40کلو گرام کے بجائے 45کلو گرام ہو جاتی ہے 70یا 80روپے کسان کو ملتے ہیں اور اکثر اوقات شوگر ملز مافیا یہ ادائیگی روک دیتا ہے جبگہ اُس کی چینی کے دام بڑتے رہتے ہیں زرعی لوازمات کی شکل میں زرعی مشینری پر حکومت کی جانب سے ملنے والی سبسڈی کا فائدہ بھی براہ راست تاجر اُٹھاتا ہے اِس کا اگر کسان کو مفاد ہوتا تو ٹریکٹر کی مانگ 100فیصد سے 51فیصد پر آکر نہ رکتی کسان کا تن لباس سے بے نیاز رہتا ہے کسانوں کے اندر یہ احساس اب نہیں رہا کہ گرمیوں میں کونسا لباس پہننا ہے اور سردیوں میں کونسا لباس زیبِ تن کرنا ہے عزیز الر حمان نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا کہ زراعت کو تباہ کرنے والے یہ سوچ لیں کہ فلورملز ،شوگرملز سے لیکر ٹیکسٹائل انڈسٹری تک کا پہیہ زراعت سے چلتا ہے 20کروڑ افراد کا اناج کسان پیدا کرتا ہے ،پھل ،سبزیاں ،دودھ تک شہروں میں کسان لاتا ہے اگر زراعت نہ رہی تو صنعت کاروں کی صنعتیں بھی نہیں بچیں گی ،شہری دودھ کے ایک ایک قطرے کو ترسیں گے موجودہ بجٹ میں کسان کیلئے کچھ بھی نہیں میں نے عزیز الرحمان شلولی کی باتیں سنیں اور اُسے یاد دلایا کہ جس ملک کا بجٹ آئی ایم ایف کے تنخواہ دار ملازم بنائیں جس ملک کا وزیر خزانہ دھرتی ماں کا حسن نوچ کر منی لانڈرنگ سے بیرونِ ملک اربوں ڈالر کے صنعتی ایمپائر بنائے ،اور وزیر اعظم 200ارب ڈالر کے کثیر سرمائے سے بیرونِ ملک ملیں ،مے فیئر اپارٹمنٹس بناکر عوام کے سامنے جوابدہ نہ ہو وہاں حکمرانوں کے اندر حب الوطنی کا جذبہ مر جاتا ہے جہاں حکمرانوں کے ذاتی مفادات ریاست کے مفادات پر غالب آجائیں وہاں ریاست کے حوالے سے ماں کا تصور ختم ہو جاتا ہے
یہ موسم سرما کی ایک کہر آلود رات تھی بستر استراحت کو چھوڑنا محال تھا مگر چارااور کماد کی فصل کیلئے پانی ضروری تھا ورنہ مویشی بھوکوں مرجاتے کیونکہ پانی کی فصل کی ترسیل کسی وقت بھی منقطع ہو جاتی اور پانی کی ترسیل رکنے کا سلسلہ بیشتر اوقات مہینوں پر محیط ہوجاتا والد نے لاکھ منع کیا کہ اس سردی میں نہ جاؤ بیوی کا اصرار بھی رمضان کے ارادہ میں دراڑ نہ ڈال سکا وہ بستر کی نرمی اور گرمی کو خیر باد کہہ کر رات کے بارہ بجے کسی اپنے کندھے پر رکھ کر کھیتوں کی جانب چل پڑا سردی کی شدت اپنے نقطہءِ عروج کو چھو رہی تھی رمضان نے پانی اپنے کھیت کی طرف موڑا اور ننگے پاؤں کھیتوں کی نگرانی شروع کر دی اسی دوران جب وہ ایک کیارے میں پانی موڑ رہا تھا پانی کے کٹاؤ کی جگہ پر چھپے ایک کالے ناگ نے اُس کے پاؤں پر کاٹ لیا رمضان نے اُسے مارنے کی کوشش کی مگر وہ اُس کی دسترس سے نکل گیا زہر نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا مگر رمضان پانی کو مکمل کئے بغیر جانے کیلئے تیار نہ تھا وہ سانپ کے کاٹے کو معمولی سمجھ رہا تھا جب زہر نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا تورمضان کا جسم ٹوٹنے لگا مگر وہ اپنے کھیتوں کی پیاس بجھانے کیلئے پانی کی ترسیل کو مکمل کرنے کا خواہاں تھا قوتِ مدافعت جواب دینے لگی تو وہ گھر پہنچا اپنی بیوی کو تمام حال کہہ سنایا باپ جو دوسرے کمرے میں سویا ہوا تھا آوازیں سن کر اُٹھ بیٹھا اور رمضان سے ماجرا پوچھا رمضان سے جب حقیقت حال کا پتہ چلا تو تو اُنہوں نے جوہر آباد ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال جانے کی جلدی کی جب باپ اور اُس کے قریبی عزیز جنہیں صورت حال کا پتہ چل چکا تھا لیکر روانہ ہوئے لبوں پر رمضان کی زندگی کی دعائیں تھی مگر موت رمضان کی سانسوں کے قریب تر ہوتی جارہی تھی کسی کی دعا رنگ نہ لائی کیونکہ وقت بہت گزر چکا تھا رمضان جانبر نہ ہوسکا اُس نے مرکز مسیحائی کی دہلیز پر دم توڑ دیا ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ اگر آپ ایک گھنٹہ پہلے پہنچ جاتے تو متوفی کی جان بچائی جاسکتی تھی رمضان اپنی اراضی کی پیاس بجھانے کیلئے موت کے منہ میں چلا گیا کئی برس پہلے کا یہ واقعہ مجھے اُس روز یاد آیا جب کسانوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والے خوشاب کے ملک عزیز الرحمٰن شلولی نے کسانوں کا استحصال کرنے والے صنعتکار اقتداریہ طبقہ کی طرف سے زراعت کو تباہ کرنے کے منصوبہ کو بے نقاب کرتے ہوئے بتایا کہ کسان تو سانپ کے منہ پر دسمبر کے کڑکتے جاڑوں میں پانی لگاتا ہے اور جب فصل کی بار آوری ہوتی ہے تونرخوں کی منڈی میں اُس کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا 23قسم کے ٹیکسز میں اُس کا بال بال جکڑا ہوا ہے عزیز الرحمان نے دور خلا میں گھورتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی واحد صنعت زراعت ہے جس کے ساتھ 79فیصد پاکستانیوں کی معیشت جڑی ہوئی ہے موجودہ بجٹ میں زراعت کی ترقی کیلئے کچھ بھی نہیں رکھا گیا موجودہ حکمران دھنیا تک انڈیا سے برآمد کرتے ہیں جلانے والی لکڑی 400روپے من کے حساب سے بکتی ہے لیکن گنا جس سے بنیادی ضرورت چینی بنتی ہے 150روپے من بک رہا ہے جس میں سے گنا پیدا کرنے والا کسان 25روپے کٹائی اور25کیرج کی مد میں ادا کرتا ہے اور جب شوگر ملز کے ایجنٹ جن کی گنا خریداری مراکز کے نام پر لوٹ مار کی دکانیں قدم قدم پر سیزن کے دوران چلتی ہیں کے پاس جب یہ گنا پہنچتا ہے تو وہاں من کی اکائی 40کلو گرام کے بجائے 45کلو گرام ہو جاتی ہے 70یا 80روپے کسان کو ملتے ہیں اور اکثر اوقات شوگر ملز مافیا یہ ادائیگی روک دیتا ہے جبگہ اُس کی چینی کے دام بڑتے رہتے ہیں زرعی لوازمات کی شکل میں زرعی مشینری پر حکومت کی جانب سے ملنے والی سبسڈی کا فائدہ بھی براہ راست تاجر اُٹھاتا ہے اِس کا اگر کسان کو مفاد ہوتا تو ٹریکٹر کی مانگ 100فیصد سے 51فیصد پر آکر نہ رکتی کسان کا تن لباس سے بے نیاز رہتا ہے کسانوں کے اندر یہ احساس اب نہیں رہا کہ گرمیوں میں کونسا لباس پہننا ہے اور سردیوں میں کونسا لباس زیبِ تن کرنا ہے عزیز الر حمان نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا کہ زراعت کو تباہ کرنے والے یہ سوچ لیں کہ فلورملز ،شوگرملز سے لیکر ٹیکسٹائل انڈسٹری تک کا پہیہ زراعت سے چلتا ہے 20کروڑ افراد کا اناج کسان پیدا کرتا ہے ،پھل ،سبزیاں ،دودھ تک شہروں میں کسان لاتا ہے اگر زراعت نہ رہی تو صنعت کاروں کی صنعتیں بھی نہیں بچیں گی ،شہری دودھ کے ایک ایک قطرے کو ترسیں گے موجودہ بجٹ میں کسان کیلئے کچھ بھی نہیں میں نے عزیز الرحمان شلولی کی باتیں سنیں اور اُسے یاد دلایا کہ جس ملک کا بجٹ آئی ایم ایف کے تنخواہ دار ملازم بنائیں جس ملک کا وزیر خزانہ دھرتی ماں کا حسن نوچ کر منی لانڈرنگ سے بیرونِ ملک اربوں ڈالر کے صنعتی ایمپائر بنائے ،اور وزیر اعظم 200ارب ڈالر کے کثیر سرمائے سے بیرونِ ملک ملیں ،مے فیئر اپارٹمنٹس بناکر عوام کے سامنے جوابدہ نہ ہو وہاں حکمرانوں کے اندر حب الوطنی کا جذبہ مر جاتا ہے جہاں حکمرانوں کے ذاتی مفادات ریاست کے مفادات پر غالب آجائیں وہاں ریاست کے حوالے سے ماں کا تصور ختم ہو جاتا ہے