چلے گئے وہ روشنی بکھیرنے والے چراغ
اب اندھیروں میں ڈھونڈتے ہیں ہم ان کے سراغ
ضلع لیہ کے علاقے دھوری اڈہ دانش چوک کی فضائیں یکم اگست 2025 بروز جمعہ مبارک کے روز ایک ایسے شخص کے بچھڑنے پر سوگوار ہو گئیں جس نے اپنی زندگی ادب، صحافت اور سماجی خدمت کے لیے وقف کر دی۔ شاعر، صحافی اور سماجی رہنما میاں اقبال دانش بروز جمعہ المبارک خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کی رخصت نے جہاں اہلِ خانہ کو غمزدہ کیا وہیں ادبی و صحافتی حلقے بھی اس نقصان کو ناقابلِ تلافی قرار دے رہے ہیں۔
میاں اقبال دانش 4 جنوری 1962 کو ضلع وہاڑی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی زندگی گزارنے کے بعد وہ دھوری اڈہ، ضلع لیہ میں آ کر بس گئے۔ یہی خطہ ان کی عملی زندگی کا مرکز بنا اور یہیں انہوں نے ادب، صحافت اور سماجی خدمات کے وہ نقوش چھوڑے جو مدتوں یاد رکھے جائیں گے۔
ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ادب سے محبت تھا۔ انہیں پنجابی زبان و ادب سے خاص لگاؤ تھا۔ وہ دھرتی کی خوشبو اور عوامی جذبات کو اپنے اشعار میں سمو دیتے تھے۔ ان کی شاعری کا مجموعہ "دھوری نامہ” آج بھی اس خطے کی ثقافت اور جذبات کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے۔ ان کے اشعار میں سادگی کے ساتھ دلوں کو چھو لینے والی گہرائی پائی جاتی تھی۔
صحافت کے میدان میں بھی میاں اقبال دانش نے اپنے نقوش چھوڑے۔ وہ چوک اعظم کے پریس کلب میں انجمنِ صحافیاں کے صدر رہے۔ ان کے دور صدارت میں کئی قومی اور صوبائی سطح کی شخصیات پریس کلب کے پروگرامز میں شریک ہوئیں۔ ان کی قیادت میں صحافت کو ایک نئی جہت ملی اور مقامی صحافیوں کو اپنی شناخت قائم کرنے کا حوصلہ ملا۔ وہ مختلف قومی و علاقائی اخبارات سے وابستہ رہے اور ان کے مضامین و کالمز شائع ہوتے رہے۔ یہی نہیں بلکہ صحافت اور سماجی خدمات کے اعتراف میں انہیں مختلف تقریبات میں اعزازات اور شیلڈز سے بھی نوازا گیا۔
میاں اقبال دانش کی سرگرمیاں صرف ادب و صحافت تک محدود نہ تھیں۔ وہ دھوری اڈہ کی انجمن تاجران میں بھی متحرک کردار ادا کرتے رہے۔ تاجروں کے مسائل کو اجاگر کرنا، ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا اور اتحاد و بھائی چارے کو فروغ دینا ان کے کارناموں میں شامل تھا۔ وہ ہمیشہ عوامی فلاح کے لیے کوشاں رہتے اور دھوری اڈہ کے مسائل کے حل کے لیے عملی جدوجہد کرتے۔
ان کی ذاتی زندگی میں ایک اور پہلو بھی نمایاں تھا اور وہ ان کی خوش اخلاقی تھی۔ ان کی ہنس مکھ طبیعت نے انہیں دوستوں کے درمیان بے حد مقبول بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص یہ محسوس کرتا کہ میاں صاحب کا سب سے قریبی تعلق اسی سے ہے۔ ان کے گہرے تعلقات رکھنے والوں میں محمد بوٹا شاکر، ملک شہزاد افق تھہیم راقم محمد عمر شاکر غلام عباس سندھو، طارق نفیس، ملک صابر عطاء تھہیم مرزا رضوان بیگ محمد ارشد سفیر جیسے مخلص دوست شامل تھے۔ مگر دراصل ان کی محبت اور خلوص کی وسعت اتنی تھی کہ ہر ملنے والا اپنے آپ کو ان کا خاص دوست سمجھتا تھا
ملک صابر عطاء تھہیم کچھ عرصہ سے میاں اقبال دانش کے اعزاز میں ایک شام کے منانے کا پروگرام ترتیب دینے کے بارے مجھ سے مشاورت کر رہے تھے مگر شائد قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا
ان کی وفات پر اہلِ علاقہ، ادبی و صحافتی شخصیات اور سماجی رہنماؤں نے گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا ہے۔ سب کا کہنا ہے کہ میاں اقبال دانش ایک ہمہ جہت شخصیت تھے جو قلم کو امانت سمجھتے، ادب کو زندگی کی روح مانتے اور خدمت کو عبادت سمجھتے تھے
میاں اقبال دانش کا بیٹا سلطان دانش اب میاں صاحب کا جانشیں بن کر انکی روایات کو امید ہے اچھے انداز میں آگے بڑھائیں گے
اللہ سبحانہ وتعالی میاں اقبال دانش کو اپنی جوارِ رحمت جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین و احباب کو صبرِ جمیل عطا کرے۔
ان کی یاد میں یہ تعزیتی شعر ان کے چاہنے والوں کے دل کی آواز ہے
یادیں تری جگا کے دلوں میں چراغ ہیں
تو جا چکا ہے پھر بھی ہمارے ساتھ ہے










