تحریر ۔۔… انجم صحرائی
اس واقعہ کے راوی ہمارے ایک مہربان دوست ہیں جو عر صہ ہوا لیہ چھوڑ کر لا ہور جا بسے ہیں ۔ ان کے مطا بق بہت سال پہلے وہ اسلم موڑ پر واقع ایک سیلون پر شیو بنوا رہے تھے کہ محلے کے ایک باریش صاحب آئے اور دکان میں پڑی بنچ پر بیٹھتے ہی اپنی کتھا سنا نا شروع کر دی ۔ وہ بہت آ وازار اور غصے میں لگ رہے تھے انہیں بہت ہی شکایت تھی حال میں حج درخواستوں کی ہو نے والی قر عہ اندازی پر ، انہیں گلہ تھا مقدر پر اور اپنی قسمت پر، انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ قر عہ اندازی میں کا میاب ہو نے والوں کا میرٹ کیا ہے ،انہیں شکا یت تھی ان ہا تھوں سے جنہوں نے ان کے نام کی پرچی نکا لنے کی بجا ئے اس شہر کے نامی گرامی ۔ ۔ ۔ کے نام کی پرچی نکال دی ۔ ۔ مو لوی بہت ناراض تھا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے اس کی ریاضت ، عبادت اور دعاءوں کے مقابلہ میں اس شہر کے نامی گرامی ۔ ۔ ۔ ۔ کو حج اکبر کر نے کی اجازت مل گئی ۔ تمہیں پتہ ہے نا ۔ ۔ ۔ وہ کیا کاروبار کرے ہے ۔ پکا راکھواں بد معاش ہے ۔ چرس افیم وہ بیچے ہے ۔ گھر میں شراب وہ بناوے ہے سب محلے والوں کو پتہ ہے ، گھر میں کچی شراب بنانے کی بھٹیاں لگا رکھی ہیں سارے شہر میں سپلائی کرے ہے ۔ اب وہ حج کر رہا ہے اور ہم گھر میں بیٹھے ہیں ۔ ۔ بس اللہ کی اللہ ہی جا نے ۔ ۔
میری شیو ہو چکی تو میں نے مو لوی کی طرف توجہ دی ۔ ۔ اور پو چھا کیا تم اسے جانتے ہو کبھی ملے ہو اس نامی گرامی سے ۔ ۔
میری شیو ہو چکی تو میں نے مو لوی کی طرف توجہ دی ۔ ۔ اور پو چھا کیا تم اسے جانتے ہو کبھی ملے ہو اس نامی گرامی سے ۔ ۔
نہیں ملا تو نہیں لیکن سارا شہر جا نے ہے میں کوئی غلط تو نہیں کہہ رہا مو لوی بو لا ۔ میں نے کہا نہیں تم غلط نہیں کہہ رہے ہو لیکن ا گر تم ان سے کبھی ملو تو دیکھنا وہ اپنا دا یاں ہاتھ ہمیشہ اپنے کرتے کی دائیں جیب میں رکھتے ہیں ۔ ۔ پتہ ہے کیوں۔۔۔ وہ اس لئے کہ وہ نا می گرامی کسی کو بھی اللہ کے نام پر سوال کرنے والے کو مایوس نہیں کرتا ، جب بھی سوال ہوتا ہے دایاں ہاتھ کی بند مٹھی دائیں جیب سے نکالتا ہے اور بغیر دیکھے اللہ کی راہ میں خیرات کر دیتا ہے ۔ وہ نہیں دیکھتا کہ پانچ ہیں پچاس ہیں یا پانچ ہزار ۔ ایک بار میں نے اس شاہ خرچی پر اسے ٹوکتے ہو کہا یار ۔ ۔ ۔ حاتم طائی بنے ہوئے ہو ۔ ۔ دیکھ تو لیا کرو ،کیا دے رہے ہو، کسے دے رہے ہو ، کتنا دے رہے ہو ۔ ۔
اس نے بڑی سنجیدہ حیرانی سے مجھے دیکھا جیسے اسے مجھ سے ایسے سوال کی توقع نہیں تھی اور آہستہ سے بولا ۔ ۔ "شیخ توں تاں میکوں جانداں ہائیں ۔ ۔ میڈی کیا ہستی ، میں کیں کو کیا ڈے سگداں ۔ ۔ میڈے کیہٹرے پیو دی کمائی ہے ۔ ۔ جیہڑا ڈینڈا پئے اوں دے بندیاں کو میں ڈے ڈینڈا ۔ ۔ میڈا کیا کمال ہے ۔ ۔ میں کیوں ڈیکھاں ۔ ۔ جیند امال اے اوہ جانے تو اوندا گھنن آ لا ۔ سا کو کیا "۔ ۔
اس نامی گرامی نے حج اکبر کیا واپسی پر سب چھوڑ چھاڑ محلے کی مسجد کا ہو گیا ۔ زندگی کے باقی سبھی دن ایسے گذارے کہ شہر تو شہر محلے والے بھی اس نامی گرامی ۔ ۔ ۔ کو بھول گئے ۔ ۔ ۔ نامی گرامی ۔ ۔ ۔ مسجد کا بابا بن کر اللہ کے حضور پیش ہو گیا ۔
موضوع سے جڑ ا ایک اور واقعہ..
لیّہ شہر میں دو” آ ویاں” ہیں جہاں کمہار اپنےہاتھوں سےبناے مٹی کے برتنوں کو آگ میں پکاتے ہیں اسے سرائیکی میں” آ وی”کہتے ہیں انہی میں سے کسی آ وی کے قرب و جوار میں ایک صاحب رہتے تھے پرائویٹ ملازم تھے ایک ہی بیٹا تھا جو زیر تعلیم تھا ..
دروغ بر گردن راوی صاحب جواری تھے انہیں جنون کی حد تک جوا کھیلنے کا شوق تھا . بیٹا تعلیم مکمل کر کے روزگار کے لئے سعودی عرب چلا گیا اچھا دور تھا روپے کی قیمت مستحکم تھی ..صاحب کی لاٹری نکل آئی، .بیگم فوت ہو چکی تھی اور باہر سے خرچہ آ جاتا ، کہتے ہیں صاحب سگرٹ پیتے اور جوا کھیلتے ..دن اچھے گزر رہے تھے کہ بیٹے کا خط ملا لکھا تھا بابا میں نے خرچہ کے
ساتھ حج کے لئے پیسے بھی بھیجے ہیں اپ پیسے نکلوا کر ماموں سے رابطہ کریں انہوں نے بھی حج درخواست جمع کرانا ہے آپ کی بھی درخواست جمع کرا دیں آپ بھی حج کر لیں .کہتے ہیں بیٹے کا یہ خط پڑھ کر صاحب بہت روے ..خلاف معمول مغرب کی نماز مسجد میں
با جماعت پڑھی نماز کے بعد امام صاحب کو بیٹے کا خط پڑھایا اور پوچھا امام صاحب میں تو جواری ہوں گنہگار ہوں قبول ہو جاے گی میری حاضری . امام صاحب نے تسلی دی اور کہا توبہ کر لو سچے دل سے۔۔ بس ..الله توبہ قبول کرنے والا ہے .صاحب نے توبہ کی اور جوا چھوڑنے کا عہد کیا ..اگلےدن بنک سے پیسے نکلواۓ اور گھر سے چلے بیٹے کے ماموں سے ملنے … کہ حج کی درخواست اور فیس جمع کرا سکیں ..
گھر سے نکلے ابھی چند ہی قدم چلے ہوں گے کہ پڑوس کے ایک مکان سے رونے کی گھٹی گھٹی سے آواز سنائی دی ۔ صاحب رک گئے ، اندازہ لگایا کہ آواز کہاں سے آرہی ہے اور کون رو رہا ہے ، وہ ایک کمرے کا کچہ سا گھر تھا جہاں سے آواز آرہی تھی صاحب اس گھر میں رہنے والی ماں بیٹی کو جا نتے تھے ،بوڑھی ماں بیوہ تھی اور جوان بیٹی یتیم ، صاحب نے ادھ کھلے دروازے پر دستک دی ۔ اندر سے آواز آئی ۔۔ کون ؟ بھرجائی میں ہاں ۔۔
بھرا ۔۔لنگھ آ دروازہ کھلا ہے ۔۔ صاحب اندر چلے گئے اور صحن میں پڑی ایک ٹوٹی سی چا رپائی پر بیٹھ گئے ۔ پتہ چلا کہ بیوہ ماں نے بیٹی کی شادی کرنا ہے دن مقرر ہو چکے ہیں مگراخراجات کے لئے رقم نہیں ۔جوں جوں شادی کے دن قریب آ رہے ہیں پریشانی بڑھتی جا رہی ہے ، اب ماں بیٹی کے پاس رونے کے سوا کوئی راستہ نہیں ۔۔ بیٹی روتی ہے تو ماں دلاسا دیتی ہے اور ماں روتی ہے تو بیٹی آ نسو پو نچھتی ہے ۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کیا کریں ۔۔”ڈیکھ نا ایندا با با ہو وے ہاں کجھ کر گھنے ہاں ۔۔ ہن میں کیا کراں ۔۔ جیں جو گی ہاں حاضر ہاں ۔۔ جنج کو بھلاون واسطے کھٹراں وی کو ءی نہیں ۔۔ اللہ ما لک ہے” ۔۔ صاحب ان کے حالات سے پہلے بھی واقف تھے ماں سچ بول رہی تھی ۔۔ بیٹے کی طرف سے بھیجے ہوئے حج کے ایک لاکھ روپے صاحب کی جیب میں تھے ۔ دل چاہا یہ سارے پیسے ماں بیٹی کو دے دیں ۔۔پھر سوچا حج ۔۔ عجب مخمصہ کا شکار ہو گئے ۔۔ آ خر دل نے فیصلہ کیا کہ اللہ نے چاہا اور نصیب میں ہوا توحج بعد میں بھِی ہو جاءے گا ۔۔ ابھی یتیم بچی اور بوڑھی ماں کو حوصلہ دینا ضروری ہے ۔ صاحب نے یہ سوچا اور ساری رقم بیوہ ماں کو دے دی کہ وہ آ سانی سے بیٹی کی شادی کر سکے ۔ حج آ یا تمام عزیز رشتہ دار حج پر چلے گئے ، صاحب نہ جا سکے ۔ ۔ سبھی کی متفقہ رائے تھی کہ بندہ پکا ٹھکا جواری ہے بازی لگا لی ہو گی پیسے جوئے میں ہار گیا ہو گا ۔۔ حج کیسے کرتا ۔۔
بیٹا با نصیب تھا ۔۔ اس نے اگلے سال ایک بار پھر حج کے لئے رقم بھیج دی ۔۔ لیکن ابو کی بجاے اپنے ما موں کے اکاءونٹ میں ۔۔ صاحب کے مقدر میں سفر حج ہو گیا ۔ دوران حج صاحب بیمار ہو ئے اور وہیں اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ قبر کی جگہ بھی وہیں نصیب ہو ئ ۔۔
صاحب کی موت کی خبر سن کر تعزیت کے لئے آ نے والی بوڑھی بیوہ نے زارو قطار آنسو بہاتے ہو ئے جب یہ واقعہ سنایا تب پتہ چلا کہ صاحب جواری نہیں تھے ۔ انہوں نے حج کی رقم سے جوا نہیں کھیلا تھا بلکہ اللہ کے ضرورت بندوں کے آ نسو پو نچھے تھے ۔۔
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے کرم کی بات ہے
اللہ کے بندوں کی خدمت یقیناللہ کی بارگاہ میں سر خروئی اور آقا سرکار ﷺ کی شفاعت کے حصول کا ایک یقینی ذریعہ ہے ۔
یارمیرٹ پر آنا ہے تو اللہ کے بندوں سے محبت کرنا شروع کردیں ۔ ۔
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں ، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا