قدرت کے کارخانے میں حسن ،سچائی، روشنی اور حکمت کے بے شمار رنگ ہیں اور رنگ جب باتیں کرنے لگیں تو خوشبو سی بکھر نے لگتی ہے ،
رضا علی عابدی ، ادب ،ثقافت اور آواز کی دنیا کا روشن ستارہ ہی نہیں بلکہ آفتاب ہیں ، کہتے ہیں کہ اُردو صرف ایک زبان نہیں یہ تو ایک مکمل تہذیب و ثقافت اور معاشرت ہے اس کے الفاظ استعارے نہیں بلکہ ستارے ہیں جو روشنی ،جگنو اور راحت جیسے ہیں ،
اُردو سے ہماری محبت زندگی جیسی ہے ، اپنی ماں بولی ،،، سرائیکی زبان ،،، کی شیرینی تو روح کی طرح ہے لیکن ہمیں پنجابی اور سندھی سے بے لاگ الفت ہے۔ یوں تو سبھی زبانیں اپنے ،اپنے اظہار کے لیے ہیں لیکن جب کبھی اس اظہار میں ،،،، مظاہرہ ، ہو جائے تو معاملات بگڑنے لگتے ہیں پھر عربی جیسی مقدس زبان بھی تکلیف دہ ہو جاتی ہے ،،،
ہم دنیا میں تکلیف دینے کے لیے نہیں بھیجے گئے بلکہ تکلیف سہنے اور کم کرنے کی خاطر آئے ہیں ،، بس ایک دوسرے کی قدر و عزت کیجیے کہ محبت سے بڑا درجہ ہے،
ہمارے ایک محبت بھرے دوست سید کیوان قدر گیلانی کے والد سید محی الدین شان اور والدہ سیدہ انجم گیلانی مرحوم و مغفور کمال کے لوگ تھے جو اپنے اثاثوں میں نیک صالح اولاد اور اردو و سرائیکی کی یادگار نگارشات چھوڑ گئے ،،،
شان صاحب ، ادب ،صحافت اور شاعری کے شہسوار تھے اور انجم صاحبہ نے بہت کچھ لکھا ،مجھے ان کے سرائیکی زبان کی ضرب المثال و محاورے زیارت ہوئے ،،، دل باغ باغ ہو گیا ،
دنیا کے اس باغ کو اجاڑنے والوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں لیکن قدر کرنے والے مالی بھی ، گلستان کو اپنے خونِ جگر سے سجائے جاتے ہیں ،، سرائیکی زبان کے اس محاورہ پر توجہ کیجئے گا کہ
قدر والے دی باندی ہوواں ،
تے بے قدرے دی بی بی ویہہ نہ ہوواں ،،،
اس کا سادہ ترین مطلب یہ ہے کہ جو قدر یعنی عزت کرنے والے ہیں ان کی تو غلامی بھی قبول ہے مگر بے قدر لوگوں کی ملکہ بننا گورا نہیں ،،
ویسے تو دنیا میں بے قدر لوگوں کی اکثریت ہے مگر قدر کرنے اور احساس کرنے والے لوگ ہی ظلم ،جبر ، ناانصافی اور گھٹن کے ماحول میں آسودگی کی روشنیوں جیسے ہیں ان کے دم سے سانس لینے میں دشواری کم ہو جاتی ہے ،
آپ نے بھی سنے ہونگے اور ہم نے سنے ہیں لیکن کبھی بھی سقراط اور بقراط بننے کی کوشش نہیں کی ، آپ بھی نہ کیجئے گا ، بس ایک سقراتی بات سنیے ،
سقراط نے ایک بار کہا تھا۔
"اگر کوئی گدھا مجھے لات مارتا ہے تو کیا میں اس پر مقدمہ کروں گا، شکایت کروں گا یا اسے واپس لات ماروں گا؟”
بات یہ نہیں کہ ہر مباحثہ جیتا جائے یا ہر دلیل میں کامیابی حاصل کی جائے، بلکہ یہ ہے کہ اپنی توانائی ان لوگوں پر صرف کی جائے جو اس کے مستحق ہوں۔
جہالت چیختی ہے، جبکہ عقل خاموش رہتی ہے۔ جب کسی کے پاس دینے کے لیے توہین اور شور شرابے کے سوا کچھ نہ ہو، تو سب سے طاقتور جواب خاموشی ہے۔
کسی ایسے شخص کی سطح پر مت گریں جو محض تنازعات کے لیے کوشاں ہو۔
سچی ذہانت کو خود کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ اپنی روشنی سے خود بخود نمایاں ہو جاتی ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ خود بخود ، کن فیکون کے قریب ترین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ لفظ کہا اور بہت کچھ ہو گیا ، اچھا یہ بھی انسان کو سمجھانے کے لیے ہے ورنہ کن فیکون تک مجھ جیسے کم ترین کے لیے تو ممکن نہیں ، آپ بھی نہ الجھیے ۔ بس قدر کیجئے اس کن فیکون کی مخلوق کی جس کی صحیح تعداد صرف مالک کائنات کو ہے،
قدر کیجیے اس احسان کی کہ ہمیں انسان بنایا اور دین حق یعنی اسلام عطا کیا ، قدر کریں کہ مالک نے ہمیں اپنی بندگی کرنے سے سرفراز فرمایا ، اب آپ مزید آسان ہوگا کہ
قدر والے دی باندی ہوواں ،
تے بے قدرے دی بی بی ویہہ نہ ہوواں ،،،،
ہمیں مالک کل نے ، اپنی ملکیت میں رکھا ہے یہی ہمارا اعزاز ہے










