• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

"میں” کی کہانی … انجم صحرائی

webmaster by webmaster
اگست 9, 2025
in First Page, کالم
0
"میں” کی کہانی … انجم صحرائی

"میں” کی کہانی
انجم صحرائی
پچاس پچپن سالہ صحافی کیرئیر کے با وجود میں ابھی بھی طفل مکتب ہوں کبھی سینیر ,استاد اور کبھی مضمون صحافت سے مکمل آگہی کا د عوی نہیں کیا .جاننے اور سمجھنے میں بڑآ فرق ہے , اور اس جاننے سمجھنے اور سیکھنے کا عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے .سو میرے جاننے سمجھنے اور سیکھنے کا عمل آج بھی جاری ہے , میں کتابیں پڑھتا ہوں کتابیں میری رہنما ہیں میرے جاننے اور مشاہدے کو سمجھانے میں میری رہنمائی کرتی ہیں اور کتاب زیست کے نت نئے مشاھداتی کردار میری آشنائی اور آگہی میں اضافہ کرتے ہیں اور مجھے یقین کی راہ دکھاتے ہیں ..
آج کل عبد الله حسن کی کتاب who Am I”میں کون ہوں” پڑھ رہا ہوں..
میں کوئی آئیڈل شخصیت نہیں ہوں کہنے والے کہہ سکتے کہ میں نے زندگی میں کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کیا نہ سیاست اور نہ ہی صحافت.سیاست میں نصف صدی کی ناکام اننگ کھیلی اسی طرح میدان صحافت میں بھی کوئی جھنڈے نہیں گاڑسکا .میں روایتی صحافت اور روایتی سیاست کے اصول ضوابط سے نا آشنا ہی رہا .. وہ ایک شعر ہے نا
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند ..
لیکن ناکام سیاست اور ناکام صحافتی سفر نے مجھے نظریہ آشنا ضرور کیا .ضروری نہیں کہ آپ میرے نظریہ کی تائید کریں اپ کو اختلاف کا پورا حق ہے ,میں اختلاف را ے کے حق کو معتبر جانتا ہوں تسلیم کرتا ہوں اور اورنہ ہی پسند و نا پسند کی بنیاد پر لفظوں کی چاند ماری پر یقین رکھتا ہوں ..
میں نظریات میں شدت پسندی اور عامیانہ رویوں کا قائل نہیں…محبت اور جنگ میں سب جائز ہے کے فلسفہ پر یقین نہیں رکھتا وہ اس لئے کہ "ام الکتاب” میں محبت اور جنگ کی حدود اور اصول ضوابط بارے کھلے احکامات موجود ہیں .اور میری ادنی کوشش ہوتی کے ان اصولوں کو مد نظر رکھوں اپنے نقطہ نظر کے اظہار میں تاکہ زندگی آسان رہے .
میں اور تو ….
یارو ہماری زندگی کا خاصہ حصہ میں میں اور تو تو کی ہی تکرار میں گزر جاتا ہے ..میں مکمل اور تو ادھورا .. ہمارا سارا ارتکاز ہماری ساری توجہ "میں”کی بجاے تو.. تو کی تکرار میں گزر جاتی ..
اب یہ مویا نظریہ جو میری زندگی میرے سر پر سوار رہا یہ لفظ جس نے ساری زندگی ہمارے ذہن میں اودھم مچاے رکھا یہ ہے کیا ..
میں تویہ سمجھاہوں ہوسکتا آپ اسے درست نہ جانیں کہ لگتا یہ "میں” اور "نظریہ” دونوں ایک ہی قبیل کے دو لفظ ہیں , ایک دوسرے کے بغیر بندے کی کہانی مکمل نہیں ہوتی یہ وہ بیانیہ ہے جو بندہ اپنی ضرورت اپنی خواہشات کے تابع گھڑتا ہے , سوری میں آفاقی نظریات کی بات نہیں کر رہا میں اس نظریہ کا ذکر کر رہا ہوں جو وقتی انسانی ضرورتوں کے مطابق تشکیل پاتا ہے یہ وہ ادھوری تشنہ خواہشات کا مجموعہ ہوتا ہے جنھیں بندہ پورا ہوتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے .اور تشنہ خواہشات پر مشتمل بندے کا یہ نظریہ وقت کے مطابق تبدیل ہوتا رہتا ہے شاید اسی کو ہمارے ہاں نظریہ ضرورت کا نام دیا گیا, مزے کی بات یہ ہے کہ ہم وقتی ضرورت کے تناظر میں بناے گئے اپنے نظریہ اور بیانیہ کو آفاقی نظریہ کےاسلامی ٹچ دے کر اسے مذہبی جواز اور اخلاقی سند دینا بھی اپنا حق سمجھتے ہیں .ہمیں اپنے سے غرض نہیں میں تو ماورا سچا دودھ میں دھلادیانتدار, امین نیک اخلاقی اقدار و روایات کی اعلی ترین مسند پر پہلے ہی دن سے براجمان , مجھے اپنی نہیں سماج اپنے اس پڑوس میں رہنے والوں کی اپنےسے ہاتھ ملانے والوں اپنے قرابت داروں کی سب کی فکر ہے ..میں ان کی اصلاح چاہتا ہوں ..
میں …میں ..میں اور بس میں.. بھائی یہ ہے نظریہ ضرورت ..اس "میں” کے حصار سے بندہ کبھی نکلے , اس پڑوس کی سر گوشیاں میں …میں ..کی چیخ پکار سےبند کانوں کو سنائی دیں تو پتا چلے پانی کی گہرائی کا ..بس تو ..تو. تو اور میں..میں..میں کی یہی تکرار ہمارے راستے کھوٹے کر رہی .
اوہ بھائی نہ میں نہ تو ..جو ہے بس وہی تھا وہی ہے اور وہی رہے گا

Tags: column by anjum sehrai
Previous Post

دِلوں کا مسیحا ۔۔ ڈاکٹر ظفر ملغانی ، تحریر۔۔۔ ارشاد راۓ

Next Post

کوٹ سلطان ۔منّظور بھٹہ کی کی کتاب "گزری وہا و نڑی ” اور افتخار ملک کی ‘عشق رقاص ‘کی تقریب رونمائی

Next Post
کوٹ سلطان ۔منّظور بھٹہ کی کی کتاب "گزری وہا و نڑی ” اور افتخار ملک کی ‘عشق رقاص ‘کی تقریب رونمائی

کوٹ سلطان ۔منّظور بھٹہ کی کی کتاب "گزری وہا و نڑی " اور افتخار ملک کی 'عشق رقاص 'کی تقریب رونمائی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025

"میں" کی کہانی
انجم صحرائی
پچاس پچپن سالہ صحافی کیرئیر کے با وجود میں ابھی بھی طفل مکتب ہوں کبھی سینیر ,استاد اور کبھی مضمون صحافت سے مکمل آگہی کا د عوی نہیں کیا .جاننے اور سمجھنے میں بڑآ فرق ہے , اور اس جاننے سمجھنے اور سیکھنے کا عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے .سو میرے جاننے سمجھنے اور سیکھنے کا عمل آج بھی جاری ہے , میں کتابیں پڑھتا ہوں کتابیں میری رہنما ہیں میرے جاننے اور مشاہدے کو سمجھانے میں میری رہنمائی کرتی ہیں اور کتاب زیست کے نت نئے مشاھداتی کردار میری آشنائی اور آگہی میں اضافہ کرتے ہیں اور مجھے یقین کی راہ دکھاتے ہیں ..
آج کل عبد الله حسن کی کتاب who Am I"میں کون ہوں" پڑھ رہا ہوں..
میں کوئی آئیڈل شخصیت نہیں ہوں کہنے والے کہہ سکتے کہ میں نے زندگی میں کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کیا نہ سیاست اور نہ ہی صحافت.سیاست میں نصف صدی کی ناکام اننگ کھیلی اسی طرح میدان صحافت میں بھی کوئی جھنڈے نہیں گاڑسکا .میں روایتی صحافت اور روایتی سیاست کے اصول ضوابط سے نا آشنا ہی رہا .. وہ ایک شعر ہے نا
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند ..
لیکن ناکام سیاست اور ناکام صحافتی سفر نے مجھے نظریہ آشنا ضرور کیا .ضروری نہیں کہ آپ میرے نظریہ کی تائید کریں اپ کو اختلاف کا پورا حق ہے ,میں اختلاف را ے کے حق کو معتبر جانتا ہوں تسلیم کرتا ہوں اور اورنہ ہی پسند و نا پسند کی بنیاد پر لفظوں کی چاند ماری پر یقین رکھتا ہوں ..
میں نظریات میں شدت پسندی اور عامیانہ رویوں کا قائل نہیں…محبت اور جنگ میں سب جائز ہے کے فلسفہ پر یقین نہیں رکھتا وہ اس لئے کہ "ام الکتاب" میں محبت اور جنگ کی حدود اور اصول ضوابط بارے کھلے احکامات موجود ہیں .اور میری ادنی کوشش ہوتی کے ان اصولوں کو مد نظر رکھوں اپنے نقطہ نظر کے اظہار میں تاکہ زندگی آسان رہے .
میں اور تو ….
یارو ہماری زندگی کا خاصہ حصہ میں میں اور تو تو کی ہی تکرار میں گزر جاتا ہے ..میں مکمل اور تو ادھورا .. ہمارا سارا ارتکاز ہماری ساری توجہ "میں"کی بجاے تو.. تو کی تکرار میں گزر جاتی ..
اب یہ مویا نظریہ جو میری زندگی میرے سر پر سوار رہا یہ لفظ جس نے ساری زندگی ہمارے ذہن میں اودھم مچاے رکھا یہ ہے کیا ..
میں تویہ سمجھاہوں ہوسکتا آپ اسے درست نہ جانیں کہ لگتا یہ "میں" اور "نظریہ" دونوں ایک ہی قبیل کے دو لفظ ہیں , ایک دوسرے کے بغیر بندے کی کہانی مکمل نہیں ہوتی یہ وہ بیانیہ ہے جو بندہ اپنی ضرورت اپنی خواہشات کے تابع گھڑتا ہے , سوری میں آفاقی نظریات کی بات نہیں کر رہا میں اس نظریہ کا ذکر کر رہا ہوں جو وقتی انسانی ضرورتوں کے مطابق تشکیل پاتا ہے یہ وہ ادھوری تشنہ خواہشات کا مجموعہ ہوتا ہے جنھیں بندہ پورا ہوتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے .اور تشنہ خواہشات پر مشتمل بندے کا یہ نظریہ وقت کے مطابق تبدیل ہوتا رہتا ہے شاید اسی کو ہمارے ہاں نظریہ ضرورت کا نام دیا گیا, مزے کی بات یہ ہے کہ ہم وقتی ضرورت کے تناظر میں بناے گئے اپنے نظریہ اور بیانیہ کو آفاقی نظریہ کےاسلامی ٹچ دے کر اسے مذہبی جواز اور اخلاقی سند دینا بھی اپنا حق سمجھتے ہیں .ہمیں اپنے سے غرض نہیں میں تو ماورا سچا دودھ میں دھلادیانتدار, امین نیک اخلاقی اقدار و روایات کی اعلی ترین مسند پر پہلے ہی دن سے براجمان , مجھے اپنی نہیں سماج اپنے اس پڑوس میں رہنے والوں کی اپنےسے ہاتھ ملانے والوں اپنے قرابت داروں کی سب کی فکر ہے ..میں ان کی اصلاح چاہتا ہوں ..
میں …میں ..میں اور بس میں.. بھائی یہ ہے نظریہ ضرورت ..اس "میں" کے حصار سے بندہ کبھی نکلے , اس پڑوس کی سر گوشیاں میں …میں ..کی چیخ پکار سےبند کانوں کو سنائی دیں تو پتا چلے پانی کی گہرائی کا ..بس تو ..تو. تو اور میں..میں..میں کی یہی تکرار ہمارے راستے کھوٹے کر رہی .
اوہ بھائی نہ میں نہ تو ..جو ہے بس وہی تھا وہی ہے اور وہی رہے گا

No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.