"میں” کی کہانی
انجم صحرائی
پچاس پچپن سالہ صحافی کیرئیر کے با وجود میں ابھی بھی طفل مکتب ہوں کبھی سینیر ,استاد اور کبھی مضمون صحافت سے مکمل آگہی کا د عوی نہیں کیا .جاننے اور سمجھنے میں بڑآ فرق ہے , اور اس جاننے سمجھنے اور سیکھنے کا عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے .سو میرے جاننے سمجھنے اور سیکھنے کا عمل آج بھی جاری ہے , میں کتابیں پڑھتا ہوں کتابیں میری رہنما ہیں میرے جاننے اور مشاہدے کو سمجھانے میں میری رہنمائی کرتی ہیں اور کتاب زیست کے نت نئے مشاھداتی کردار میری آشنائی اور آگہی میں اضافہ کرتے ہیں اور مجھے یقین کی راہ دکھاتے ہیں ..
آج کل عبد الله حسن کی کتاب who Am I”میں کون ہوں” پڑھ رہا ہوں..
میں کوئی آئیڈل شخصیت نہیں ہوں کہنے والے کہہ سکتے کہ میں نے زندگی میں کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کیا نہ سیاست اور نہ ہی صحافت.سیاست میں نصف صدی کی ناکام اننگ کھیلی اسی طرح میدان صحافت میں بھی کوئی جھنڈے نہیں گاڑسکا .میں روایتی صحافت اور روایتی سیاست کے اصول ضوابط سے نا آشنا ہی رہا .. وہ ایک شعر ہے نا
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند ..
لیکن ناکام سیاست اور ناکام صحافتی سفر نے مجھے نظریہ آشنا ضرور کیا .ضروری نہیں کہ آپ میرے نظریہ کی تائید کریں اپ کو اختلاف کا پورا حق ہے ,میں اختلاف را ے کے حق کو معتبر جانتا ہوں تسلیم کرتا ہوں اور اورنہ ہی پسند و نا پسند کی بنیاد پر لفظوں کی چاند ماری پر یقین رکھتا ہوں ..
میں نظریات میں شدت پسندی اور عامیانہ رویوں کا قائل نہیں…محبت اور جنگ میں سب جائز ہے کے فلسفہ پر یقین نہیں رکھتا وہ اس لئے کہ "ام الکتاب” میں محبت اور جنگ کی حدود اور اصول ضوابط بارے کھلے احکامات موجود ہیں .اور میری ادنی کوشش ہوتی کے ان اصولوں کو مد نظر رکھوں اپنے نقطہ نظر کے اظہار میں تاکہ زندگی آسان رہے .
میں اور تو ….
یارو ہماری زندگی کا خاصہ حصہ میں میں اور تو تو کی ہی تکرار میں گزر جاتا ہے ..میں مکمل اور تو ادھورا .. ہمارا سارا ارتکاز ہماری ساری توجہ "میں”کی بجاے تو.. تو کی تکرار میں گزر جاتی ..
اب یہ مویا نظریہ جو میری زندگی میرے سر پر سوار رہا یہ لفظ جس نے ساری زندگی ہمارے ذہن میں اودھم مچاے رکھا یہ ہے کیا ..
میں تویہ سمجھاہوں ہوسکتا آپ اسے درست نہ جانیں کہ لگتا یہ "میں” اور "نظریہ” دونوں ایک ہی قبیل کے دو لفظ ہیں , ایک دوسرے کے بغیر بندے کی کہانی مکمل نہیں ہوتی یہ وہ بیانیہ ہے جو بندہ اپنی ضرورت اپنی خواہشات کے تابع گھڑتا ہے , سوری میں آفاقی نظریات کی بات نہیں کر رہا میں اس نظریہ کا ذکر کر رہا ہوں جو وقتی انسانی ضرورتوں کے مطابق تشکیل پاتا ہے یہ وہ ادھوری تشنہ خواہشات کا مجموعہ ہوتا ہے جنھیں بندہ پورا ہوتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے .اور تشنہ خواہشات پر مشتمل بندے کا یہ نظریہ وقت کے مطابق تبدیل ہوتا رہتا ہے شاید اسی کو ہمارے ہاں نظریہ ضرورت کا نام دیا گیا, مزے کی بات یہ ہے کہ ہم وقتی ضرورت کے تناظر میں بناے گئے اپنے نظریہ اور بیانیہ کو آفاقی نظریہ کےاسلامی ٹچ دے کر اسے مذہبی جواز اور اخلاقی سند دینا بھی اپنا حق سمجھتے ہیں .ہمیں اپنے سے غرض نہیں میں تو ماورا سچا دودھ میں دھلادیانتدار, امین نیک اخلاقی اقدار و روایات کی اعلی ترین مسند پر پہلے ہی دن سے براجمان , مجھے اپنی نہیں سماج اپنے اس پڑوس میں رہنے والوں کی اپنےسے ہاتھ ملانے والوں اپنے قرابت داروں کی سب کی فکر ہے ..میں ان کی اصلاح چاہتا ہوں ..
میں …میں ..میں اور بس میں.. بھائی یہ ہے نظریہ ضرورت ..اس "میں” کے حصار سے بندہ کبھی نکلے , اس پڑوس کی سر گوشیاں میں …میں ..کی چیخ پکار سےبند کانوں کو سنائی دیں تو پتا چلے پانی کی گہرائی کا ..بس تو ..تو. تو اور میں..میں..میں کی یہی تکرار ہمارے راستے کھوٹے کر رہی .
اوہ بھائی نہ میں نہ تو ..جو ہے بس وہی تھا وہی ہے اور وہی رہے گا
ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز
لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...
Read moreDetails










