شہباز نقوی کے منتخب اشعار …
۔۔۔۔
مجھ سے اس عہد کی تہذیب نے سر گو شی کی
بٹ گئی عزت و افلاس بھی زرداروں میں
پتوں سے نہیں پھل سے ہے پیڑوں کا تشخص
باتوں کو کبھی اپنے رویوں میں بھی ڈھا لو
۔۔۔۔۔۔
شہر کا رستہ پو چھنے والو شہر کا موسم ٹھیک نہیں
اجڑی گلیاں ،تپتے آ نگن ،دکھ، ویرانی، تیز ہوا
۔۔۔۔۔
چا ہتیں جا نے کہاں سو گئیں جا کر نقوی
اک نفرت سی بھرے شہر میں گھر گھر جا گے
۔۔۔۔
اٹھو حیات گزاریں پیمبروں کی طرح
کہ اپنا وقت کی سچا ئیوں سے رشتہ ہے
۔۔۔
یہ تیر گی اگر اپنی انا نہ چھو ڑے گی
کسی منڈیر پہ جلتا دیا نہ چھو ڑے گی
نئی رتوں نے ہوا سے اگر حلف نہ لیا
کسی درخت پہ پتہ ہوا نہ چھوڑے گی
اسی حساب سے چلتی رہی اگر آ ند ھی
تو دیکھ لینا کو ئی نقش پا نہ چھو ڑے گی
۔۔۔۔
کو ئی جھو نکا کو ئی آ ہٹ نہ صدا ہے پیا رے
میرے دروانے سے دستک بھی خفا ہے پیارے
کتنے لفظوں سے ترا شا ترا پیکر میں نے
تو مگر پھول، نہ خو شبو،نہ صبا ہے پیا رے
تو بھی چھپ چھپ کے مری یاد میں رو لیتا ہے
یہ بھی میں نے ترے لو گوں سے سنا ہے پیارے
۔۔۔۔۔
دن چڑ ھے لوگ فصیلیں سی اٹھا رکھتے تھے
رات ہوتی تو در خانہ کھلا رکھتے تھے
۔۔۔
وہ لمحہ بھی کیا لمحہ تھا دو سائے جب ایک ہو ئے
دیواروں کو کان لگے تھے پتھر میں بینائی تھی
۔۔۔۔
یہ پرانی سی حویلی یہ نظام اجداد
ڈر بہت لگتا ہے اس اضرے مکاں میں رہتے
دور تک لوگ میرے ساتھ چلے تھے۔۔ لیکن
لوٹ آئے ہیں کسی خوف کا آ ثار لئے
۔۔۔
جیون ندیا جو بن پر ہے گا گریا بھر لو
پنگھٹ سے گھر آتے آتے شام نہ ہو جائے
۔۔
من میں کھوٹ چھپا کر جینا، جینے پر الزام
پریم کے جماتت پر پیارے کھوٹ یہ من کا دھو
۔۔۔
پربت سے کچھ پو چھے چندا وہ خاموش رہے
تم بھی پر بت بن کر اپنا دکھڑا آپ سہو
۔۔۔
یاد کی لو سے فروزاں ہے میرا خانہ دل
تم دریچے میں کہیں رکھ کے دیا بھول گئے
حادثہ یہ بھی ہوا راہ طلب میں نقوی
جب تری سمت چلے اپنا پتہ بھول گئے