پاکستا ن برائے فروخت
تحریر :۔محمد شہروز
ایک شخص کو بڑی پراسرار سی تکلیف لاحق ہوئی وہ بائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے جب بھی اپنی دائیں ٹانگ کو چھوتا درد محسوس کرتا علاج کی غرض سے جس عطائی طبیب کے پاس گیا وہ قدرت کی طرف سے اہل علاقہ کے بھولے پن کے نام بڑا انمول تحفہ تھا تلاج اور حکمت کی سمجھ بوجھ سے ناآشنا انتہائی شریف النفس جعلی حکیم ۔اس شخص نے اپنا مسئلہ بیان کیا حکیم صاحب نے بڑی غوروفکر کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ تمہاری ٹانگ کا ٹ دینی چاہیے ٹانگ کاٹ دی گئی شخص اگلے روز پھر آن وارد ہوا بولا حضور !دوسری ٹانگ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے حکیم صاحب نے پھر وہی حل نکالا دوسری ٹانگ بھی کاٹ دی گئی سلسلہ رکا نہیں حکیم صاحب کے فہم کی نذر دوٹانگوں کی بھینٹ چڑھانے کے بعد جب اس شخص کو جسم کے باقی اعضاء خطرے میں دکھائی دئے تو اس نے دوسرے طبیب کی طرف رجوع کیا اس کو اپنا سرا مسئلہ بتایا طبیب نے اسے وہی انگلی جس کے مختلف حصوں پر لگانے کو کہا اس شخص نے جسم کے حصے کو بھی چھوا درد محسوس ہوا ،پتہ چلا کہ مسئلہ نہ تو اس کی کسی ٹانگ میں تھا نہ ہی جس کے کسی دوسرے حصے میں بلکہ مسئلہ اس کی انگلی میں تھا جس کی اندرونی ہڈی ٹوٹ چکی تھی میرے خیال میں آج کل پاکستان میں کچھ ایسے ہی حالات ہیں اصل مرض کی تشخیص نہ تو وہ شخص کرسکا نہی ہی پاکستان کے رعایا ۔اصل مرض کا علاج نہ تو وہ جعلی طبیب کرسکتا تھا نہ ہی پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹنے کی خواہش رکھنے والے پارلیمانی بھیڑیے ۔
حکومت اسکول نہیں چلاپارہی ۔۔۔۔بیچ دو
حکومت اسٹیل ملز نہیں سنبھال پارہی ۔۔۔۔بیچ دو ۔
حکومت پی اآ ءی اے کی وجہ سے خسارہ بھگت رہی ہے ۔۔۔۔بیچ دو ۔
حکومت پاکستان اسٹیٹ آئل سے منافع حاصل نہیں کرپارہی ۔۔۔بیچ دو ۔
اب آنکھوں پر مفاد پرستی اور بے حسی کا ملا جلا چشمہ سجانے والے بیس کروڑ بے وقوفوں کا ٹولہ ۔۔۔نہ تو اصل مرض کی تشخیص کرے گا اور نہ ہی بیس کروڑ زندہ بوٹیوں کا لہو چوس کر ڈکار مارنے والے ڈار کے پاس ملک و قوم کی بہتری کیلئے کوئی علاج موجود ہے اگر سب امراض اور مسائل کی جڑ صرف حکومت ہے تو اس کو کیوں نہیں بیچ ڈالتے ۔یہاں پر میں دوسوال اٹھاؤں گا اگر اداروں کی نجکاری کی وجہ سے ان کا خسارے میں ہونا ہے تو 165ارب سے چلنے والی اورنج ٹرین ،10ارب سے چلنے والی میٹرو لاہور ، 45ارب سے چلنے والی اسلام آباد میٹرو ، 30ارب سے چلنے والی ملتان میٹرو کو کیوں نہیں بیچا جارہا ہے ؟ حالانکہ یہ سب پہلے دن سے خسارے میں ہیں۔مگر چونکہ ان کو شہنشاہ معظم کی سرپرستی حاصل ہے لہذا اس کو بجائے سستے داموں بیچنے کے سبسڈی کی مد میں بھاری رقم لٹائی جارہی ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ایک کروڑتیس لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور میٹرو پر لگائے جانے والی ان بھاری رقومات سے پنجاب میں تقریباً 88571سکول کھولے جاسکتے ہیں جس سے 1,3285714بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہوسکتے ہیں مگر شہنشاہ معظم کے دربار میں انار کلی کی طرح ناچنے والی شریف برادران کی مشترکہ محبوبہ میٹرو بس کا نشہ ہی کچھ ایسا ہے جس نے کروڑوں بچوں کے خوابوں کو کرپشن کے ملبے تلے دبارکھا ہے ۔ اگر اداروں کی نجکاری کی وجہ سے ان کا نااہل ہونا ہے تو سب سے پہلے تو سینٹ اور قومی وصوبائی اسمبلیوں کو فروخت کردینا چاہیے جن کی نااہلی کی وجہ سے 39ائیر لائنز جو جنم دینے پاکستان انٹر نیشنل ائیر لائنکو ہی کوڑیوں کے بھاؤفروخت کیا جارہا ہے ۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ محض 1.5بلین ڈالر می پی آئی اےکو فروخت کرنے کی اصل وجہ روزو پلٹ ہوٹل نیویارک اور اس کے علاوہ پیرس ، لندن ، بلیو ایریا اسلام آباد جیسے درجنوں شہروں میں موجود انتہائی بیش قیمت اراضی ہیں اس کا اندازہ اسی بات سے لگالیں کہ صرف روزویلٹ ہوٹل کی قیمت ہی 3بلین ڈالر سے زائد ہے اسی طرح بلیو ایریا اسلام آباد میں 70سے 80کروڑ کی ایک بلڈنگ جو پی آئی اےکے نام سے موجود ہے اس کو محض 12کروڑ میں فروخت کیا جارہا ہے جو کہ اس کے سامنے موجود تھڑے کی قیمت بھی ہیں افسوس کا مقام ہے کہ ملکی اثاثوں کو بیچنے کی واحد وجہ ذاتی جائیدادوں کی طوالت کی شدید خواہش ہے ۔ورنہ پاکستان ائیر لائنز پائیلٹ ایسوسی ایشن کے صدر سہیل بلوچ کے مطابق پی آئی اے کے عملے میں سے ہی چند لوگ تمام اراضی خریدنے کے خواہشمند ہیں اور اصولی طور پر وہی لوگ پہلے حقدار ہیں مگر راہداریوں میں ملک کو بیچنے والے مداری کہاں اصولوں پسند ہوسکتے ہیں یہ صرف مفاد پرست اور دولت پسند معاشی دہشتگروں کا وہ ٹولہ جو آج لوگوں کا حق ماررہے ہیں اور کل ان ہی کو ناحق مار ڈالیں گے ۔کیونکہ پٹواری کی بدمعاشی اور تھانیدار کے خوف میں سہمی ہوئی قوم میں اتنی جرات ہی نہیں کہ کوئی سوال اٹھاسکیں یہی وجہ ہے کہ 2014-15میں 80ارب سے زائد کی فروخت کرنے والا ادارہ ’’یوٹیلٹی سٹور ‘‘ بھی مسلم کمرشل بینک ایم سی بی سے ہی قرضہ اٹھا کر اسی بینک کو خریدنے والے میاں منشاء کو فروخت کیا جارہا ہے ۔یہ حقیقتاً نواز شریف کی اعلیٰ ظرفی ہے ورنہ آج کے دور میں دوستوں کو ’’نوازنا‘‘ تو دور کی بات ،یاد بھی کرنا راز مبتنی ایسے راہنماؤں کی بدولت ہی ملک میں معاشی و اقتصادی قتل کے بے موسمی میلے لگتے ہیں جہاں محرومیوں کی بھوک مجبوری کے گھنگرو باندھ کر ناچتی ہے جہاں پی آئی اے ، سٹیل ملز ، سٹیٹ آئل ، انجینئرنگ کونسل اور یوٹیلٹی اسٹور جیسے اداروں کے نیم مردہ اجسام پر عالمی بھکاری بھنبھناتی ہوئی مکھیوں کی طرح جھپٹتے ہیں جہاں وڈیروں کے کتوں کے شوروغل میں اہل تھر کی آہ و فقاں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جہاں تخت لاہور کے شاہ و جلال کی نذر جنوبی پنجاب کے بنیادی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے ۔جہاں ملک سے مبارزت اور قوم سے غداری کے کھیل پیش کئے جاتے ہیں اور آخر میں دھرتی کے احترام میں کھڑے ہوکر دلوں پہ ہاتھ رکھ کر ’’پاک سرزمین شاد باد ‘‘کی دھن پر ملک کو فروخت کردیا جاتا ہے ۔