جاں بلب زندگیاں اور ارباب ِ اختیار
تحریر ۔ عفت
انسان برسوں سے مختلف آفات سے لڑتا آرہا ہے اس نے مصائب سے لڑنے کے لئیے ہتھیار ایجاد کیے۔ لکڑی کے نیزے سے بات توپ و تفنگ تک آگئی اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ حالات کو اپنے زیرِ ِ اطاعت رکھے ۔مگر کہیں حالات اس پہ غالب آگئے تو کہیں وہ حالات پہ غالب آیا ۔انسان پتھر کے دور سے نکل کر ایٹمی دور میں داخل ہوگیا ۔مگر وہ قدرت رکھتے ہوئے بھی قادر نہ کہلایا ۔موسم، فطرت اس کے تابع ہو سکے ۔دولت اور اقتدار کی تقسیم نے جہاں ہوس ِ اقتدار کو جنم دیا وہاں ہادیِ برحق کے اس قول کو بھیفراموش کر دیا کہ خدا کی نظر میں امیر غریب سب برابر ہیں اگر کسی کو فضیلت ہے تو تقوی پہ ۔اس کے ساتھ ہی وہ بادشاہ اور امیر بھی پردہ پوش ہو گئے جو کہا کرتے تھے اگر میری سلطنت میں ایک جانور بھی بھوکا ہو تو روزِ قیامت میری باز پرس ہوگی ۔سو خوفِ خدا بھی گیا ۔
ان ساری تمہید کا پسِ منظر ایک خبر جسے نہ اخبار میں بڑی خبر کی جگہ ملتی ہے نہ اہمیت ایک چھوٹی سی ہیڈلائن کہ تھرپارکر میں پھر رواں سال بھی قحط سالی سے موت بٹنے لگی اور موت کا یہ کھیل گذشتہ چار سال سے جاری ہے۔ضلع مٹھی کے سرکاری اسپتال کے اعداد وشمار کے مطابق دسمبر ۲۰۱۳ میں ۴۲ جنوری ۲۰۱۴ میں ۴۰،فروری میں ۳۶ مارچ میں ۳ ،اور گذشتہ تین ماہ میں۱۲۱ بچے جاں بحق ہوئے۔جبکہ ۲۰۱۶ کے آغاز میں ہی ان گیارہ دنوں میں ۳۲ ہلاکتیں ہو چکی ہیں ۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے ۔بہترین اجناس کی دولت سے مالا مال ، پھر تھرپارکر میں غذائی قلت کی وجہ سے موت کا یہ رقص باعث تشویش اور باعثِ ندامت ہے ۔صحرا کی خشک سالی نے جانوروں اور انسانوں سے ان کی زندگیاں اور دھرتی سے اس کی کوکھ میں جنم لینے والے وہ رنگ چھین لیے جن کی بنا ء پہ انسانوں اور جانوروں کے چہروں پہ زندگی کے رنگ ابھرتے تھے ۔اور بھوک اور افلاس نے ایسے ڈیرے جمائے کہ کمزور اور ناتواں جسم اس کی تاب نہیں لا پاتے اور ننھے ننھے غنچے بھوک کے لقمہ ء اجل کا شکار بن رہے ہیں ۔ان کے کمر سے لگے پیٹ ،حلقوں میں دھنسی آنکھیں اور اکھڑتی سانسیں ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہیں جن کہ دستر خوان اللہ کی نعمتوں سے بھرے ہیں ۔اربابِ اختیار کے دوروں اور یقین دہانی کے باوجود ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔غذائی قلت اور طبی سہولتوں کا فقدان ،حکومت کی عدم توجہ اور لاپرواہی کس طرح ان معصوم لوگوں کی زندگی سے کھلواڑ کر رہی ہے خدا بہتر جانتا ہے ۔ہماری نوکر شاہی کو ایک دوسرے کی ریشہ روانیوں سے فرصت کہاں کہ اس طرف نظر ڈالیں ،
اقتدار کی دوڑ میں انھیں اپنے اور کرسی کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا اور ان کے روز وشب اسی کی سیاست کے نظر ہوجاتے ہیں ۔گندم گوداموں میں خراب ہو سکتی ہے مگر ان سے بھوکوں کا پیٹ بھرنے میں عار ہے ۔
امیرِشہر کی گندم خراب ہوتی رہی۔۔۔فاقوں سے مر گئی مگر بیٹی غریب کی
والا حساب ہے ۔جانے کیوں ہم اکیسویں صدی میں آکر بھی ان غلام گردشوں میں کیوں بھٹک رہے ۔اور کیوں وہ افلاس کے مارے لوگ ہمیں دکھائی نہیں دیتے ۔یہ ہماری عقلِ ناقص کی کرشمہ سازی ہے کہ ہم نے اپنی آنکھوں پہ اقتدار کے چشمے چڑھا رکھے ہیں جن میں ہمیں سب اچھا دکھائی دیتا ہے۔ایک وزیر دوسرے کی دعوت کرتا ہے تو بے شمار کھانے پکوائے جاتے ہیں جن کو محض چکھنے پہ ہی اکتفا کیا جاتا ہے ،ایک لمحہ ان معصوم لوگوں کی بھوک کو پیشِ نظر رکھ کہ دیکھیں تو احساس ہو کہ جتنا خوشامدانہ مدارت میں اسراف برتا جاتا ہے اس سے دو تین خاندان باآسانی پیٹ کی بھوک مٹا سکتے مگر بات وہی ہے کہ جس کا پیٹ ناک تک بھرا ہو اسے بھوکے کی بھوک کا کیا احساس۔ہمیں تو میٹرو چلانے ،یا بے سروپا بیانات اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے سے فرصت نہیں بھوکے کی بھوک کا کیا کریں ،ہم بس ایک ہی بھوک سے واقف ہیں وہ ہے اقتدار کی بھوک ۔اور اس میں ہم ایک دوسرے کو ہی نوچ نوچ کے کھاتے ہین اور اک دوسرے کے کردار کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں ۔ہمیں نہ مٹھی اور تھرپارکر کے نڈھال بچے نظر آتے ہیں نہ ہی ان کے ناتواں والدین ،اہلِ قلم کے ڈراووں پہ جا کے اعلان کر آتے ہیں اور پھر محو استراحت ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی ہمارے وعدے اور اعلانات بھی خواب خرگوش کے مزے لینے لگتے ہیں ،اس سے بڑھ کے کیا المیہ ہے ؟؟کہ ہم الم وآلام پہ اپنی آسائشات پہ ترجیح دیں ۔الیکشن کی جیت کے جشن ،پروٹوکول کے نام کی ڈرامہ بازیوں پہ کروڑوں روپے برباد کئے جاتے ہیں کیا اس سے ان بدحال لوگوں کی مدد نہیں ہو سکتی ان کے لئے غذا اور علاج کی فراہمی نہیں ہو سکتی سب ممکن ہے بس ذرا ضمیر کو زندہ کرنے اور اس بھوک اور بے بسی کے احساس کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے ،اگر اب بھی ایسا نہیں تو اربابِ اختیارکو اختیار کی طاقت چھیننے والے ہاتھ کی بے آواز لاٹھی سے خبردار رہنا چاہیے ۔اور بلاشبہ غریب کی آہ اور ماؤں کی اجڑی گود کی آہ وبکاہ عرش ہلا دیتی ہے ۔