شب و روز زندگی قسط 34
تحریر : انجم صحرائی
ضلع کونسل کے انتخابات کی مہم ہم نے بڑے روائتی اندازمیں شروع کی حلقہ انتخاب سے تعلق رکھنے والے دوستوں اور نمایاں لوگوں کا ایک کٹھ کیا گیا جس میں ہماری تو قع سے بھی زیادہ لو گوں نے شر کت کی اس اجلاس کے بعد ایک ریلی نکا لی گئی جس کے شرکاء نے صدر بازار اور کوٹ سلطان اڈے کا چکر لگا کر علا قہ کے سیا سی پرو ہتوں کو یہ احساس دلا یا کہ گئے وہ دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیں با ضابطہ انتخابی دفتر قائم کیا گیا جس کے انتظام و انتصرام کی ذمہ داری چوہدری منظور حسین اعوان نے اپنے سر لے لی۔ عوامی مسا ئل کے حل کے لئے ایک منشور اور لا ئحہ عمل تجویز کیا گیا جس کی تشہیر کے لئے پمفلٹ اور اشتہارات چھپوائے گئے شا ید ان بلد یا تی الیکشن میں میں واحد امیدوار تھا جس نے ” اقتدار اک بار پھر غریب کے دروازے پر خدارا ذرا سو چیئے ” کے عنوان سے بڑے بڑے پو سٹر کے ذریعے اپنا منشور پیش کیا۔
عوامی رابطہ مہم کے ضمن میں انفرادی ملا قا توں کا سلسلہ شروع کیا گیا اس ایڈوانس مہم کے نتیجہ میں ہم اندرون شہر اور حلقہ کے بہت سے نمایاں افراد کی ہمدردیاں اور حمایت حاصل کر نے میں کا میاب ہو گئے ان میں چوہدری سردار اعوان ، اسلام الدین شیخ ، ڈاکٹر شا ہنواز سر گا نی ، ماسٹر سلطان احمد خان سا بق چیئر مین یو نین کو نسل ، چو ہدری نذیر احمد ٹھیکیدار ، چو ہدری نذیر احمد آ ڑ ھتی ، جماعت اسلا می کے ملک غلام نبی کار لو ، ملک رشید احمد منجو ٹھہ ، امیر دین گر ما نی ، محمد یامین زبیری ، غلام نبی خان دستی ، نمبر دار محمد حسین اعوان اور بہت سے دوستوں نے ہما ری کھلی حما یت کا اعلان کر دیا ۔ کچھ دوست ایسے بھی تھے جو اپنی علا قا ئی سیاسی وابستگیوں کے سبب کھل کے ہمارا ساتھ نہیں دینا چا ہتے تھے مگر انہوں نے پس منظر میں رہتے ہوئے ہمیں ووٹ دینے اور دلا نے کا وعدہ کیا تھا ۔ان دنوں ملک غلام محمد اعوان امیر جما عت اسلا می تھے میں نے ان سے ملا قات کی اور ان سے گذارش کی کہ وہ جماعت کی طرف سے ان ہو نے والے بلدیا تی انتخابات میں میری حما یت کا اعلان کریں۔
جماعت کے دوست اس وقت مہر احمد علی واندر ایڈ وو کیٹ کو سپورٹ کا فیصلہ کئے ہو ئے تھے لیکن جب میں نے انہیں بتا یا کہ حلقہ کے ووٹرز بیک وقت دو امیدواروں کے لئے ووٹ کا سٹ کریں گے تو انہوں نے ایک خط کے ذریعہ جماعت کے دوستوں کو ہدایت دی کہ وہ بلد یا تی انتخابات ضلع کو نسل کے لئے میں جماعت اسلامی کے حمایت یا فتہ امیدواران ملک احمد علی واندر ایڈوو کیٹ اور انجم صحرائی کا سا تھ دیں ۔ یہ علیحدہ بات کہ چو ہدری اصضرعلی گجر جو ہماے حلقہ سے ہمیشہ صوبا ئی اسمبلی کا الیکشن لڑتے تھے اور جن کا ہم ہمیشہ سا تھ دیتے رہے تھے ا ن بلدیا تی انتخابات میں اپنی جماعت کے امیر کی ہدایت کے مطا بق انہوں نے ہمارا سا تھ نہ دیا۔ ابتدا میں میں نے اور میرے دوستوں نے پیدل ،موٹر سا ئیکل اور سا ئیکلوں پر الیکش مہم جاری رکھی لیکن کا غذات نامزدگی جمع کرانے سے چند دن پہلے ہمیں ایک دوست نے ایک ڈالہ کرا یا پر لے دیا ۔ وہ واحد سواری تھی جو ہمارے الیکشن میں ہمارے پاس رہی ۔ ڈالے کا مالک چو ہدری محمد حسین جس کا تعلق لیہ سے تھا خود ہی ڈرائیور تھا محمد حسین نے ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا ۔جس دن کا غذات نا مزدگی جمع کرانے ہم نے لیہ آ نا تھا
اس سے ایک دن پہلے عجب تما شا ہو گیا ہوا یوں کہ ایک دن جب ہم رات گئے حلقہ میں الیکشن مہم کے بعد گھر واپس لو ٹے تو محمد حسین ہمیشہ کی طرح ڈالہ چو ہدری سردار اعوان کی چکی کے ساتھ گلی میں کھڑا کر کے دفتر میں جا کے سو گیا۔ صبح نماز پڑھ کے جب وہ گاڑی کی صفا ئی کے لئے وہاں پہنچا تو دیکھا کہ کسی نے ڈالہ کے چا روں ٹائیڑ پنکچر کر دئے تھے ۔ نا معلوم مہربان دوست نے ٹائیروں پر کچھ اس طرح نشتر زنی کی تھی کہ چاروں ٹائیڑ ٹیوب جگہ جگہ سے اتنے زخم خوردہ تھے کہ پنکچر لگا نے والوں نے معذرت کر لی اور کہا کہ چاروں ٹائیر ٹیوب نئے ڈالیں یا پھر سیکنڈ ہینڈ خرید لیں اس کے علاوہ کو ئی اور راستہ نہیں ۔ اس واقعہ کا سبھی کو ہمیں تو افسوس ہونا ہی تھا مگر محمد حسین اس سے بہت دلگرفتہ ہوا اور شا ید ما یوس بھی۔اب ایسے میں مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اپنی جیب کی کل رقم محمد حسین کو دے دی اور کچھ محمد حسین نے خو د برداشت کئے اور یوں سیکنڈ ہینڈ ٹائیرٹیوب ڈالنے کے بعد ڈالہ چلنے کے قا بل ہوا۔
اب یہ بھی اتفاق تھا کہ اس واقعہ کے بلدیا تی الیکشن شیڈول کے مطا بق ہم نے اگلے دن کا غذات نا مزدگی جمع کرانے لیہ جا نا تھا پروگرام یہ طے ہوا تھا کہ زیادہ سے زیادہ دوست اکٹھے ہو کر کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لئے لیہ جا ئیں گے بہت سے دوستوں نے اپنی مو ٹر سا ئیکلوں پر ساتھ چلنے کا عند یہ دیا در اصل بعض دوستوں کی رائے تھی کہ ہمیں ایک چھوٹے جلوس کی شکل میں کا غذات نامزد گی جمع کرانے جانا چا ہئے ۔ پروگرام بن گیا فا ئینل بھی ہو گیا مگر ایک بڑا مسئلہ جو صرف مجھے در پیش تھا وہ یہ تھا کہ میرے پاس پیسے با لکل ختم ہو چکے تھے حتی کہ اگلے دن کا غذات نا مزدگی کے لئے جو پانچ ہزار روپے الیکشن سیکیورٹی جمع کرا نا تھے وہ بھی نہیں تھے گاڑی کے لئے ڈیزل بھی ایک بڑا مسئلہ تھا بہر کیف ساری رات اسی شش و پنج میں کر وٹیں لیتے گذر گئی کہ کل کیا ہو گا۔
صبح ہو ئی تو دوستوں نے جمع ہو نا شروع کر دیا محمد حسین نے بھی ڈالے پر کپڑا وغیرہ مار کے اسے قدرے چمکا دیا ۔ میں مکان کے اندر شش و پنج میں پر یشان اور باہر دوستوں کا رش ۔ سبھی انتظار میں تھے کہ میں گھر سے باہر آ ئوں اور قا فلہ لیہ کی جانب روا نہ ہو ۔ ہم لیٹ ہو چکے تھے پرو گرام کے مطا بق ہم نے آ ٹھ بجے روانہ ہو نا تھا نو بج چکے تھے مگر نہ میں مکان سے باہر نکلا اور نہ قا فلہ روا نہ ہوا اچا نک ہمارے پڑوس میں بسنے والی ایک ما سی جسے سبھی ما سی کہتے تھے وہ ہمارے گھر آ گئی مجھے بیٹھا دیکھ کر اس نے سرا ئیکی میں پو چھا ” لالہ لیہ جو ونجنا ہا ئی ہلے گئے نہیں ؟چو کھی دیر اچ ویسو باہر تاں بہوو ں مخلوق کٹھی تہی اے “ما سی کی بات سن کر میں بے سا ختہ ہنس پڑا اور بو لا ما سی بس ساڈا الیکشن تھی گئے ۔ پیسے مک گئے ہن اساں لیہ نا ہیں ویندے پئے ۔ میری بات سن کر ما سی کچھ لمحے سو چتی رہی اور بغیر کچھ بو لے واپس چلی گئی لیکن تھو ڑی ہی دیر میں ما سی واپس آ گئی اس نے اپنے دا ئیں ہا تھ کی بند مٹھی میرے سا منے کر کے کھو لی اور بو لی ایہہ کجھ پیسے ہن گھر پئے ہن توں استعمال چا کر۔ جیہڑے لے آ وجن میکوں ولا ڈیوا ئے “میں نے بغیر کچھ کہے ماسی کی مٹھی میں بند وہ سارے مڑے ٹرے نوٹ لے لئے اور پو چھا ما سی ایہہ کتنے ہن ، ماسی بو لی ترے چار ہزار تا ہو سن ۔میں نے ماسی کی بات سنی اعتماد کرتے ہو ئے رقم جیب میں ڈالی اور گھر سے باہر نکل آ یا۔
دوست تیار تھے قافلہ بنا ۔ کوٹ سلطان اڈے سے چوہدری رحمت علی کی دکان سے ادھار ڈیزل ڈالے میں ڈلوایااور یوں ہم لیہ روانہ ہو گئے ہمیں خا صی دیر ہو گئی تھی مگر ابھی عشق میں امتحان اور بھی ہیں کے مصداق جب ہمارا قا فلہ لیہ کے قریب کو ٹھی قریشی کے قریب پہنچا تو سواریوں سے اندر باہر اور لوڈ ہو ئے ڈالے کا ایک ٹائیر دوبارہ پنکچر ہو گیا لیہ ابھی دور تھا اور وقت تیزی سے گذ رتا جا رہا تھا خد شہ تھا کہ کا غذات نامزدگی کا وقت ہی نہ گذر جائے سو فیصلہ ہوا کہ امیدوار اپنے تصدیق اور تجویز کنند گان کے ساتھ موٹر سا ئیکل پر روانہ ہو جا ئیں باقی دوست ڈالے کو پنکچر لگا کر ڈسٹرکٹ کورٹس میں آ ئیں گے سو ہم تین لوگ مو ٹر سا ئیکل پر سوار ڈسٹرکٹ کورٹس پہنچ گئے جہاں کا غذات نا مزدگی کی وصولی کا عمل شروع ہو چکا تھا ۔ اس وقت کے ایڈ یشنل ڈپٹی کمشنر شیخ شمش الدین جو کہ ریٹر ننگ آ فیسر کے فرائض انجام دے رہے تھے اپنے آ فس میں کا غذات نا مزدگی وصول کر رہے تھے۔
ایڈ یشنل ڈپٹی کمشنر شیخ شمش الدین ایک خو بصورت سدا بہار شخصیت تھے میری ان سے پریس کے نا طے خا صی یاد اللہ تھی ان کی عدالت میں خا صا رش تھا وہ حلقہ وائز کا غذات نا مزدگی وصول کر رہے تھے جب ہمارے حلقہ کی باری آ ئی تو دیگر امیدواروں کے ساتھ میں بھی اپنے کا غذات جمع کرانے کے لئے پیش ہوا تو انہوں نے بڑے غور سے مجھے دیکھا اور میرے ہاتھ سے کا غذات لیتے ہو ئے بو لے پیچھے ہٹو ان کی یہ بات سن کر مجھے بڑی الجھن ہو ئی ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ ر یٹرننگ آ فیسر نے مجھ سے ایسا حسن سلوک کیوں کیا ہے کہ انہوں نے گھنٹی بجا ئی اور اپنے چپڑا سی سے کہا کہ صحرائی کو ریٹا ئرنگ روم میں بٹھا ئو میں ریٹا ئرنگ روم میں جا بیٹھا،
تھوڑی دیر کے بعد ایڈ یشنل کمشنر بھی آ گئے شیخ شمش الدین پان بہت کھا یا کرتے تھے اس وقت بھی پان کی گلوری سے ان کے لب گل رنگ ہو ئے ہو ئے تھے آ تے ہی بو لے صحرائی کیسے ہو۔ میں تو ان کے رویے پر ادھار کھا ئے بیٹھا تھا میں نے کہا سر آپ نے میرے ساتھ اچھا سلوک کیا ؟ میرے احتجاج کو نظر انداز کرتے ہو ئے پو چھا تم یار ایک غریب بندے ہو الیکشن کا پنگا کیوں لے رہے ہو ؟ ان کے اس سوال کے جواب میں میں نے انہیں ایک مختصر سی تقریر سنا ڈالی انہوں نے میری قدرے لمبی گفتگو میں مجھے نہ رو کا اور نہ ٹوکا بڑے انہماک سے میری گفتگوسنتے رہے جب میں چپ ہوا تو بولے یار تمہارا موقف ٹھیک ہے مگر تم جن لو گوں سے امیدیں لگا ئے بیٹھے ہو ان کی حالت تو یہ ہے کہ ہماری کچہری کی کنٹین کا ٹھیکیدار جیت گیا اور اس کے مقا بلہ میں ایک ایڈ وو کیٹ ہار گیا ۔ ایسے حالات میں تم کیا کر سکو گے ؟ ان کا اشارہ گذ شتہ ہو نے والے بلدیاتی انتخابات کی طرف تھا جس میں اللہ وسایا نے ایک معروف وکیل کو ہرایا تھا ۔ اللہ وسایا ضلع کچہری کنٹین کے ٹھیکیدار تھے ۔۔۔
انجم صحرائی