شب و روز زندگی قسط 26
تحریر : انجم صحرائی
حاجی الہی بخش میرے دفتر آئے ان کے ہاتھ میں ایک بستہ تھا کہنے لگے یار صحرائی میں تو تھک گیا ہوں اوقاف اور محکمہ ریوینو کے فراڈ کی کہانیاں سناتے سناتے میری تو کسی نے نہیں سنی الٹا مجھے جیل کی ہوا کھانا پڑی۔ میں چاہتا ہوں تم میری مدد کرو جو میں کہہ رہا ہوں میری بات حکام تک پہچائو۔ تاکہ میں بھی جیل کی ہوا کھائوں میں نے ہنستے ہو ئے لقمہ دیا۔
حاجی نے اپنے بستے سے کچھ کا غذات نکا لے اور مجھے دیتے ہو ئے کہا کہ یہ اوقاف کا اعمال نا مہ ہے اسے دیکھ لو ۔ اور تو اور لینڈ مافیا سکول کا وقف رقبہ بھی ڈکار گئی کو ئی پو چھنے والا نہیں۔ یہ کہتے ہو ئے حاجی اٹھے اور بغیر سلام دعا کئے چلے گئے وہ بہت جذ با تی اور اداس ہو رہے تھے ۔ ان کے جا نے کے بعد میں نے وہ کا غذات بھی چوہدری سرور کے دئیے گئے کاغذات کے ساتھ رکھ دیئے ۔ بھراتری سکول کے لئے کی جا نے والی وقف اراضی کے فراڈ کا سن کر مجھے ان کا غذات سے دلچسپی پیدا ہو چکی تھی اور میں چا ہتا تھا کہ کسی ایسے سیا نے شخص سے جو ریوینو معاملات کو سمجھتا ہو انہیں یہ کا غذات دکھا کر رہنما ئی حا صل کروں ۔اللہ بخشے ہمارے ایک بزرگ دوست ہوا کرتے تھے تھے جو ان دنوں تازہ تازہ محکمہ مال سے ریٹائرڈ ہو ئے (میں ان کا نام دانستہ نہیں لکھ رہا ) تھے میں نے ان سے مدد کی درخواست کی انہوں نے شام کو اپنے گھر آ نے کی دعوت دی ۔ میں جب ان سے ملا تو انہوں نے چٹکیوں میں مجھے وہ فار مو لا بتا دیا جس سے میں جان سکتا تھا کہ چک 123 B ٹی ڈی اے کی قا نو نی حیثیت کیا ہے ۔ انہوں نے کا غذات میں سے ایک انتقال کی نقل نکا لی یہ چک 123 B ٹی ڈی اے کے انتقال دیہہ نمر ١ کی نقل تھی انہوں نے بتا یا کہ اگر یہ انتقال جس دستا ویزات کی بنیاد پر پاس ہوا ہے اگر وہ دستا ویز درست ہے تو انتقال درست ہو گا اور اگر وہ دستا ویز بو گس اور غلط ہیں تو ایسے بو گس اور غلط دستاویز کی بنیاد پر منظور کئے جا نے والے انتقال کی کو ئی قا نو نی اہمیت نہیں ہو گی ۔ اب ستم ظریفی یہ سا منے آ ئی کہ چک 123 B ٹی ڈی اے کے انتقال دیہہ نمر ١ ٹی ڈی اے کے جس چکوک نو ٹیفکیشن کی بنیاد پر منظور کیا گیا تھا اس نو ٹیفکیشن میں چک 123 B ٹی ڈی اے کا کو ئی ذکر نہیں تھا ۔اور یہ بات بھی سا منے آئی کہ اسی بوگس چک کو بنیاد بنا کو ہی لیہ شہر میں واقع ہندو بھراتری سکول کے لئے وقف ارا ضی مہاجرین کے کلیم اور مقا می زمینداروں کی حق واپسی کے نام پر الاٹ اور ایڈ جسٹ کا کھیل کھیلا گیا گیا تھا ۔ ایم سی ہا ئی سکول کی انٹظا میہ نے بھی ہار ہا سمٹتے ہو ئے سکول کی گم ہو تی زمین بارے کئی بار حکام بالا کو خطوط لکھے۔
عدا لتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا مگر کو ئی شنوائی نہ ہو ئی ْتھوڑی سی مزید چھان بین کے بعد ایسے شواہد بھی ملے کہ محکمہ اوقاف اور محکمہ ہا ئو سنگ نے بھی اس مذ کورہ چک کی قا نو نی حیثیت کو متعلقہ فورم پر چیلنج کیا جہاں سے کئی بار چک مذ کور کو بوگس اور فراڈ بھی قرار دیا گیا مگر جن اداروں نے ان فیصلوں پر فیصلوں پر عملدر آمد کرا نا تھا مگر وہی ڈھاک کے تین پات سمیت پرنا لہ وہیں کا وہیں رہا ۔ یہ دیکھتے ہو ئے میں نے اس چک کے خلاف قلم اٹھا نے کا فیصلہ کیا میرے اس فیصلے کے پس منظر میں کوئی فرد واحد نہیں بلکہ ایم سی ہا ئی سکول کی وہ وقف اراضی تھی قیام پا کستان سے پہلے تعلیم کی شمع روشن کر نے والے ہندو خاندا نوں نے اس ادارے کے لئے وقف کی تھی میں نے اس مو ضوع پر کتنی محنت کی اور کتنا کام کیا اس کی تفصیل میں اپنے کالم “بھراتری ٹرسٹ لینڈ سکینڈل اور ٹی ڈی اے کا کھوہ کھا تہ ” میںپیش کرچکا ہوں لیہ کی تا ریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ تحریر ” شب و روز زند گی ” کے قار ئین کے لئے بھی پیش خدمت ہے۔
“قیام پا کستان کے لیہ سے پا نی پت جا نے والے ڈھینگرا خاندان کے پرام ویر ڈھینگرا بھارت کے ا ن چند لو گوں میں سے ایکہیں جو بہت سے لیہ والوں کے دوست ہیں ۔ ڈھینگرا فیملی کے ان دو ستوں میں لا لہ جو نی (غلام مصطفے ایڈ وو کیٹ ) گجو شاہ (سیدغضنفر عباس شاہ ایڈ وو کیٹ ) ، عنا یت کا شف ایڈووکیٹ اور عبد الستار علوی ایڈ وو کیٹ میرے اور پرام ویر کے مشتر کہ دو ستوں میں سے ہیں ۔ گذ شتہ سال لا لہ جو نی انڈ یا گئے تو وہ پا نی پت بھی گئے واپسی پر پرام ویر نے ہم سبھوں کے لئے وہاں کی مشہور شال کے تحفے بھیجے ۔ اس دو ستی کا سبب یہ ہے کہ قیام پا کستان سے قبل ڈھینگرا فیملی لیہ میں رہا ئش پذ یر تھے اور ڈھینگرا خاندان کے بزر گوں نے پا ر ٹیشن سے قبل لیہ میں نہ صرف بھرا تر ی سکول کے نام سیپہلا تعلیمی ادارہ قا ئم کیا بلکہ لیہ بھرا تری ایجو کیشن کمیٹی کے تحت قا ئم ہو نے والے بھرا تر ی سکول کے لئے بھرا تری ہندو ٹرسٹ کے تحت 4300ایکڑ سے زا ئد ارا ضی وقف کی ۔ یہ بات ہے 1924 سے بھی بر سوں پہلے کی جب ہندو بھراتری ایجو کیشن کے با نی اور پہلے صدر اندر بھان ڈھینگرا جو ایک لا ولد ہندو تھے نے ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی ۔ بھرا تری سکول جو آج کل ایم سی ہا ئی سکول کے نام سے معروف ہے کی ابتدا کے لئے ایک اصول وضع کیا گیا کہ جو ہندو لا ولد فوت ہو گا اس کی جا ئیداد بھرا تری ٹرسٹ کو منتقل ہو جا ئے گی اور اس طرح قیام پا کستان کے وقت اس سکول کا منتظم ادارہ وقف کی جا نے والی 4300 ایکڑ کے قریب زر عی اور و شہری جا ئیداد کا ما لک تھا ۔ لیہ شہر کے وسط میں واقع کل کا بھرا تری اور آج کا ایم سی ہا ئی سکول ہا ئی سکول اس لحاط سے بھی منفرد تھا کہ یہ ادارہ قیام پا کستان سے قبل ایک کھلی اور کشادہ عمارت ، ایک مکمل ہو سٹل اور وسیع کھیل کے میدان پر مشتمل تھا یہاں ڈھینگرا خاندان کی ان دو خواتین کو یاد نہ کر نا نا انصا فی ہو گا جنہوں نے اپنے خا وند اندر بھان کی وفات کے بعد اپنے زیور بیچ کر ہو سٹل کی عمارت تعمیر کرا ئی کہتے ہیں کہ اس وقت ہو سٹل کی عمارت پہ 60 ہزار روپے کی خطیر رقم خرچ ہو ئی تھی ۔بھرا تری ہا ئی سکول کے پہلے ہیڈ ما سٹر لا لہ آ سا رام تھے ڈھینگرا خاندان اور لیہ وال کے درمیان اسی تعلیمی درسگاہ کا ر شتہ ہے جو ایک دو سرے کو محبت اور اپنا ئیت میں با ند ھے ہو ئے۔
مقا می ایف ایم کے پروگرام فورم 89 کے گذ شتہ ایک پرو گرام میں ہما رے مہمان ایم پی اے چو ہدری اشفاق تھے شہر کے مسا ئل با رے بات چلی تو میں نے بصد ادب پو چھا کہ جناب پتہ چلا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے ہو نے والے اجلاس میں کسی معززز ممبر پنجاب اسمبلی کی طرف سے پیش کی گئی تحریک التوا نمبر 901/2014 میں بھرا تری ٹرسٹ کی ملکیت بارے حکو مت کو توجہ دلا ئی ہے ۔ جواب ملا “مجھے نہیں پتہ “ہم ایم پی اے صاحب کے جواب پہ یقین کرتے ہو ئے آ گے بڑھ گئے وہ اس لئے کہ اگر ایم پی اے صاحب کو پتہ ہو تا تو یقینا پنجاب اسمبلی میں لیہ کے بھرا تری ٹرسٹ بارے ہو نے والا سوال ہمارے ایم پی اے کی طرف سے ہو تا ۔خیر ہم ممنوں ہیں شیخ علا ئو الدین ممبر پنجاب اسمبلی لا ہور کے جنہوں نے اپنی ایک تحریک التوا کے ذریعے حکو مت پنجاب کی تو جہ دلا ئی ۔ اپنی تحریک التوا میں معزز ممبر اسمبلی نے کہا کہ بھرا تری ٹرسٹ کی ملکیت 4300 ایکڑ تھی جو قبضہ گرو پوں نے متروکہ جا ئیداد کلیموں کے عوض ٹرا نسفر کرا لی ہے اور سکول کو صرف 24 کنال زمین دے کر لینڈ ما فیا نے قبضہ کر لیا ہے ۔شیخ علا ئو الدین ایم پی اے لا ہور کی جا نب سے پیش کردہ تھریک التوا کی رو شنی میں وزیر اعلی پنجاب نے کمشنر ڈیرہ غا زیخان اور ڈسٹرکٹ کوار ڈینیشن لیہ سے مفصل رپورٹ طلب کر لی ۔ انہی دنوں ڈی سی او آ فس کی لیٹیگیشن برانچ کے ایک ذ مہ دار نے مجھ سے را بطہ کیا اور اس معا ملہ میںمیری را ہنما ئی چا ہی میں نے انہیں عرض کیا کہ جناب 2002 میں پہلے ہی اس کی تفصیلی انکوائری ہو چکی اس زما نے میں مر حوم عزیز احمد خان ڈپٹی کمشنر ہوا کرتے تھے ۔ پر ویز مشرف صاحب نے تا زہ تازہ اقتدار سبھا لا تھا ۔PTV پر احتساب کی روز گھنٹیاں بجا کر تی تھیں جن سے متا ثر ہو کر ہم نے بھی سا بق امیدوار صوبا ئی اسمبلی کی حیثیت سے چیف ایگز یکٹو پا کستان کو بھر ا تری ٹرسٹ اور چک 123بی ٹی ڈی اے فراڈ بارے در خواستیں اسلام آ باد روانہ کر دیں ۔123بی چک با رے ہما ری رائے تھی کہ یہ چک ایک بو گس اور نو ٹیفا ئیڈ چک ہے اور اس چک کا تا حال کو ئی نو ٹیفکیشن نہ ہوا ہے۔
ہم نے اپنی در خواست میں یہ بھی تحریر کیا کہ اسی بو گس چک کی آ ڑ میں قبضہ ما فیا نے قیمتی شہری جا ئیداد حتی کہ محکمہ ا وقاف کے زیر انتظام ہندو بھرا تری ٹرسٹ کی اربوں کی شہری جا ئیداد بھی نا جا ئز طور پر کلیمنٹ اور حق واپسی کے نام پر ہتھیا لی ہے ۔ ہم نے اپنی عرضداشت میںیہ بھی نو حہ سنا یا کہ کیسے ہندو ٹرسٹ کے تعلیم دوست ٹرسٹیوں نے جو تعلیمی ادارہ بھرا تری سکول قا ئم کیا تھا آزادی کے بعد ہم نینہ صرف اس کا نام بدل کے اپنے ملک کا نام روشن کیا بلکہ اس ادارے کے زیر استعمال شہری زمین کی حیثیت بھی بدل دی ۔ بلڈ نگ کی وسعت کے لئے مختص رکھے جا نے والی زمین پر محلے بس گئے اور اور با قی محکمہ اوقاف کی ملی بھگت سے فروخت ہو ئی ، کرایہ داروں کے توسط قبضہ ما فیا نے ہتھیا لی اور ناجائز کلیمنٹ اور حق واپسی کے نام بندر بانٹ ہو ئی ۔ہمارا مو قف تھا کہ وقف ارا ضی کی بھی صورت نہ تو کسی کو ایڈ جسٹ ہو سکتی ہے اور نہ ہی الاٹ ہو سکتی ہے ۔ بھر تری ٹرسٹ کی اراضی جو کہ ایک تعلیمی ادارے کے لئے وقف ارا ضی ہے اسے بھی الاٹ اور ایڈ جسٹ نہیں کیا جا سکتا ۔ اور لینڈ ما فیا نے یہ کھیل جملہ ایڈ جسمنٹ ،الا ٹمنٹ اور فرو ختگی کا غذات مال میں بھرا تری وقف کا نام حذف کر کے بحق چک123 بی ٹی ڈے اے ظاہر کر کے کھیلا ہے ۔ بھراتری ٹرسٹ اور چک123 بی ٹی ڈے اے ہم نے یہ در خواستیںاس وقت کے چیئر مین قو می احتساب بیو رو اسلام آ باد کے نام بھی بھجوا ئیں ۔ جن پر مجاز ا تھا رٹیز کے حکم پر تحقیقات کا حکم جا ری ہوا ۔ڈی سی لیہ کی جا نب سے عمر حیات مجسٹریٹ کو تحقیقاتی آ فیسر مقرر کیا جنہوں نے تحقیقات کے بعدبڑی محنت سے الگ الگ انکو ا ئر ی رپورٹس مرتب کیں ۔ ان تحقیقا تی رپو رٹس پر کیا کا روا ئی ہو ئی خبر نہیں۔۔۔۔باقی اگلی قسط میں