شب و روز زندگی قسط 25
تحریر : انجم صحرائی
مرحوم سردار بہرام خان سیہڑکی یاد میں ہونے والے اس تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرنے والوں میں ملک غلام حیدر تھند ، ملک نیاز احمد جکھڑ ، مہر فضل حسین سمرا ، ممتاز رسول خان ،شیخ نذر حسین ایڈووکیٹ ، ملک منظور حسین جو تہ ایڈ وو کیٹ ، مہر عبد القادر لو ہانچ اور دیگر مقررین شامل تھے یہ سب علاقائی سطح پر سیاسی متحارب جماعتوں اور گروپوں سے تعلق رکھتے تھے مگر اس تقریب میں سبھی سیاسی اختلافات سے با لاتر ہو کر شریک ہو ئے جو علاقائی سیاست میں ایک بڑا پا زیٹیو میسج تھا۔ یہاں میں بتاتا چلوں کہ اس زما نے میں ملک غلام حیدر تھند اور ملک نیاز جکھڑ میں سیاسی معرکہ آ رائی عروج پر ہو تی تھی ۔ ملک غلام حیدر تھند کا نام میں نے ان انتخابات میں سنا جن میں پہلی بار ملک غلام حیدر تھند نے حصہ لیا مجھے یاد ہے اس زمانے میں ایک سفید رنگ کی ٹویٹاکار پر ایک سٹوڈنٹ لیڈر ان کی الیکشن مہم چلایا کر تے تھے وہ سٹوڈنٹ لیڈر بعد میں سول سروس میں چلے گئے تھے۔ بڑے عرصے کے بعد پہلی دفعہ ایک بار مجھے ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا س زما نے میں ملک غلام حیدر تھند اپنی پرا نی رہا ئش گاہ محلہ قادر آباد میں رہتے تھے میری ان کے ساتھ نام آشنا ئی تو تھی مگر میری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہو ئی تھی 1977 کے ان انتخابات میں ملک غلام حیدر تھند کا انتخابی نشان گھوڑا تھا تحریک پاکستان کے معروف راہنما سید نذر حسین شاہ کے بیٹے سید ریاض حسین شاہ نے بھی انہی انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا تھا اور ان کا نشان بھی گھوڑا تھا میں نوائے تھل سے منسلک تھا اور میں نے اس سے قبل سید ریاض حسین شاہ ، ڈاکٹر شیخ منظور حسین اور مہر عبد القادر لو ہانچ ایڈ وو کیٹ سمیت بہت سے امیدواروں کے انٹرویوز کئے تھے اور میری خواہش تھی کہ میں ملک غلام حیدر تھند کا انٹرویو بھی اپنے اخبار کے لئے حاصل کر سکوں۔
اسی سلسلہ میں مجھے ان کی رہا ئش گاہ پر جانے کا اتفاق ہوا ۔ بڑے سے ڈرائینگ روم میں بہت سے لوگ بیٹھے تھے اور ملک صاحب کا انتظار کر رہے تھے میں بھی وہاں جاکر ایک کرسی پر بیٹھ گیا کا فی دیر کے بعد ملک غلام حیدر تھند اندرونی کمرے سے ڈرائینگ روم میں داخل ہو ئے اور آتے ہی پہلے سے موجود لو گوں سے با تیں کرنے لگے موضوع ہو نے والے انتخابات تھے اور آ ئے ہو ئے سبھی لوگ انتخابات میں اپنی ذمہ داریاں جا ننے اور اپنی مکمل حمایت کا یقین دلانے آ ئے ہو ئے تھے کا فی دیر بعد مجھے ان کے قریب ہو نے کا مو قع ملا میں نے انہیں اپنا تعارف کرایا اور مدعا بیان کیا تو کہنے لگے کہ ابھی تو مین نے جانا ہے آپ پھر کبھی آ یئے گا یہ کہتے ہو ئے انہوں نے مسکراتے ہو ئے اپنا ہا تھ آگے بڑھایا سلام لیا اور مجھے رخصت کر دیا۔ اور یوں میں ان کا انٹر ویو نہ کر سکا ۔ اس کے بعد میری ان سے ملاقات ملتان کے ہو ٹل سلور سینڈ میں ہو ئی جہاں وہ کھانا کھا نے آ ئے تھے اور میں وہاں ڈائینگ ہال میں بحیثیت منیجر کام کر رہا تھا ۔ ان دنوں میں روزنا مہ سنگ میل ملتان سے بھی وابستہ تھا میرے دن ہو ٹل میں اور رات اخبار کے دفتر میں گذرتی ۔مہر برخوردار تھند اور ایک دو اور دوست بھی ملک غلام حیدر تھند کے ساتھ تھے کھانے کے بعد ویٹر جب بل لے کر ان کی ٹیبل پر گیا تو شائد بل کسی اور نے ادا کر دیا کھا نے سے فارغ ہو کر ملک صاحب کا ئو نٹر کے ساتھ پڑی کرسی پر آ کر میرے پاس آ بیٹھے۔ اورکہنے لگے کہ ویٹر کو تو بلائو بشیر آ یا تو اس سے پو چھا کہیار ان لو گوں نے بل کے ساتھ کوئی ٹپ وغیرہ بھی دی ہے تمہیں۔
بشیر چپ رہا ملک صاحب نے اپنی جیب سے کچھ نوٹ نکالے اور بشیر کو دے دیئے یہ کہتے ہو ئے کہ ان سادہ لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ بل کے ساتھ ٹپ بھی د ی جا تی ہے ۔بشیر کا تعلق بھی لیہ سے تھا اور وہ سلور سینڈ میں ہیڈ ویٹر تھا ۔اگر میں کہوں کہ لیہ کی مقا می سیاست کا محور پرو غلام حیدر تھند اور انٹی غلام حیدر تھند ررہا ہے تو شاید غلط نہ ہو گا۔ تھند مخالف گروپ کی انٹی غلام حیدر تھند میڈ یا کمپین ہمیشہ بڑی زور دار رہی۔ تھند مخالف دھڑے میں جکھڑ ، سید ، گجر ، سمرا ، سواگ، بخاری، مرانی اور جوتہ گروپ کے لوگ سبھی غلام حیدر تھند کے خلاف متحدو متفق رہے۔ میں نے ان ایک بار پو چھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے سبھی تھند مخا لف ہوتے ہیں انتخابات میں تو کہنے لگے کہ میرے والد ایک عام سے دیہا تی کاشت کار تھے میرے خاندان کا کبھی بھی سیاست سے دور پار کا واسطہ نہیں مجھے میرے والد نے تعلیم دلا ئی میں وکیل بنا، جب میں سیا ست میں آیا تو یہاں کے پرانے سیاسی خانوادوں کے لئے ایک انہو نی بات تھی ۔ یہ سمجھیں میں نے سبھی کو چیلنج کر دیا یہ سارے میرے سے بڑے زمیندار اور تمن دار تھے بس یہ غلطی ہو ئی مجھ سے جو کسی کو بھی ہضم نہیں ہو رہی۔ آج تک یہ سب بس اسی ایک نقطے پر جمع ہو رتے ہیں کہ تھند کو ہرا نا ہے لیکن اللہ کا کرم اور لو گوں کی حمایت ہو تی ہے جس کی وجہ سے مجھے میدان میں جیت ہی ملتی ہے ۔ انتخابات میں ہار جیت تو ہو تی ہی ہے تھ ملک غلام حیدر تھند ہارے بھی اور جیتے بھی مگر ہم نے دیکھا کہ انتخابات بلدیا تی ہوں ، قومی ہوں یا صوبا ئی ہر انتخابات میں بننے والے دھڑے حیدر تھند ما ئینس فار مو لے کے تحت بنتے مگر کمال یہ ہو تا کہ تھند اپنے سیا سی مخالفین میں سے ہی کسی کو اپنا سیکند بنا کر ایسا دھو بی پٹرا مارتے کہ گرنے والے کو سمجھ ہی نہ آ تا کہ وہ کیوں اور کیسے گرا ؟
ملک غلام حیدر تھند کو اور زیادہ قریب دیکھنے کا مو قع اس وقت ملا جب بلدیہ لیہ کے سابق چیئرمین سید اختر حسین شاہ نے اپنی جیپ کے آ گے لا ئوڈ سپیکر لگا کر شہر بھر میں انا ئوسٹمنٹ کرتے ہوئے ملک غلام حیدرتھند کو اپنی زمینیں غریبوں میں با نٹنے کا چیلنج دیا پس منظر اس کا یہ تھا کہ غلام حیدر تھند عید گاہ روڈ پر واقع کینال ریسٹ کے ساتھ بر لب سڑک دکانات تعمیر کرا رہے تھے ان کا مو قف تھا کہ یہ زمین انہیں ان کی حق واپسی کے بدلے ایڈ جسٹ ہو ئی ہے جب کہ سید اختر حسین شاہ کا مو قف تھا کہ یہ گرین بیلٹ ہے اور گرین بیلٹ کسی کو بھی ایڈ جسٹ یا الاٹ نہیں کی ہو سکتی سید اخترحسین شاہ کی تھند مخالف جذ باتی مہم نے شہر میں ایک غیر معمولی صورت حال پیدا کردی تھی دیگر اخبارات کے علا وہ روزنا مہ صبح پا کستان نے بھی سید اختر حسین شاہ کے اس چیلنج کو اپنے اگلے دن کی اشا عت میںنمایاں طور پر شا ئع کیا ۔ ملک غلام حیدر تھند نے اس مسئلہ پر اپنے مو قف کی وضا حت کے لئے کینال ریسٹ ہا ئوس میں ایک پریس کا نفرنس بلا ئی جس میںشہر کے تقریبا سبھی اخبار نویس شریک ہو ئے۔ پر یس کا نفرنس میں ملک غلام حیدر تھند نے اپنے ریوینو کا غذات کی نقول پریس کے سا منے پیش کیں اور سید اختر حسین شاہ کا چیلنج قبول کرتے ہو ئے ا نہیں دعوت دی کہ وہ اگلے دن تحصیل آ فس آ جا ئیں جہاں ہم دونوں قر عہ اندازی کرتے ہو ئے اپنی جا ئیدادیں غریب لو گوں میں تقسیم کریں گے پریس کا نفرنس میں میں نے غلام حیدر تھند سے سوال کیا کہ “ملک صاحب آپ ایک ذہین سیاسی راہنما ہیں علا قا ئی تر قی کے حوالے سے بھی آپ کی کار کردگی قا بل تعریف ہے لو گوں کے مسا ئل سمجھتے بھی ہیں اور حل کر نے کی کو شش بھی کرتے ہیں صرف ایک بات جو آپ کے خلاف کی جا تی ہے کہ آپ بہت لا لچی ہیں اور جائیدار بنا نے کی یہی لالچ آپ کے لئے مسائل پیدا کرتی ہے۔
آپ سڑک کنا رے گرین بیلٹ پر قبضہ کر رہے ہیں کیا یہ درست ہے ؟”میرا خیال تھا کہ تھند صاحب میرا یہ انتہا ئی سخت چھبتا ہوا سوال سن کر کر ہتھے سے اکھڑ جا ئیں گے مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا وہ ٹانگ پر ٹانگ دھرے ٹھوڑی پر انگلی رکھے کچھ دیر تک خالی نظروں سے مجھے دیکھتے رہے اور پھر بو لے کہ یہ جو ریوینو کاغذات کی نقول میں نے آپ پریس والوں کو دی ہیں وہ ثابت کریں گے کہ میں کوئی قبضہ نہیں کر رہا یہ میرا حق ہے اگر اسلم موڑ سے گلریز ہو ٹل تک بنی دکا نیں اور مکانات درست ہیں تو یقین کریں کہ میں بھی ٹھیک ہوں ، مجھ پر جو لوگ الزام لگا رہے ہیں انہوں نے بھی اسی گرین بیلٹ پر دکا نیں بنا ئی ہو ئی ہیں اگر وہ گرین بیلٹ نہیں تو یہ بھی گرین بیلٹ نہیں با قی رہا آپ کا یہ سوال کہ میں لا لچی ہوں تو میں اس سے انکار نہیں کروں گا ۔ ایک انسان ہو نے کے نا طے مجھ میں بھی لالچ ہو سکتی ہے سبھی انسان لا لچی ہو تے ہیں جس کی جھونپڑی ہو تی ہے وہ پکا مکان بنا نا چا ہتا ہے جس کا پکا مکان ہو تا ہے وہ کوٹھی بنگلہ اور کار لینا چا ہتا ہے ہم سبھی لا لچی ہیں اور میں بھی ہوں مگر میں کو شش کر تا ہوں کہ اپنی لا لچ اپنی محنت اور دیا نت سے پو ری کروں ۔اگلے دن تحصیل آفس میں میدان سجا ۔ ملک غلام حیدر تھند ڈھول ڈھمکوں کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تحصیل آفس میں اپنی جا ئیداد تقسیم کر نے کے لئے اکیلے ہی میدان میں مو جود تھے ملک غلام حیدر تھند نے وہاں دو پلا ٹوں کی قر عہ اندازی بھی کی قرعہ اندازی میں کا میاب ہو نے والے غریبوں کے نا موں کا اعلان بھی کیا گیا کا میاب ہو نے والے خوش قسمت غریبوں کو ملک غلام حیدر تھند نے اپنے ہا تھوں سے پر چیاں بھی دیں اب انہیں پلاٹ ملے یا نہیں وہ جا نیں یا رب جا نے۔
ایک دن چوہدری سرور مرحوم جو ہمارے جرنلسٹ دوست تھے صبح پا کستان کے دفتر آ ئے ان کے ہا تھ میں ایک بڑا سا وکیلوں والا خاکی لفا فہ تھا انہوں نے وہ لفا فہ مجھے دیتے ہو ئے کہا کہ اس لفا فے میں جو کا غذات ہیں انہیں اسٹڈی کرو ، میں نے پو چھا کہ یہ کیا ہیں کہنے لگے کہ اس میں شہر لیہ کے ساتھ ہو نے والے سب سے بڑے لینڈ مافیا فراڈ کے کاغذات ہیں۔ میں نے وہ فوٹو سٹیٹ کا غذات مکال کر دیکھے تو کچھ سمجھ نہ آ ئے۔ میں نے عرض کیا کہ چو ہدری صاحب ذرا تفصیل سے سمجھا ئیں ، چو ہدری سرور بو لے ٹھیک۔ اور یوں میں شہر لیہ میں بنائے جانے والے بو گس چک 123 /B سے آ شنا ہوا ۔ لیکن میں نے ایک عر صے تک اس مو ضوع پر تو جہ نہیں دی چو نکہ میں جا نتا تھا کہ چو ہدری سرور اور ملک غلام حیدر تھند کے درمیان اختلافات اور مقد مے بازی ہے اور چو ہدری سرور کے مطا بق چکB 123/ کے بنیادی بینفیشل ملک غلام حیدر تھند تھے ۔اسی لئے میں نے یہ مو ضوع نہ ا ٹھایا۔ لیکن ایک دن فرینڈزٹیوب ویل والے حاجی الہی بخش مر حوم میرے دفتر ایک بستہ لئے آ دھمکے ۔خدا بخشے حا جی الہی بخش بھی خوب انسان تھے ساری زند گی وہ بھی محکمہ اوقاف اور محکمہ ریو نیو میں ہو نے والے گھپلوں پہ سراپا احتجاج رہے آئے روز حکام بالا کو محکمہ اوقاف اور ریوینو میں ہو نے والی کرپشن اور لوٹ کھسوٹ بارے درخواستیں لکھتے رہتے ۔ایک بار کمشنر ڈی جی خان کو درخواست گذاری کا فی عر صہ کو ئی جواب نہ ملا تو ایک اور درخواست کے ساتھ دس روپے کا نوٹ نتھی کر کے رجسٹری کرادی کمشنر بہادر کو اس تحریر کے ساتھ کہ دس روپے روانہ خدمت بابت ڈاک خرچ ہیں ۔ براہ کرم ہو نے والی کاروائی سے فد وی کو مطلع فرما یا جا ئے ْ ۔ فراڈ اور کرپشن کی اطلا عات پر تو کیا کاروائی ہو نا تھی غیرت ا ختیاررو اقتدار جوش میں آ ئی اور حاجی رشوت دینے کے الزام میں جیل کے اندر ۔۔۔۔باقی اگلی قسط میں
تحریر : انجم صحرائی