سائنس و ٹیکنالوجی۔۔۔۔ مسلم ممالک کی بقا کے لیے نا گزیر
تحریر۔ محمد طارق،لیہ
جو بات حق ہو وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی
خدا نے مجھ کو دیا ہے دل ِ خبیر و بصیر
سائنس تجربات اور مشاہدات سے حاصل کردہ علم کا نام ہے اور سائنسی علم کی عملی شکل ٹیکنالوجی ہے اس کا مقصد انسان اور انسانیت کی فلاح و بہبود ہے۔ انسان اَن گنت زمانوں سے اس تگ و تاز میں مگن رہا ہے کہ فرشِ خاکی اور اس کے متعلقات زمردیں بحر اور ان کے متعلقات، فضائے بسیط اور رفیع
الشان آسمانوں میں پنہاں اسرار و رموز طشت ازبام کر ڈالے، ہر طلو ع ہوتے سورج اور ہر بکھرتی شب انسان نے تسخیر کائنات کے خواب زریں دیکھے ہیں۔
عروجِ آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
بنو امیہ کے دور سے لے کر ایوبی دور کے آغاز تک مسلمانوں کا دنیا کے ہر شعبے میں ترقی کا طوطی بولتا تھا گو کہ اس میں نشیب و فراز آتے رہے مگر مجموعی طور پر مسلمان ہر لحاظ سے ترقی یافتہ تھے۔ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو بوعلی سینا، جابر بن حیان، محمد موسی الخوارزمی، ابن الہشیم، امام غزالی، ابن خلدون جیسے نامور مسلم مفکرین،، دانشور اور سائنس دانوں نے نہ صرف نئی ایجادات کی بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا جو کہ آج تک قائم و دائم ہے۔پھر یوں ہوا کہ بیسویں صدی آگئی، یہ صدی اپنی تمام تر قہر فرمانیوں اور ربرکتوں کو اپنے جلو میں سمیٹے ہم پر نازل ہو گئی۔ گذر گئی قرن تاریخ عالم میں سائنس و حرفت کی تیز ترین قرآن قرار دی گئی۔ دنیا شمس و قمر، مریخ و مشتری پر کمندیں ڈال لینے کے خواب دیکھتی رہی اور ہم ترازو لئے بیٹھے سوچتے رہے سائنسی ترقی رحمت یا زحمت
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا، دریافتوں کی کائنات، ریاضتوں کا ثمر، ایجادات کی بہشت ماسوائے رحمت کے کچھ اور ہو نہیں سکتی اس لیے سائنس و ٹیکنالوجی کا علم تمام دنیا اور خاص طور پر مسلم دنیا کے لیے نا گزیر ہے بلکہ زندگی و موت کا مسئلہ ہے۔
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات، کشمکش ِ انقلاب
سائنس اور ٹیکنالوجی کسی بھی ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے ناگزیر ہے بلکہ اس ترقی ہی میں اس کی بقا ہے۔ مجموعی طور پر تمام مسلم ممالک میں اس کا شدید فقدان ہے۔ دنیا اس وقت دو اقسام کے ممالک میں بٹ چکی ہے وہ ممالک جو سائنس و ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور دوسرے ترقی پذیر اور غریب ممالک جو اس سہولت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ ان میں اکثریت مسلم ممالک کی ہے۔دنیا کے کل ممالک 206 ہیں جب کہ مسلم ممالک کی تعداد 57اور آبادی 2 ارب کے قریب ہے۔ سات برا عظموں پر محیط ان مسلم ممالک کے پاس قدرتی ذخائرکی بے پناہ دولت ہے جو دنیا کے دوسرے ممالک کے پاس نہ ہے۔ سب سے اہم بات جو ہر قسمی ترقی کے لیے ناگزیر ہے وہ امن و امان اور انصاف پر مبنی حکومت اور معاشرے کا قیام ہے۔ دوسرا نظام تعلیم ہے جس پر حکومت خاطر خواہ طریقے سے عمل کر رہی ہو دنیا میں اسوقت ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیں تو آنکھیں کھلی رہ جاتی ہے۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، انگلینڈ، سنگا پور کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ امریکہ میں ایک جامعہ جس کا سالانہ بجٹ 800ارب ڈالر ہے۔ اس ادارے سے فارغ التحصیل طلبا ء نے 4000 کمپنیاں قائم کی جس میں 11لاکھ افراد کو روز گار فراہم ہوا اور سالانہ آمدن 300ارب ڈالر ہے۔ سنگاپور کی آبادی کراچی کی آبادی سے کم ہے وہاں لی کو ان یو نے حکومت کا بد عنوانی سے پاک ایسا ڈھانچہ تشکیل دیا کہ ان کی شرح نمو ÷8.5فی صد تک ہے اس کی جامعات کا بجٹ 1.8 ارب ڈالر ہے جن کا شمار دنیا کی چوٹی کی جامعات میں ہوتا ہے اور اس سے فارغ التحصیل گریجویٹس نے دنیا کی علمی، سائنسی و ٹیکنالوجی کی ترقی میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔
آئیے ہم وہ وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے مسلمانوں نے اپنا تعلیم،سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں حاصل کیا ہوا سنہری دور گنوا دیا۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں
وہ معزز ٹھرے زمانے میں مسلماں ہو کر
ہم ذلیل و خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
اگر غور سے تمام اسلامی ممالک کو اپنے ذہن میں لائیں تو آج کے اس ترقی یافتہ دور میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہ ہے جہاں امن و امان کی ابتر صورتحال موجود نہ ہو،جہاں انصاف کی فراہمی میں تا خیر نہ ہو رہی ہو،بد عنوانی کی بری صورتحال نہ ہو، کرپٹ حکومت اور اس کی پوری مشینری بد عنوانی میں ملوث نہ ہو، اداروں میں نظم و نسق کا فقدا ن ہے،سرمایہ کاری برائے نام ہے، تعلیمی، سائنسی اور ٹیکنالوجی کے میدان اغیار کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ان ممالک کے بہت سے ذہین لوگ مسلم ممالک کی ابتر صورتحال کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں منتقل ہو کر انہیں فائدہ دے رہے ہیں۔ دنیا کے %42بڑے محکموں کے سربراہ مسلم ہیں . سارے کے سارے مسلم ممالک سماجی و اقتصادی ترقی میں علم کی اہمیت سمجھنے سے قا صر ہیں۔
اس وقت دنیا میں 9465 جامعات ہیں۔ مسلم دنیا میں صرف 1000جامعات ہیں۔ دنیا کی پہلی 500جامعات میں مسلم ممالک کی صرف 5 جامعات ہیں۔ پہلی 100 جامعات میں مسلم دنیا کو کوئی حصہ نہ ہے یہ مسلم دنیا کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔پوری دنیا میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی اقتصادیات ہر اثر انداز ہو رہی ہے اگر ہم دنیا کے ساتھ قدم ملا کا آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو اپنے حکومتی ڈھانچے کو اسلامی طرز حکومت میں ڈھالنا ہو گا۔انصاف اور امن و امان کی فراہمی میں ہر صورت بہتر کرنا ہو گا۔تعلیم کے تمام شعبوں میں بنیادی تبدیلیاں لاکر اس کو ترقی یافتہ ممالک سے منسلک کرنا ہوا گا۔ GDPکا خاطر خواہ حصہ تعلیمی شعبے کے لیے متعین کرنا ہو گا۔اپنی جامعات کے معیار کو بلند کرنا ہو گا
ٹیکنالوجی کی منتقلی آسان کا م ہے اس پر عمل کر نا ہوگا۔نئی ٹیکنالوجی کی دریافت میں افرادی قوت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہو گا۔ تحقیق و ترقی کے اداروں کے قیام میں حکومت خود بھی شامل ہو اور نجی شعبے کو بھی شا مل کرے کیونکہ اس کا براہ راست تعلق سماجی و اقتصادی ترقی سے ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔سائنس و ٹیکنالوجی ہم انسانوں کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ کا مقام پا چکی ہے۔سائنس دینِ فطرت ہے۔سائنس اسلام ہے
قرآن مقدس ڈیڑھ ہزار سال قبل انسانوں سے کچھ یوں مخاطب ہوتا ہے
بیشک ہوش مندوں کے لیے آسمان و زمین کی پیدائش اور رات دن کے باری باری آنے میں نشانیاں ہیں۔ قرآن اجرامِ فلکی کے حوالے سے دعوت تدبر دیتا نظر آتا ہے۔ روموزِ کائنات میں ایک گھنٹے کا تفکر و تدبر ستر برس کی عبادت سے بہتر ہے۔ہیں جس قدر انسان کی ترقی کے مراتب پیغمبرِ اسلام کے آئین سے نکلے۔
آج مسلمان معاشی بد حالی کا شکار ہیں مسلم اْمہ کی زندگی میں اتحاد و یگانگت کا فقدان نظر آتا ہے سائنسی میدان میں تنزلی نے عالمی عزت بھی خاک میں ملا د ی ہے۔برما میں مسلمانوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے۔ کشمیریوں کو اپاہج کیا جا رہا ہے۔ عراق و شام کو تبا ہ کیا جا رہا ہے۔ افغانستان پر غیر ملکی افواج نے غاصبانہ ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں پاکستان کو دہشت گردی اور دو اطراف سے بارڈر پر دشمن اور دوست ممالک کے لیے ذریعے پریشر ڈالا جا رہا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے منفی استعمال سے مغربی اقوام مسلم دنیا کے لیے نا خدا بنی بیٹھی ہے۔ہم نے ریسرچ اور سائنس کے میدان میں وقت کے ساتھ ترقی نہ کی حالانکہ معدنی وسائل سے مالا مال مْسلم اْمہ اب غیر مسلموں کے رحم و کرم پر ہے۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اپنے غیر ملکی ایجنڈے کے لیے خریدا جا چکا ہے۔ باطل کی قوتیں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے بل بوتے پر ہر لحاظ سے حکمرانی کر رہی ہیں۔ مسلم اْمہ کو اسوقت دور اندیش لیڈروں کی اشد ضرورت ہے۔ بین الاقوامی سطح پر تمام مسلم ممالک کو یک جا ہو کر ایک پلیٹ فارم بنا کر زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے کی شدید ضرورت ہے۔ مسلم ممالک باہمی تعاون کو فروغ دے کر سائنس و ٹیکنالوجی کے ہر شعبے میں خود کفیل ہو ں گے تو معاشی، سماجی، معاشرتی ،دفاعی اور عالمی عزت اور وقارکا حصول آسان ہو گا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں برتری سے اسلامی تعلیمات کو بنیاد پرستی کا طعنہ نہیں دیا جائے گا۔ مسلم اْمہ کے افراد کا پاسپورٹ عالمی بے عزتی اور جگ ہنسائی کا باعث نہ ہو گا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی، عزت، شان اور وقار دلا سکتی ہے جس سے عالمی برابری کا حصول ممکن ہو سکے گا۔
میری نظر میں یہی ہے جما ل و زیبائی
کہ سر بسجدہ ہوں قوت کے سامنے افلاک
محمد طارق ایس ایس ٹی گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول لیہ
سیکرٹری جنرل تنظیم اساتذہ ضلع لیہ
0346-5703331