یادیں رہ جاتی ہیں
تحریر: مریم کائنات
الٹی پڑی ہیں کشتیاں ریت پر میری
وہ لے گیا آنکھوں سے سمندر نکال کر
نانا ابو کو ہم سے بچھڑے ہوئے آج سال بیت گیا لیکن یوں لگتا ہے کہ جیسے ابھی کل کی ہی بات ہو وہ ہمارے ساتھ تھے ہمارے بیچ میں تھے ہم ان کے ساتھ خوشیوں کے لمحات گزار رہے تھے ۔ مگر جب یاد آتا ہے کہ ان کو ہم سے بچھڑے ہوئے سال بیتنے کو ہے تو دل میں ملال ہوتا ہے ، آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں اور دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ بھی فطرت کا قانون ہے ۔
’’ ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے‘‘
ان کا یوں ہمارے بیچ نہ ہونا بہت تکلیف دیتا ہے ۔ یہ ہم سب یعنی پروفیسر نواز صدیقی کی پوری فیملی بلکہ میں یوں کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ پورے لیہ کے لئے ایک بہت بڑا Loss ہے ۔ مجھے آج بھی ان کے ساتھ گزرے ہوئے وہ دن یاد آتے ہیں وہ ہر دن یاد آتا ہے جب میں ان کے پاس پڑھنے جایا کرتی تھی ۔ وہ ہنسی مذاق ، وہ انکا ڈاٹنا ، سب بہت یاد آتا ہے ۔ میرے ایک استاد کی حیثیت سے میں نے ان سے بہت سی اچھی باتیں سیکھیں ۔ کاش ! وہ اب بھی ہمارے ساتھ ہوتے ۔میری خواہش ہے کہ:۔
"I wish heaven had a phone so, I could hear his voice one last time”
اُن کی بیماری کا علم تو کسی کو ہوا ہی نہیں ۔ بغیر کسی کو تکلیف دیئے دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ 15فروری میری سالگرہ کا دن ہے جو پچھلے سال میں نے اُنہیں کے ساتھ گزارا تھا ۔ اس سال گویا جتنی بھی خوشی ہو اان کی کمی کا احساس ضرور ہوا ۔ یقین ہی نہیں آتا کہ نانا ابو اب ہمارے ساتھ نہیں ہیں ۔ آج بھی مجھے یاد ہے جب وہ اپنی وفات سے پہلے علاج کے لئے لاہور جارہے تھے ہم سب کو یوں مل رہے تھے بلا بلا کر سب کا ماتھا چوما پیارا کیا گویا ایک نہیں دو ، تین بار یوں لگتا تھا کہ ان کو معلوم ہو گیا تھا کہ یہ ان کی سب کے ساتھ آخری ملاقات ہے ۔ ان کے نواسیاں ، نواسے ، پوتے ، پوتیاں ، بیٹے اور بیٹیاں سب ان کے گرد اکٹھے تھے ۔ وہ سب کو بہت حسرت سے دیکھ رہے تھے ۔ وہ اپنی آخری ملاقات کو اپنی آنکھوں میں نقش کررہے تھے اور پھر وہ اپنے سفر کو روانہ ہوئے ۔ سب کی آنکھیں اشک بار تھیں ، سب ان کی صحت کے لئے دعا کررہے تھے ۔ ابھی کچھ ہی گھنٹے گزر ے تھے کہ اطلاع ملی کہ چینیوٹ کے قریب ان کی وفات ہو گئی ہے ۔ گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی ہر کوئی دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا ۔ پہلے تو یقین نہیں آتا تھا کہ واقعی ایسا ہوگیا ۔ پہلے ان کا ایک نماز جنازہ لیہ میں ادا کی گئی پھر ایک ان کے آبائی گاؤں دائرہ دین پناہ میں ادا کی گئی ۔ اس کے بعد انکو 19فروری 2015 کی شام ان کے آبائی گاؤں دائرہ دین پناہ میں نانی اماں کی قبر کے بالکل ساتھ دفنایا گیا ۔ گویا نانی اماں اور نانا ابو مٹی کی چادر اوڑھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پر سکون نیند سو گئے ہیں ۔ اللہ دونوں کو جنت الفردوس میں جگہ دے ۔ آج 19فروری کے دن ان کی یاد سے ایک بار پھر آنکھیں یوں نم ہوئی ہیں کہ جیسے آج ہی کی بات ہو ۔ ان کا غم ہمارے دلوں میں ہمیشہ ہمیشہ یوں ہی تازہ رہے گا ۔
اک آرزو سی ہے کہ ان کو بھول جائیں ہم
مگر ان کی یاد آتی ہے یہ حسرت ہار جاتی ہے
We Miss Him Always and Forever
آخر میں میں اپنے پیارے نانا ابو اور اپنے بہت اچھے اُستاد کے لئے مندرجہ ذیل غزل Dadicate کروں گی جس کو پڑھ کر مجھے ان کی بہت یاد آتی ہے ۔
جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے
میری زندگی کی جو آس تھے وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے
جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے
مجھے ہر طرح سے جو راس تھے وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے
مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے عذاب اور ستائیں گے
میری عمر بھر کی جو پیاس تھے ، وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے
یہ خیال سارے ہیں عارضی ، یہ گلاب سارے ہیں کاغذی
گلِ آرزو کی جو باس تھے وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے
جنہیں کر سکا نہ میں قبول وہ شریک راہِ سفر ہوئے
جو مری طلب مری آس تھے وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے
یہ جو رات دن میرے ساتھ ہیں وہی اجنبی ہائے اجنبی
وہ جو دھڑکنوں کی اساس تھے وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے