پردیس کیا ہے ؟
مقبول جنجوعہ
آپ لوگ جانتے ہیں پردیس کیا بلا ہے کسی اذیت کا نام ہے پردیس ، یہ صرف وہی جان سکتا ہے جو یہ سزا بھگت رہا ہوتا ہے، ایسی عجیب سی تنہائی کا عالم کے بیشمار لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی اکیلاپن ہو ہے ناں عجیب سزا، مگر حالات اور انسانی ضروریات کی وجہ سے بندہ یہ سزا قبول کرتا ہے ہمارے ملک کے موجودہ حالات ؟ہمارے معاشرے کی فرسودہ رسمیں، ہماری زندگی میں ایسے موڑ پیدا کردیتے ہیں کہ اکثر نا چاہتے ہوئے بھی انسان اپنے لئے اس راہ کو منتخب کرلیتا ہے، اب یہ بھی ٹھیک سے نہیں پتا کہ یہ فیصلہ انسان کا اپنا ہوتا ہے یا قدرت کرواتی ہے یہ فیصلہ، انسان تو شاید بڑی باتیں کرتے ہوئے یہی کہتا ہے کہ میں نے ایسا فیصلہ کر لیا اور دیکھومیں آج کدھر ہوں۔کیا اتنی ہمت ہے انسان میں کہ خود سے فیصلہ کرسکے.؟؟؟ ارے ہوتا وہی ہے جو میرا ربا سوہنا کرتا ہے، بندہ معصوم اور خوش فہمی کا مارا ہوا یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ نہیں نہیں یہ میں ہوں جو کر رہا ہوں۔۔۔۔ پردیس آنا مشکل نہیں ، بلکہ بہت مشکل ہے، پہلے تو جو رستے کی دشواریاں ہیں اپنی جگہ مگر جواصل بات ،کہ کچھ ریال، کچھ دینار، کچھ ڈالر کمانے کے لئے اپنے معصوم بچوں سے جدائی قبول کرنا،اُن کی زندگی کے وہ دن جو پلٹ کرنہیں آتے وہ کھو دینا۔۔۔۔۔۔۔۔اُن کی ہنسی ، اُن کی ضرورت کے وقت اُن کے پاس ہونے کی طلب، اُن کی بیماری میں اُن کو لے کر بھاگنا اور پریشان ہونا، اُن کے چھوٹے چھوٹے جھگڑے نمٹانا، کبھی پنسل لے کر آنا اور کبھی کتاب و کاپی پر کور کرنا الغرض ایسے بہت سارے معصوم کام…..جو نہ کرسکے اور اُن لمحات کے عوض کچھ دینار و ریال لے لئے تاکہ اُنہی کی کامیاب زندگی کے لئے بندبست کیاجاسکے…. !یہ پردیس ہے کبھی بیماری میں خود پڑے رہنا، تنہا اور کوئی نہ ہو ساتھ دینے والا، کمرے کی گھٹی فضا، سگریٹ کا دھواں اور بدبو، بکھری چیزیں، میلاکمبل، پھٹا ہوا پردہ، بکھری سوچیں، یہ سب کیا ہے، پردیس میں رہنے کا بونس ہے شاید، اور یہی بندہ جب وقت کی مار کھا کر اور اپنی حصے کی بیگار کاٹ کر واپس لوٹتا ہے، تو حقیقت میں کچھ بھی اس کا نہیں ہوتا اُدھر……دیمک کی طرح لمحے سب چاٹ چکے ہوتے ہیں، معاشرے میں ان فِٹ کردار، سنکی کھانستا ہوا بڈھا وجود یہ ہے پردیس