افریقہ میں پاکستانی پھنسے ہیں تو پھنسے رہیں
تحریر:انعام الحق
گذشتہ کافی دنوں سے افریقہ کے مختلف ممالک میں پاکستانیوں کی بڑی تعداداپنی بُنیادی شناخت یعنی پاسپورٹ کی وجہ سے شدید پریشانی کا سامنا کر رہی ہے جوکہ اب ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔اس مسئلے کا تعلق پاکستانی پاسپورٹ کی اہمیت سے نہیں ہے بلکہ پاسپورٹ نہ ہونے یا اُسکی معیاد ختم ہونے سے ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ ہاتھ سے لکھے گئے پاکستانی پاسپورٹ کو آہستہ آہستہ تمام
تحریر:انعام الحق
گذشتہ کافی دنوں سے افریقہ کے مختلف ممالک میں پاکستانیوں کی بڑی تعداداپنی بُنیادی شناخت یعنی پاسپورٹ کی وجہ سے شدید پریشانی کا سامنا کر رہی ہے جوکہ اب ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔اس مسئلے کا تعلق پاکستانی پاسپورٹ کی اہمیت سے نہیں ہے بلکہ پاسپورٹ نہ ہونے یا اُسکی معیاد ختم ہونے سے ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ ہاتھ سے لکھے گئے پاکستانی پاسپورٹ کو آہستہ آہستہ تمام
ممالک مسترد کرتے جا رہے ہیں۔تمام بڑے ممالک ایک لمبا عرصہ قبل ہی ہاتھ سے لکھے گئے
پاسپورٹ کو مسترد کر چکے ہیں۔اب وہ ممالک جو درجے کے لحاظ سے پاکستان سے بھی کئی گنا نیچے ہیں اُنہوں نے بھی ہاتھ سے لکھے ہوئے پاسپورٹ کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
ایسے میں پاکستان حکومت کا اولین فرض یہ ہونا چاہئے کہ متعلقہ علاقہ میں موجود پاکستانی ایمبیسی کو ڈیجیٹل پاسپورٹ بنانے والی مشین فوری مہیاء کریں۔لیکن ہمارے ملک کے اہم ترین حکمران نہ صرف سر کے بالوں سے محروم ہیں بلکہ عقل اور شعور سے بھی محروم ہیں۔پاکستان میں کروڑوں روپے کے بے شمار منصوبوں کی طرف توجہ تو ہے، لیکن اس بات کی پرواہ نہیں کہ پاکستان کی تیسری بڑی طاقت یعنی اوورسیز پاکستانیوں کو تحفظ کیسے فراہم کیا جائے۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی24نومبر2015کے بعد سے حکومتیں ہاتھ سے لکھے پاسپورٹ کو قبول کرنے سے انکار کر دیں گی یہ جانتے ہوئے بھی حکومتِ وقت دُنیا بھر میں موجود پاکستانی سفارتخانوں میں ڈیجیٹل پاسپورٹ مشینیں مہیاء نہیں کر سکی۔جبکہ اگر پاکستانی سفارتخانوں کے عملے میں کسی چپڑاسی کو بھی دیکھ لیں تو وہ منسٹر سے کم نخرے نہیں کرتا۔
افریقی ملک سینی گال میں موجود پاکستانی سفارتخانہ حکومتِ وقت کو متعدد بار یہ درخواست کر چکا ہے کہ افریقہ کے مختلف ممالک میں بے شمار ایسے پاکستانی موجود ہیں جنہیں فوری ڈیجیٹل پاسپورٹ فراہم کرنا بہت ضروری ہیں۔لیکن وزارتِ داخلہ مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔وزارتِ داخلہ کی جانب سے کوئی بھی خوش آئین خبر یا کوئی اُمید نظر نہ آنے کے بعد وہاں موجود پاکستانیوں نے یہ سوچا کہ میڈیا سے رابطہ کیا جائے۔لیکن افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ برطانوی اخبارروزنامہ یوکے ٹائمز لندن کے علاوہ ابھی تک پاکستانی میڈیا کو توفیق نہیں ہوئی کہ اُن ہزاروں پاکستانیوں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے،کو خبروں میں تھوڑی سی جگہ دے دیں۔
میرا خیال ہے میاں برادران کے لئے صرف لاہور پورا پاکستان ہے اور لندن پوری دُنیا ،کیونکہ چھوٹے میاں صاحب لاہور کے علاوہ کچھ سوچتے نہیں اور بڑے میاں صاحب کو لندن(برطانیہ) کے علاوہ کسی ملک کی یاد نہیں آتی یا شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پوری دُنیا کے اوورسیز پاکستانی صرف لندن میں ہی رہتے ہیں جنہیں ہر قسم کی سہولیات دینازیادہ ضروری ہے۔عربوں کے منصوبے اپنے پیٹ بھرنے کے لئے شروع ہونے جارہے ہیں لیکن اتنہائی شرم اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اوورسیز پاکستانی اپنی بُنیادی شناخت سے محروم ہیں۔میاں صاحب!کوئی شرم ہوتی ہے۔۔۔کوئی حیاء ہوتی ہے۔۔۔!!!ہزاروں خواتین اور چھوٹے چھوٹے معصوم بچے اپنی بُنیادی شناخت کی وجہ سے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اور آپ لوگ پیلی ٹیکسی، گرین بس اور’اورنج ٹرین‘کے منصوبوں سے اپنے پیٹ بھرنے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔
ایسے میں پاکستان حکومت کا اولین فرض یہ ہونا چاہئے کہ متعلقہ علاقہ میں موجود پاکستانی ایمبیسی کو ڈیجیٹل پاسپورٹ بنانے والی مشین فوری مہیاء کریں۔لیکن ہمارے ملک کے اہم ترین حکمران نہ صرف سر کے بالوں سے محروم ہیں بلکہ عقل اور شعور سے بھی محروم ہیں۔پاکستان میں کروڑوں روپے کے بے شمار منصوبوں کی طرف توجہ تو ہے، لیکن اس بات کی پرواہ نہیں کہ پاکستان کی تیسری بڑی طاقت یعنی اوورسیز پاکستانیوں کو تحفظ کیسے فراہم کیا جائے۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی24نومبر2015کے بعد سے حکومتیں ہاتھ سے لکھے پاسپورٹ کو قبول کرنے سے انکار کر دیں گی یہ جانتے ہوئے بھی حکومتِ وقت دُنیا بھر میں موجود پاکستانی سفارتخانوں میں ڈیجیٹل پاسپورٹ مشینیں مہیاء نہیں کر سکی۔جبکہ اگر پاکستانی سفارتخانوں کے عملے میں کسی چپڑاسی کو بھی دیکھ لیں تو وہ منسٹر سے کم نخرے نہیں کرتا۔
افریقی ملک سینی گال میں موجود پاکستانی سفارتخانہ حکومتِ وقت کو متعدد بار یہ درخواست کر چکا ہے کہ افریقہ کے مختلف ممالک میں بے شمار ایسے پاکستانی موجود ہیں جنہیں فوری ڈیجیٹل پاسپورٹ فراہم کرنا بہت ضروری ہیں۔لیکن وزارتِ داخلہ مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔وزارتِ داخلہ کی جانب سے کوئی بھی خوش آئین خبر یا کوئی اُمید نظر نہ آنے کے بعد وہاں موجود پاکستانیوں نے یہ سوچا کہ میڈیا سے رابطہ کیا جائے۔لیکن افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ برطانوی اخبارروزنامہ یوکے ٹائمز لندن کے علاوہ ابھی تک پاکستانی میڈیا کو توفیق نہیں ہوئی کہ اُن ہزاروں پاکستانیوں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے،کو خبروں میں تھوڑی سی جگہ دے دیں۔
میرا خیال ہے میاں برادران کے لئے صرف لاہور پورا پاکستان ہے اور لندن پوری دُنیا ،کیونکہ چھوٹے میاں صاحب لاہور کے علاوہ کچھ سوچتے نہیں اور بڑے میاں صاحب کو لندن(برطانیہ) کے علاوہ کسی ملک کی یاد نہیں آتی یا شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پوری دُنیا کے اوورسیز پاکستانی صرف لندن میں ہی رہتے ہیں جنہیں ہر قسم کی سہولیات دینازیادہ ضروری ہے۔عربوں کے منصوبے اپنے پیٹ بھرنے کے لئے شروع ہونے جارہے ہیں لیکن اتنہائی شرم اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اوورسیز پاکستانی اپنی بُنیادی شناخت سے محروم ہیں۔میاں صاحب!کوئی شرم ہوتی ہے۔۔۔کوئی حیاء ہوتی ہے۔۔۔!!!ہزاروں خواتین اور چھوٹے چھوٹے معصوم بچے اپنی بُنیادی شناخت کی وجہ سے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اور آپ لوگ پیلی ٹیکسی، گرین بس اور’اورنج ٹرین‘کے منصوبوں سے اپنے پیٹ بھرنے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔