لیگی دادگیری
خضرکلاسرا
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر قیصر مشتاق صاحب کیساتھ جو تماشہ صوبائی وزیر ملک اقبال چنڑ نے لگایاہے ،اس حرکت کیوجہ سے پنجاب حکومت کی نیک نامی تو کیاہونی تھی بلکہ جگ ہنسائی ہوئی ہے ۔وزیرہونے کا مطلب ھرگز یہ نہیں ہوتاکہ آپ اپنے حواریوں کو بلواکر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو سبق سکھانے کیلئے اسکو گھنٹوں واش روم میں بند کردیں ۔ادھر بہاولپور ضلعی انتظامیہ ” وزیر” موصوف کی وائس چانسلر کیساتھ غنڈہ گردی کے بارے میں
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر قیصر مشتاق صاحب کیساتھ جو تماشہ صوبائی وزیر ملک اقبال چنڑ نے لگایاہے ،اس حرکت کیوجہ سے پنجاب حکومت کی نیک نامی تو کیاہونی تھی بلکہ جگ ہنسائی ہوئی ہے ۔وزیرہونے کا مطلب ھرگز یہ نہیں ہوتاکہ آپ اپنے حواریوں کو بلواکر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو سبق سکھانے کیلئے اسکو گھنٹوں واش روم میں بند کردیں ۔ادھر بہاولپور ضلعی انتظامیہ ” وزیر” موصوف کی وائس چانسلر کیساتھ غنڈہ گردی کے بارے میں
سب کچھ جاننے کے باوجود طاقت ور کیساتھ کھڑی رہی جوکہ اس کا مینڈیٹ نہیں تھا۔اس قابل مذمت واقعہ پر یوں بھی تبصرہ ہواہے کہ کبھی ایسا بھی ہوسکتاہے کہ وزیراعلی پنجاب شہبازشریف کے وزیر اقبال چنڑ کو ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر بہاولپور کے دفتر میں تھوڑا انتظار کرنا پڑے اور موصوف اپنے ڈیرے پر موجود حواریوں کو بلوا کر ڈسٹرکٹ پویس آفیسر کیساتھ وائس چانسلر جیسا سلوک کرنے کی جرات کریں گے ، سب سمجھداروں کا با آواز بلند اور متفقہ جواب تھاکہ ایساتو اقبال چنڑ کبھی ایس ایچ او کیساتھ کرنے کی جرات نہیں کرے گا، آپ تو ضلعی پولیس آفیسر کی بات کررہے ہیں۔ایک سمجھدار نے لیگی رکن صوبائی اسمبلی مہر اللہ ڈیوایا تھند کی مثال دی جنہوں نے نوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں پولیس لیہ میں ایک ڈی ایس پی کو تلخی میں گالی نکال دی تھی ،پھر لیگی رکن صوبائی اسمبلی کیساتھ ڈی ایس پی کے محافظوں نے وہی سلوک کیا تھا جوکہ پنجاب پولیس تھانوں میں مرکزی دروازہ بندکرکے کرتی ہے۔ہمارے خیال میں سمجھداروں کا صوبائی وزیر پنجاب اقبال چنڑ کو مفت مشورہ مناسب ہے کہ ایسا پنگا کبھی پنجاب پولیس سے مت لینا جوکہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر قیصر مشتاق کیساتھ لیاہے وگرنہ پنجاب پولیس کی طرف سے ٹھڈوں کیساتھ ٹھکائی ویسی ہوگی جوکہ تھانوں کے مرکزی دروازے کو بند کرکے ہوتی ہے ۔ادھر بہاولپور انتظامیہ کو بھی اپنے کردار کے بارے میں سوچنا چاہیے تاکہ ان کا ضمیر انکو ملامت کرنے کی جرات نہ کرے اور روزگار کادھندہ عزت کیساتھ چلتارہے۔
پنجاب کے صوبائی وزیر اقبال چنڑ کی وائس چانسلر کیساتھ غنڈہ گردی پر ہماری آزاد عدلیہ کو بھی ایک ”از خود نوٹس” لیکر عوام کو اپنے ہونے کا احسا س دلانے کیلئے کاروائی کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ وزیرموصوف مستقبل میں ایسی حرکت کرنے کی جرات نہ کریں اور یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کے علاوہ دیگر سرکاری محکموں کے اصول پسند افسران جوکہ پروفیسر ڈاکٹر قیصر مشتاق کیساتھ وزیر موصوف کی طرف سے ہونیوالی واردات پر خوف کا شکار ہیں ،سکھ کا سانس لے سکیں۔
ادھرسابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود نے مارچ کے آخری ہفتہ میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری کو رحیم یارخان میں جلسہ عام سے خطاب کیلئے مدعوکیاہے ۔جلسہ عام کو یادگار بنانے کیلئے احمد محمود اپنے تمام وسائل بروئے کار لارہے ہیں تاکہ بہاولپور بالخصوص سرائیکی دھرتی کے عوام کو پیپلزپارٹی کی صفوں میں واپس لایاجاسکے۔اس صورتحال میں سمجھداروں کا کہناہے کہ پیپلزپارٹی کوشش کررہی ہے کہ بلاول کو بہاولپور اور دیگر شہروں میں جلسوں سے خطاب کروا کر آصف زرداری کے ان جھوٹے وعدوں پر مٹی ڈالی جائے جوکہ انہوں نے ایوان صدر میں بیٹھ کراس دھرتی کے عوام کیساتھ کیے تھے ۔ایک بات تو پیپلزپارٹی کو ذہین میں رکھنی ہوگی کہ بہاولپور کے عوام لولی پاپ اور تقریروں سے زیادہ عملی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں ،وہ تو اس وقت تک سید احمد محمود کیساتھ بات کرنے پر بھی تیارنہیں تھے جب تک انہوں نے اپنے والد مخدو م زادہ حسن محمود کی بہاولپور صوبہ بحالی پر معافی نہیں مانگ لی تھی ،یہ اور کہانی ہے کہ مخدوم احمد محمود بہاولپور کے عوام سے عام معافی ملنے کے بعد بہاولپور صوبہ بحالی تحریک چلاتے چلاتے اچانک پیپلزپارٹی کے گورنر پنجاب بن کر لاہور جابیٹھے تھے اور پھر بہاولپور صوبہ بحالی کے معاملہ پر وہی بیان بازی کرنے لگے تھے جوکہ آصف زرداری کو پسند تھی۔پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری کو رحیم یار خان خطاب میں اس بات کوسامنے رکھنا ہوگا کہ بہاولپور کے عوام بہاولپور صوبہ بحالی میں ”اگرمگر ”کی سیاست کو پسند نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کا دوٹوک موقف ہے کہ بہاولپور صوبہ کو بحال کیجائے ۔رہا سرائیکی صوبہ کے قیام کا معاملہ جسکی پیپلزپارٹی بڑی دیر تک وکالت کرتی رہی ہے لیکن اقتدار میں آکر پانچ سال گزار گئی اور سرائیکی صوبہ کے حامیوں کو زرداری نے ملتان میں آکر لمبی چوڑی تہمید کے بعد یہ نوید سنائی تھی کہ سرائیکی صوبہ بننا تو فی الحال مشکل ہے لیکن سرائیکی بنک بناسکتے ہیں ،یوں اتفاق ہواکہ زرداری صاحب کو مشکل میں نہ ڈالا اور سرائیکی صوبہ کا معاملہ اگلی حکومت تک رکھ چھوڑتے ہیں اور اس بار سرائیکی بنک بنوالیتے ہیں ۔دلچسپ صورتحال اسوقت پیدا ہوئی جب آصف علی زرداری سرائیکی صوبہ کے حامیوں کیساتھ سرائیکی بنک کے قیام پر بھی ہاتھ کرگئے اور خاموشی کیساتھ اقتدار کے دن مکمل کرتے دبئی نکل گئے ۔یوں لگتاہے کہ پیپلزپارٹی ہوشیاری کیساتھ سرائیکی صوبہ کے قیام اور بہاولپور صوبہ کے حامیوں کو ایک بار پھر چکمہ دینے کیلئے بلاول بھٹو زرداری کومیدان میں اتار رہی ہے لیکن اب کی بار لگتانہیں کہ سرائیکی صوبہ کے قیام اور بہاولپور صوبہ بحالی کے بلاول کے جلسوں کی تقریروں میں آکر پیپلزپارٹی کو سپورٹ کریں۔
پنجاب کے صوبائی وزیر اقبال چنڑ کی وائس چانسلر کیساتھ غنڈہ گردی پر ہماری آزاد عدلیہ کو بھی ایک ”از خود نوٹس” لیکر عوام کو اپنے ہونے کا احسا س دلانے کیلئے کاروائی کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ وزیرموصوف مستقبل میں ایسی حرکت کرنے کی جرات نہ کریں اور یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کے علاوہ دیگر سرکاری محکموں کے اصول پسند افسران جوکہ پروفیسر ڈاکٹر قیصر مشتاق کیساتھ وزیر موصوف کی طرف سے ہونیوالی واردات پر خوف کا شکار ہیں ،سکھ کا سانس لے سکیں۔
ادھرسابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود نے مارچ کے آخری ہفتہ میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری کو رحیم یارخان میں جلسہ عام سے خطاب کیلئے مدعوکیاہے ۔جلسہ عام کو یادگار بنانے کیلئے احمد محمود اپنے تمام وسائل بروئے کار لارہے ہیں تاکہ بہاولپور بالخصوص سرائیکی دھرتی کے عوام کو پیپلزپارٹی کی صفوں میں واپس لایاجاسکے۔اس صورتحال میں سمجھداروں کا کہناہے کہ پیپلزپارٹی کوشش کررہی ہے کہ بلاول کو بہاولپور اور دیگر شہروں میں جلسوں سے خطاب کروا کر آصف زرداری کے ان جھوٹے وعدوں پر مٹی ڈالی جائے جوکہ انہوں نے ایوان صدر میں بیٹھ کراس دھرتی کے عوام کیساتھ کیے تھے ۔ایک بات تو پیپلزپارٹی کو ذہین میں رکھنی ہوگی کہ بہاولپور کے عوام لولی پاپ اور تقریروں سے زیادہ عملی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں ،وہ تو اس وقت تک سید احمد محمود کیساتھ بات کرنے پر بھی تیارنہیں تھے جب تک انہوں نے اپنے والد مخدو م زادہ حسن محمود کی بہاولپور صوبہ بحالی پر معافی نہیں مانگ لی تھی ،یہ اور کہانی ہے کہ مخدوم احمد محمود بہاولپور کے عوام سے عام معافی ملنے کے بعد بہاولپور صوبہ بحالی تحریک چلاتے چلاتے اچانک پیپلزپارٹی کے گورنر پنجاب بن کر لاہور جابیٹھے تھے اور پھر بہاولپور صوبہ بحالی کے معاملہ پر وہی بیان بازی کرنے لگے تھے جوکہ آصف زرداری کو پسند تھی۔پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری کو رحیم یار خان خطاب میں اس بات کوسامنے رکھنا ہوگا کہ بہاولپور کے عوام بہاولپور صوبہ بحالی میں ”اگرمگر ”کی سیاست کو پسند نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کا دوٹوک موقف ہے کہ بہاولپور صوبہ کو بحال کیجائے ۔رہا سرائیکی صوبہ کے قیام کا معاملہ جسکی پیپلزپارٹی بڑی دیر تک وکالت کرتی رہی ہے لیکن اقتدار میں آکر پانچ سال گزار گئی اور سرائیکی صوبہ کے حامیوں کو زرداری نے ملتان میں آکر لمبی چوڑی تہمید کے بعد یہ نوید سنائی تھی کہ سرائیکی صوبہ بننا تو فی الحال مشکل ہے لیکن سرائیکی بنک بناسکتے ہیں ،یوں اتفاق ہواکہ زرداری صاحب کو مشکل میں نہ ڈالا اور سرائیکی صوبہ کا معاملہ اگلی حکومت تک رکھ چھوڑتے ہیں اور اس بار سرائیکی بنک بنوالیتے ہیں ۔دلچسپ صورتحال اسوقت پیدا ہوئی جب آصف علی زرداری سرائیکی صوبہ کے حامیوں کیساتھ سرائیکی بنک کے قیام پر بھی ہاتھ کرگئے اور خاموشی کیساتھ اقتدار کے دن مکمل کرتے دبئی نکل گئے ۔یوں لگتاہے کہ پیپلزپارٹی ہوشیاری کیساتھ سرائیکی صوبہ کے قیام اور بہاولپور صوبہ کے حامیوں کو ایک بار پھر چکمہ دینے کیلئے بلاول بھٹو زرداری کومیدان میں اتار رہی ہے لیکن اب کی بار لگتانہیں کہ سرائیکی صوبہ کے قیام اور بہاولپور صوبہ بحالی کے بلاول کے جلسوں کی تقریروں میں آکر پیپلزپارٹی کو سپورٹ کریں۔
خضرکلاسرا