کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
عفت
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا وہ تو بس گذرتا چلا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذمے قدرت نے یہی کام لگایا ہے اب حالات نے اس کی رفتار کو بڑھا دیا ہے کہ ہم سب اس گردشِ ِ دوراں میں بھاگے چلے جا رہے۔اکثر مجھے خیال آتا ہے کہ پہلے بہت وقت ہوتا تھا سب کام بھی ہو جاتے ملنا ملانا بھی ہوتا
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا وہ تو بس گذرتا چلا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذمے قدرت نے یہی کام لگایا ہے اب حالات نے اس کی رفتار کو بڑھا دیا ہے کہ ہم سب اس گردشِ ِ دوراں میں بھاگے چلے جا رہے۔اکثر مجھے خیال آتا ہے کہ پہلے بہت وقت ہوتا تھا سب کام بھی ہو جاتے ملنا ملانا بھی ہوتا
خلوص ہوتا قدر ہوتی مہمان کو خدا کی رحمت گردانا جاتا۔خوب آؤبھگت ہوتی ۔بچوں کے پاس کھیلنے کا وقت ہوتا ۔شام کے وقت پارک میں جاتے ۔اہل محلہ کو خبر ہوتی ایک دوسرے کے حالات اور پریشانی کی اور سب مل کر بانٹ لیتے ۔غم اور خوشی سانجھی ہوتی اور مل بانٹنے سے غم کم ہو جاتا اور خوشی دگنی ۔پھر دھیرے دھیرے ایسا وقت آ گیا کہ ہمارے پاس وقت کی قلت ہو گئی اور ہمارے احساسات برف کی طرح منجمند ہو گئے۔اور پھر ایسا وقت آگیا کہ۔
حادثے سے بڑھ کے سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
ہماری پریشانیوں کی اصل وجہ بھی دوری ہے ۔اور یہ دوری بھی کئی قسم کی دوریوں پہ مشتمل ہے ۔اپنوں سے دوری،مذہب سے دوری،اخلاقیات سے دوری،اور سب سے بڑھ کر اپنے مالک سے دوری۔ان سب دوریوں کی عوض ہم مشکلات کا شکار ہیں ۔پانچ سال قبل والد کا انتقال ہوا وہ گورنمنٹ کے ملازم تھے اور پینشن لیتے تھے ان کی وفات کے بعد وہ پینشن والدہ کو ملنی تھی کہنے کو تو سادہ سی بات تھی اور جائز کام تھا مگر مسلسل کوششوں کے باوجود بھی نہیں ہو رہا تھا اور فائل تھی کے کبھی ادھر کبھی ادھر ،کبھی صاحب نہیں ،الغرض اس آنا کانی بلکہ بہانہ بازی میں دو سال بیت گئے اتنی پینشن نہیں تھی جتنے چکر لگانے میں لگ گئے ۔پھر بھلا ہو ایک چپڑاسی کا جس نے بتایا کہ کچھ دو اور کچھ لو ۔اب پلے کچھ تھا نہیں جو دیتے بالاآخر صاحب سے یہ طے ہوا کہ ملنے والی رقم سے چالیس ہزار اس مد میں دیے جائیں ۔والدہ اس بات سے اکتا چکی تھیں سو یہ مان لیا اور اس طرح ایک جائز کام رشوت کے ہاتھوں ناجائز ہوا ۔اب کیا کیا جاسکتا زمانے کی بھیڑ چال ہی ایسی ہوگئی کہ جائز آمدنی میں کچھ پورا ہی نہیں پڑتا سو مالِ حرام کے پیٹ میں جانے کا ہر راستہ کھلا ہے ۔خواہشات کے جال میں الجھے بیٹھے ہیں اور خواہشات ہیں کہ اپنا دائرہ وسیع تر کیے جاتی ہیں ۔ آج میں ان تمام کرداروں کا ذکر کرنا چاہوں گی جن سے مجھے ذاتی لگاؤ ہے اور وہ میری زندگی میں مجھے کچھ سبق دے گئے ہیں ۔ میری زندگی کا ایک اہم کردار مرشد بھی ہیں جن کو میں کبھی فراموش نہیں کر پاتی ان کا ناصحانہ انداز کبھی دوستانہ ہوتا تو کبھی استادانہ لیکن حقیقت یہ کہ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا وہ ایک انسان دوست شخصیت ہیں اور اکثر خدمتِِ انسانیت میں لگے رہتے ۔پرائمری میں ہمیں ایک استاد پڑھایا کرتے تھے جن کا نام عبدالغفور تھا وہ ریاضی پڑھاتے تھے ان کا طریقہ کار تھا کہ اسکول آنے کے بعد وہ ایک بچے کو گھر بھجواتے اور وہ چائے سے بھرا تھرماس لے آتا وہ ایک کپ بھرتے اور بہت اہتمام سے کرسی پہ بیٹھ کے پرچ میں ڈال کے سڑک سڑک کی آواز کے ساتھ چائے پیتے۔ مجال تھی کہ کوئی بچہ اس دوران بولے پچاس بچوں کی کلاس میں چوں چاں کی آواز تک نہ آتی ہم سب محویت سے انکی سڑک سڑک کی آواز سے محظوظ ہوتے۔پہاڑا نہ آنے کی صورت میں ان کا مولا بخش تیار رہتا ۔دوسری شخصیت اسکول کی استانی تھیں گورنمنٹ اسکول جس میں کم و بیش دو سو سے زیادہ طلباوطالبات تھے ۔ہیڈ مس جو ہر وقت اون سلائیوں کے ساتھ الجھی رہتیں دو بڑی بچیاں قاعدے ہاتھ میں تھامے رٹے لگواتی رہتیں ۔بچے دریوں پہ بیٹھے ایک دوسرے کو چھیڑتے لڑائیاں کرتے جس پہ کلاس کی مانیٹر مس کے پاس جا کر کہتی ، مس جی انیلہ اور صغراں ایک دوجے کا جھاٹا پوٹ رہی ہیں ،تب مس کو جوش آتا اور وہ غصے میں آکر دونوں کا پٹا ہوا جھاٹا مذید پٹ دیتیں ۔چند لمحوں کے لیے سب کو سانپ سونگھ جاتا اور مس کے جاتے ہی پھر وہی بھن بھن شروع ہو جاتی۔زندگی کے سفر میں یاد رہ جانے والی ایک اور ہستی پروفیسر علم دار تھے وہ ہماری ہسٹری کی کلاس لیتے تھے ان کی رائٹنگ بہت خوب تھی اور انہیں لکھنے کا بہت کریز تھا کلاس میں آتے ہی کہتے آج میں آپکو مغل شہنشاہوں کے بارے میں لکھواؤں گا بس پھر بورڈ کی طرف منہ اور ہاتھ میں پکڑی چھوٹی چھوٹی پرچیوں پہ لکھا لیکچر بورڈ کے صفحہ قرطاس بہ بکھرنے لگتا ۔آہستہ آہستہ سب پچھلے دروازے سے کھسکنے لگتے اور بیل کی ٹن ٹن پہ جب سر لمبا سانس کھینچ کر پیچھے مڑتے تو آدھی سے زیادہ کلاس رفو چکر ہو چکی ہوتی۔
یہ سب یادیں زندگی کا حصہ ہیں اب جب عمر ان حدوں کو پار کر رہی اور بقول مرشد ہر سال ہم اپنے ماضی سے دور اور منزل کے قریب ہوتے جاتے ہیں تو یہ یادیں دھندلی ہوتی جاتی ہیں جس طرح گھڑسوار کے پیچھے دھول کے بگولے اٹھتے رہ جاتے اس طرح عمر رفتہ کو محض آواز ہی دی جا سکتی لوٹایا نہیں جا سکتا ۔کسی نے خوب کہا۔
غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
زرا عمرِرفتہ کو آواز دینا۔
حادثے سے بڑھ کے سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
ہماری پریشانیوں کی اصل وجہ بھی دوری ہے ۔اور یہ دوری بھی کئی قسم کی دوریوں پہ مشتمل ہے ۔اپنوں سے دوری،مذہب سے دوری،اخلاقیات سے دوری،اور سب سے بڑھ کر اپنے مالک سے دوری۔ان سب دوریوں کی عوض ہم مشکلات کا شکار ہیں ۔پانچ سال قبل والد کا انتقال ہوا وہ گورنمنٹ کے ملازم تھے اور پینشن لیتے تھے ان کی وفات کے بعد وہ پینشن والدہ کو ملنی تھی کہنے کو تو سادہ سی بات تھی اور جائز کام تھا مگر مسلسل کوششوں کے باوجود بھی نہیں ہو رہا تھا اور فائل تھی کے کبھی ادھر کبھی ادھر ،کبھی صاحب نہیں ،الغرض اس آنا کانی بلکہ بہانہ بازی میں دو سال بیت گئے اتنی پینشن نہیں تھی جتنے چکر لگانے میں لگ گئے ۔پھر بھلا ہو ایک چپڑاسی کا جس نے بتایا کہ کچھ دو اور کچھ لو ۔اب پلے کچھ تھا نہیں جو دیتے بالاآخر صاحب سے یہ طے ہوا کہ ملنے والی رقم سے چالیس ہزار اس مد میں دیے جائیں ۔والدہ اس بات سے اکتا چکی تھیں سو یہ مان لیا اور اس طرح ایک جائز کام رشوت کے ہاتھوں ناجائز ہوا ۔اب کیا کیا جاسکتا زمانے کی بھیڑ چال ہی ایسی ہوگئی کہ جائز آمدنی میں کچھ پورا ہی نہیں پڑتا سو مالِ حرام کے پیٹ میں جانے کا ہر راستہ کھلا ہے ۔خواہشات کے جال میں الجھے بیٹھے ہیں اور خواہشات ہیں کہ اپنا دائرہ وسیع تر کیے جاتی ہیں ۔ آج میں ان تمام کرداروں کا ذکر کرنا چاہوں گی جن سے مجھے ذاتی لگاؤ ہے اور وہ میری زندگی میں مجھے کچھ سبق دے گئے ہیں ۔ میری زندگی کا ایک اہم کردار مرشد بھی ہیں جن کو میں کبھی فراموش نہیں کر پاتی ان کا ناصحانہ انداز کبھی دوستانہ ہوتا تو کبھی استادانہ لیکن حقیقت یہ کہ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا وہ ایک انسان دوست شخصیت ہیں اور اکثر خدمتِِ انسانیت میں لگے رہتے ۔پرائمری میں ہمیں ایک استاد پڑھایا کرتے تھے جن کا نام عبدالغفور تھا وہ ریاضی پڑھاتے تھے ان کا طریقہ کار تھا کہ اسکول آنے کے بعد وہ ایک بچے کو گھر بھجواتے اور وہ چائے سے بھرا تھرماس لے آتا وہ ایک کپ بھرتے اور بہت اہتمام سے کرسی پہ بیٹھ کے پرچ میں ڈال کے سڑک سڑک کی آواز کے ساتھ چائے پیتے۔ مجال تھی کہ کوئی بچہ اس دوران بولے پچاس بچوں کی کلاس میں چوں چاں کی آواز تک نہ آتی ہم سب محویت سے انکی سڑک سڑک کی آواز سے محظوظ ہوتے۔پہاڑا نہ آنے کی صورت میں ان کا مولا بخش تیار رہتا ۔دوسری شخصیت اسکول کی استانی تھیں گورنمنٹ اسکول جس میں کم و بیش دو سو سے زیادہ طلباوطالبات تھے ۔ہیڈ مس جو ہر وقت اون سلائیوں کے ساتھ الجھی رہتیں دو بڑی بچیاں قاعدے ہاتھ میں تھامے رٹے لگواتی رہتیں ۔بچے دریوں پہ بیٹھے ایک دوسرے کو چھیڑتے لڑائیاں کرتے جس پہ کلاس کی مانیٹر مس کے پاس جا کر کہتی ، مس جی انیلہ اور صغراں ایک دوجے کا جھاٹا پوٹ رہی ہیں ،تب مس کو جوش آتا اور وہ غصے میں آکر دونوں کا پٹا ہوا جھاٹا مذید پٹ دیتیں ۔چند لمحوں کے لیے سب کو سانپ سونگھ جاتا اور مس کے جاتے ہی پھر وہی بھن بھن شروع ہو جاتی۔زندگی کے سفر میں یاد رہ جانے والی ایک اور ہستی پروفیسر علم دار تھے وہ ہماری ہسٹری کی کلاس لیتے تھے ان کی رائٹنگ بہت خوب تھی اور انہیں لکھنے کا بہت کریز تھا کلاس میں آتے ہی کہتے آج میں آپکو مغل شہنشاہوں کے بارے میں لکھواؤں گا بس پھر بورڈ کی طرف منہ اور ہاتھ میں پکڑی چھوٹی چھوٹی پرچیوں پہ لکھا لیکچر بورڈ کے صفحہ قرطاس بہ بکھرنے لگتا ۔آہستہ آہستہ سب پچھلے دروازے سے کھسکنے لگتے اور بیل کی ٹن ٹن پہ جب سر لمبا سانس کھینچ کر پیچھے مڑتے تو آدھی سے زیادہ کلاس رفو چکر ہو چکی ہوتی۔
یہ سب یادیں زندگی کا حصہ ہیں اب جب عمر ان حدوں کو پار کر رہی اور بقول مرشد ہر سال ہم اپنے ماضی سے دور اور منزل کے قریب ہوتے جاتے ہیں تو یہ یادیں دھندلی ہوتی جاتی ہیں جس طرح گھڑسوار کے پیچھے دھول کے بگولے اٹھتے رہ جاتے اس طرح عمر رفتہ کو محض آواز ہی دی جا سکتی لوٹایا نہیں جا سکتا ۔کسی نے خوب کہا۔
غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
زرا عمرِرفتہ کو آواز دینا۔