کیا لوگ یونہی بے گھر ہوتے رہیں گے ؟
خضرکلاسرہ
لیہ کے دریائے سندھ کے کچہ کے علاقہ میں کٹاؤ کیساتھ اجڑتے گھروں کی دکھ بھری کہانی حقیقی معنوں میں تو وہی سمجھ سکتاہے جو اس صورتحال سے کبھی دوچار ہواہو۔ اس کو بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ لمحوں میں دریابرد ہوتے گھروں کے علاوہ عورتوں،بچوں اور بزرگوں کا نامعلوم منزل کی طرف لیکر جانا کتنا مشکل اور درد ناک ہوتاہے اور پھر نہ ختم ہونے والا انتظار ہوتاہے کہ کبھی تو دریاکا پانی واپس جائیگا اور ہم زندگی کی طرف لوٹ جائینگے لیکن ا س وقت تک کئی نسلیں ختم ہوجاتی ہیں ۔دریا کا کٹاؤ زلزلے سے بھی زیادہ یوں خطرناک ہوتاہے کہ سب کچھ ہی چلا جاتاہے ،ملبہ تک بھی اٹھانے کی مہلت نہیں ہوتی ہے۔پھر جہاں تک نظر جاتی ہے پانی کا راج ہی ہوتاہے اور انسانی زندگی میں نہ ختم ہونیوالے اندھیرے ہوتے ہیں۔ایسے موقعوں پر تسلیاں اور وعدے تو اور بھی چڑچڑاکرتے ہیں ۔اجڑتے لوگوں کا دھاڑ یں مار کر رونے کو دل کرتاہے اور پھر اذیت یوں بھی بڑھ جاتی ہے جب حکومت کہیں نظرہی نہ آئے اور زندگی کا نشان ہی مٹتاچلاجائے ۔ایسے ہی کچھ مناظر تھے جوکہ لیہ شہر سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر دریاسندھ سے جڑے موضع لوہانچ اور دیگر دریائے سندھ کیساتھ جڑے موضعات جات اور بستیوں میں مل رہے تھے ۔ یوں لگ رہاتھاکہ دریائے سندھ نے اب تہیہ کرلیاہے کہ زندگی کا نشان ہی ختم کرناہے۔صورتحال اسوقت بدل گئی جب دریا سندھ کے کٹاؤکا شکار ایک اسی سالہ بزرگ کی دھاڑ نکلی اور ڈاکٹر جاوید کنجال صاحب کے گلے لگ کر بچوں کی طرح زاروقطار رونے لگ گیا ،(ڈاکٹرصاحب ساڈا کجھ وی نی رہیاہے ، سارا کجھ دریا اچ لڑھ گئے ، اساں کتھاں ویسوں)ڈاکٹر صاحب ہمارا کچھ بھی نہیں بچاہے ، ساراکچھ دریامیں چلاگیاہے ،ہم کہاں جائینگے۔ہماری عورتوں،بچوں کی روزی اور چھت تک دریا نے نگل لیاہے۔پھر خاموشی تھی، ڈاکٹر صاحب نے کوشش کرکے بزرگ کو تسلی دی لیکن محسوس یوں ہورہاتھاکہ اندر سے ڈاکڑ کنجال بھی دریاسندھ کے جاری کٹاؤ کے بعد کی صورتحال کو دیکھ کر ٹوٹ چکاتھا ۔دریا کے مارے اس بزرگ جیسے سینکڑوں بزرگ ،بچے ،عورتیں اور جوان زندگی کی جمع پونجی کو دریا سندھ کے کٹاؤ کیساتھ گرتا دیکھ کر آنسوؤں کے سیلاب کیساتھ ہمیشہ کیلئے بے گھر اور غربت کی چکی میں چلے گئے تھے ،ان کے پاس اب آنسو بہانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ڈاکٹرجاوید کنجال نے بتایاکہ دریائے سندھ کا کٹاؤ تین ،چار ماہ سے جاری ہے اور اب اس کا کٹاؤ شمال جنوب 70کلومیٹر دریا کے کنارے کیساتھ پھیل چکاہے اور مشرق سے مغرب اس کا پھیلاؤ تین کلومیٹر سے زاہد ہوچکاہے ،جسکی وجہ سے متعدد بستیاں دریا برد ہوچکی ہے،جن میں وستی ڈلو،وستی سہویہ،وستی چندرڑ ھ اور وستی گشکوری شامل ہیں ۔ اس کیساتھ دریائے سندھ کے جاری کٹاؤ میں موضع وارڑں سہیڑاں ، موضع رکھ واں ، موضع نورآلے، موضع سمرا نشیب ،موضع ڈلو نشیب ،موضع لوہانچ ،موضع کھوکھر آلہ، موضع شاہ آلہ اور بکھر ی احمد تک کے علاقے زد میں ہیں ۔اب ان موضعات جات میں پانی کا راج ہے ۔ادھر قابل افسوس امر یہ ہے کہ دریاسندھ کے کٹاؤ کو روکنے کیلئے کوئی کام شروع نہیں ہوا ہے۔جوبھی آتاہے ،وہ تسلی دیتااور گلے لگاتا ہے اور ساتھ ہی غائب ہوجاتاہے ۔ڈسٹرکٹ کوارڈنیشن آفیسر سے لیکر ارکان اسمبلی چکر لگاکر پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں عملی طورپر کوئی قدم نہیں اٹھارہاہے ،ایک اندازے کے مطابق اب تک دو سے پچیس ہزاز ایکڑ تک گنا اور دیگر فیصلیں دریا برد ہوچکی ہیں ،ادھر یہاں کے مکین نفسیاتی مریض یوں ہوچکے ہیں کہ انکی زندگی کا سارا کچھ دریا لے گیا اور وہ خالی ہاتھ پاگلو ں کی طر ح کبھی اس جگہ کبھی اس جگہ بیٹھتے ہیں ۔دریائے سندھ کے جاری کٹاؤ کا جاری سلسلہ نہ رکا تو پھر بعید نہیں ہے کہ دریائے سندھ لیہ شہر کو بھی نکل جائیگا کیونکہ جس طرح حکومت وقت خواب غفلت میں ہے اور ضلعی انتظامیہ کی سب اچھا کی رپورٹ جلتی پر تیل کا کام کررہی ہے۔ادھرتخت لہور کے حکمران ہیں کہ ان کو اس بات غرض ہی نہیں ہے کہ لیہ میں دریائے سندھ کے کٹاؤ کے بعد کتنی مشکل صورتحال کا لوگ شکارہوچکے ہیں۔
جولوگ لیہ کے رہائشی ہیں یا پھر اسکو قریب سے جانتے ہیں ،اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ضلع لیہ کا سب سے بڑا ایشو دریائے سندھ کا سیلاب اور کٹاؤ ہے لیکن اگر کوئی نہیں جانتاہے تو یہاں کے ارکان اسمبلی کیونکہ ان کی طرف سے کبھی اس اہم ترین معاملے کو اسمبلی میں نہیں اٹھایا گیاہے،یوں خاموشی کیساتھ پچھلی نشتوں پر وقت گزارنکل جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف لوگ بچارے سیلاب ،کٹاؤ اور دیگر مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں ۔یہاں پنجاب حکومت جوکہ شہبازشریف کی قیادت میں چل رہی ہے اسکی بھی نااہلی کی انتہاء ہے کہ لیہ میں اتنے بڑے پیمانے پر دریائے سندھ نے کٹاؤ کیساتھ تباہی مچائی ہوئی ہے اورابھی تک کوئی سپر پر کام شروع نہیں ہوا ہے جوکہ اس کے کٹاؤ کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتا۔”رہے نام اللہ کا”۔پھر ان خاندانوں جن کا سب کچھ دریامیں چلا گیاہے ،انکی فوری آبادی کاری کیلئے بھی کوئی اقدام نہیں کیاگیاہے ۔ہمارے خیال میں سرائیکی دھرتی کے پرامن لوگ اس طرح کے سلوک کے حقدار نہیں ہیں جوکہ تخت لہور کی طرف روا رکھاجارہاہے۔
جولوگ لیہ کے رہائشی ہیں یا پھر اسکو قریب سے جانتے ہیں ،اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ضلع لیہ کا سب سے بڑا ایشو دریائے سندھ کا سیلاب اور کٹاؤ ہے لیکن اگر کوئی نہیں جانتاہے تو یہاں کے ارکان اسمبلی کیونکہ ان کی طرف سے کبھی اس اہم ترین معاملے کو اسمبلی میں نہیں اٹھایا گیاہے،یوں خاموشی کیساتھ پچھلی نشتوں پر وقت گزارنکل جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف لوگ بچارے سیلاب ،کٹاؤ اور دیگر مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں ۔یہاں پنجاب حکومت جوکہ شہبازشریف کی قیادت میں چل رہی ہے اسکی بھی نااہلی کی انتہاء ہے کہ لیہ میں اتنے بڑے پیمانے پر دریائے سندھ نے کٹاؤ کیساتھ تباہی مچائی ہوئی ہے اورابھی تک کوئی سپر پر کام شروع نہیں ہوا ہے جوکہ اس کے کٹاؤ کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتا۔”رہے نام اللہ کا”۔پھر ان خاندانوں جن کا سب کچھ دریامیں چلا گیاہے ،انکی فوری آبادی کاری کیلئے بھی کوئی اقدام نہیں کیاگیاہے ۔ہمارے خیال میں سرائیکی دھرتی کے پرامن لوگ اس طرح کے سلوک کے حقدار نہیں ہیں جوکہ تخت لہور کی طرف روا رکھاجارہاہے۔