انڈین لیڈی ڈاکٹر پاکستانی شہری اور حاکم وقت
غیر معمولی واقعات بعض و اوقات سنگین مسائل کا پیش خیمہ بنتے ہیں انسان جن واقعات کو معمولی سمجھ کر پس پشت ڈالتا ہے مستقبل میں وہ ہی مسائل افراد نا قابل تلافی نقصان کا پیش خیمہ بنتے ہیں چوک اعظم کے باسی گزشتہ کئی سالوں سے انڈین کو لاٹری کے ذریعے لوٹنے کی مخصوص قبیلے کے نوجوانوں کی کاروائیاں سنتے آرہے تھے اس قبیلے کے نوجوان دنوں میں پرتعیش زندگی غیر معمولی رہائشوں سے کوٹھیوں بنگلوں میں شفٹ اور لگزری گاڑیاں انکے زیراستعمال آگئی مقامی پولیس نے ایک دفعہ اسلحہ موٹر سائیکلز اسلحہ اور کمپیوٹرز بھی انہی لوگوں کے ایک گروہ سے
برآمد کیے ابھی یہ کہانیاں زیر گردش ہی تھیں کہ انڈین لڑکی کی چوک اعظم آمد کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور پھر معلوم ہوا کہ انڈیا سے آنے والی لڑکی کوئی غیر معمولی عورت نہیں بلکہ باشعور تعلیم یافتہ لیڈی ڈاکٹر ہے جو کہ کئی خداد داد صلاحیتوں کی مالک ہے انڈین لیڈی ڈاکٹر نے منشاء نامی نوجوان قبول اسلام کے بعد شادی کی اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں میاں بیوی نے ڈی پی او لیہ غازی صلاح الدین کے سامنے پیش ہوئے منشاء پہلے ہی شادی شدہ تھا معاملات ابتداء میں تو خوش اسلوبی سے چلتے رہے معمولی مزاحمت کے بعد منشاء اووڈ کے خاندان نے نئی دلہن کو قبول کر لیا مگر بعد آزاں حساس اداروں کی آئے روز تفتیش اور پڑھی لکھی خاتون کے نخروں سے سسرالی خاندان عاجز آگیا
آئے روز بگڑتے سدھرتے انڈین اور پاکستانی حکومت کے حالات سے ڈر اور عشق کابھوت سر سے اترنے کے بعد منشاء نے اپنا وطن دھرم چھوڑ کے آنے والی خاتون کو طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا
انڈیا کے شہر بولنگر اڑیسہ سے آنے والی پریتما شاء دختر لکشمن شاء جس کے بارے زیر گردش کہانی یہ ہے کہ اس کے والدین بچپن میں وفات پا گئے تھے اور اس نے ایک ٹرسٹی ادارے میں زندگی کا بیشتر حصہ گزارا یہ ایک حقیقت ہے کہ بچپن میں یتیم ہونے والے لوگ اکثر زمانے کے دکھ درد باتیں سہہ کر سخت دل سخت جان ہوتے ہیں رشتوں کی نزاکت کا ان میں احساس ان میں قدرے کم ہوتا ہے پریتما شاء دختر لکشمن شاء کی ابتدائی زندگی کے بارے حاصل معلومات سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ با حوصلہ خاتون ہے اس نے یتیمی کے بعد احساس کمتری میں مبتلا ہونے کے بر عکس تعلیم حاصل کر کے معاشرے میں باوقار انداز میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا یہی وجہ ہے کہ ایک ٹرسٹی ادارے میں بھی رہتے ہوئے اس نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اس کے علاوہ اسے کئی خواتین کے متعلقہ ہنر پر عبور کی کہانیاں بھی زبان زد عام ہیں
پریتما شاء دختر لکشمن شاء جب انٹر نیٹ پر محبت میں گرفتار ہونے کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان دو سال قبل آئی تو اس نے اسلام قبول کیا اور اس کا اسلامی نام مریم رکھا گیا ضلع لیہ کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا اس لئے اس واقعہ کو خوب پذیرائی ملی
محمد منشاء راجپوت سے شادی کے بعد مریم بی بی نو مسلم خاتون کے مطابق انڈین گورنمنٹ اس پر اعتبار نہیں کرتی ویزے کی معیاد جب ختم ہوتی ہے تو واپس انڈیا جاتی ہے تواسے سرکاری تحویل میں رکھ کر ویزے کی مدت بڑھا کر واپس پاکستان بھیج دیا جاتا ہے جبکہ راجھندر کالج گلوبل ہسپتال میں وہ ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کر رہی تھی اسے انڈین سرکار نے الزامات لگا کر بند کر دیا ہے
مریم اپنے آبائی وطن گئی تھی کہ اسے محمد منشاء نے مقامی یونین کونسل کے ذریعے طلاق کے نوٹس بھجوادیے مریم واپس آئی تو سسرالی خاندان نے اسے طلاق کے کاغذات دیے اور گھر سے نکال دیا یہاں سے ایک درد ناک افسوسناک کہانی کی ابتداء ہوتی ہے جس کی جتنی مزمت کی جائے کم ہے اپنا وطن ۔۔۔۔ اپنا دین ۔۔۔۔۔ چھوڑ کر آنے والی بنت حوا بے آسرا ہو کر جسے اپنے قبول کرنے کو تیار نہیں ۔۔۔۔پرائے اس کے ہو کر پرائے ہوگے ۔۔۔۔۔ رات کے کسی پہر چوک اعظم لیہ روڈ بس اڈے پر آئی ۔۔۔ تو تماشا بر پا ہو گیا ۔۔۔ آخر کار چوکیدار نے اسے کسی ریاستی ادارے کو اطلاع دیے بغیر اپنے قریبی رشتے داروں کے گھر پہنچا دیا ۔۔۔۔ صبح محلے کی خواتین اور بچوں میں دن گزارتے ہوئے مریم بی بی نے کہا کہ میرے پاس رقم زیور ہے مجھے مکان لیکر دو میں ادھر ہی رہنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ اتنے میں ایک مقامی صحافی کو محلے داروں نے بلایا مریم بی بی کو وہ اپنے گھر لے گیا ۔۔۔۔ دو دن بعد مقامی پولیس کو اس بات کی خبر ہوئی تو وہ متحرک ہوئی ۔۔۔ مریم کو دارلامان میں چند دنوں کے لئے بھیج دیا گیا ۔۔۔ مریم کا مستقبل کیا ہو گا ؟؟ اس کی آمد کا مقامی پولیس کو علم کیوں نہ ہوا؟؟؟؟ وہ عشق میں گرفتار ہو کر آئی یا لاٹری کے ذریعے لوٹنے والے گروہ کا پتہ لگانے؟؟؟ جس رات وہ رکشہ ڈرائیوروں اور رہڑی بانوں سے رات گزارنے کے لئے کمرے کا پوچھ رہی تھی اگر کسی کریمینل شخص کے ہاتھ چڑھ جاتی تو کیا ہوتا؟؟؟
مریم نے وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف سے پاکستانی شہریت کی اپیل یہ کہتے ہوئے کر دی ہے کہ وہ اپنا دین وطن چھوڑ کر یہاں آئی ہے اس کی مدد کی جائے
مریم بی بی(پریتما شاء دختر لکشمن شاء )کے معاملہ نے ضلع لیہ میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے قبل ازیں پٹھانکوٹ واقع کا معاملہ سمیت متعدد معاملات حل نہیں ہوئے مریم بی بی(پریتما شاء دختر لکشمن شاء )کے معاملہ کو حکومتی ادارے حساسیت سے چیک کریں تاکہ عوامی پریشانی ختم ہو
آئے روز بگڑتے سدھرتے انڈین اور پاکستانی حکومت کے حالات سے ڈر اور عشق کابھوت سر سے اترنے کے بعد منشاء نے اپنا وطن دھرم چھوڑ کے آنے والی خاتون کو طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا
انڈیا کے شہر بولنگر اڑیسہ سے آنے والی پریتما شاء دختر لکشمن شاء جس کے بارے زیر گردش کہانی یہ ہے کہ اس کے والدین بچپن میں وفات پا گئے تھے اور اس نے ایک ٹرسٹی ادارے میں زندگی کا بیشتر حصہ گزارا یہ ایک حقیقت ہے کہ بچپن میں یتیم ہونے والے لوگ اکثر زمانے کے دکھ درد باتیں سہہ کر سخت دل سخت جان ہوتے ہیں رشتوں کی نزاکت کا ان میں احساس ان میں قدرے کم ہوتا ہے پریتما شاء دختر لکشمن شاء کی ابتدائی زندگی کے بارے حاصل معلومات سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ با حوصلہ خاتون ہے اس نے یتیمی کے بعد احساس کمتری میں مبتلا ہونے کے بر عکس تعلیم حاصل کر کے معاشرے میں باوقار انداز میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا یہی وجہ ہے کہ ایک ٹرسٹی ادارے میں بھی رہتے ہوئے اس نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اس کے علاوہ اسے کئی خواتین کے متعلقہ ہنر پر عبور کی کہانیاں بھی زبان زد عام ہیں
پریتما شاء دختر لکشمن شاء جب انٹر نیٹ پر محبت میں گرفتار ہونے کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان دو سال قبل آئی تو اس نے اسلام قبول کیا اور اس کا اسلامی نام مریم رکھا گیا ضلع لیہ کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا اس لئے اس واقعہ کو خوب پذیرائی ملی
محمد منشاء راجپوت سے شادی کے بعد مریم بی بی نو مسلم خاتون کے مطابق انڈین گورنمنٹ اس پر اعتبار نہیں کرتی ویزے کی معیاد جب ختم ہوتی ہے تو واپس انڈیا جاتی ہے تواسے سرکاری تحویل میں رکھ کر ویزے کی مدت بڑھا کر واپس پاکستان بھیج دیا جاتا ہے جبکہ راجھندر کالج گلوبل ہسپتال میں وہ ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کر رہی تھی اسے انڈین سرکار نے الزامات لگا کر بند کر دیا ہے
مریم اپنے آبائی وطن گئی تھی کہ اسے محمد منشاء نے مقامی یونین کونسل کے ذریعے طلاق کے نوٹس بھجوادیے مریم واپس آئی تو سسرالی خاندان نے اسے طلاق کے کاغذات دیے اور گھر سے نکال دیا یہاں سے ایک درد ناک افسوسناک کہانی کی ابتداء ہوتی ہے جس کی جتنی مزمت کی جائے کم ہے اپنا وطن ۔۔۔۔ اپنا دین ۔۔۔۔۔ چھوڑ کر آنے والی بنت حوا بے آسرا ہو کر جسے اپنے قبول کرنے کو تیار نہیں ۔۔۔۔پرائے اس کے ہو کر پرائے ہوگے ۔۔۔۔۔ رات کے کسی پہر چوک اعظم لیہ روڈ بس اڈے پر آئی ۔۔۔ تو تماشا بر پا ہو گیا ۔۔۔ آخر کار چوکیدار نے اسے کسی ریاستی ادارے کو اطلاع دیے بغیر اپنے قریبی رشتے داروں کے گھر پہنچا دیا ۔۔۔۔ صبح محلے کی خواتین اور بچوں میں دن گزارتے ہوئے مریم بی بی نے کہا کہ میرے پاس رقم زیور ہے مجھے مکان لیکر دو میں ادھر ہی رہنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ اتنے میں ایک مقامی صحافی کو محلے داروں نے بلایا مریم بی بی کو وہ اپنے گھر لے گیا ۔۔۔۔ دو دن بعد مقامی پولیس کو اس بات کی خبر ہوئی تو وہ متحرک ہوئی ۔۔۔ مریم کو دارلامان میں چند دنوں کے لئے بھیج دیا گیا ۔۔۔ مریم کا مستقبل کیا ہو گا ؟؟ اس کی آمد کا مقامی پولیس کو علم کیوں نہ ہوا؟؟؟؟ وہ عشق میں گرفتار ہو کر آئی یا لاٹری کے ذریعے لوٹنے والے گروہ کا پتہ لگانے؟؟؟ جس رات وہ رکشہ ڈرائیوروں اور رہڑی بانوں سے رات گزارنے کے لئے کمرے کا پوچھ رہی تھی اگر کسی کریمینل شخص کے ہاتھ چڑھ جاتی تو کیا ہوتا؟؟؟
مریم نے وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف سے پاکستانی شہریت کی اپیل یہ کہتے ہوئے کر دی ہے کہ وہ اپنا دین وطن چھوڑ کر یہاں آئی ہے اس کی مدد کی جائے
مریم بی بی(پریتما شاء دختر لکشمن شاء )کے معاملہ نے ضلع لیہ میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے قبل ازیں پٹھانکوٹ واقع کا معاملہ سمیت متعدد معاملات حل نہیں ہوئے مریم بی بی(پریتما شاء دختر لکشمن شاء )کے معاملہ کو حکومتی ادارے حساسیت سے چیک کریں تاکہ عوامی پریشانی ختم ہو
تحریر ۔۔۔ محمد عمر شاکر