غیرت کا قتل
عفت بھٹی
مجھے لفظ غیرت کی آج تک سمجھ نہیں آئی ۔اس لفظ کا نام معاشرہ بہت عزت سے لیتا ہے۔ یہ لفظ ایک ایسا ہتھیار ہے جس کا نام لے کر آپ جو چاہو کر ڈالو حتی کہ کسی کی جان بھی لے لو تو دنیا آپ کو داد و تحسین سے نوازے گی ۔اور آپ ایک قاتل ہوتے ہوئے بھی اپنا شملہ بلند کر کے گردن اکڑا کے چل سکو گے۔جب بھی ایسا کوئی واقعہ میری نظر سے گذرا مجھے قرون اولی کا زمانہ جاہلیت یاد آیا جب قتل و غارت عام تھی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ زمین میں گاڑ دیا جاتا تھا۔۔اب بھی وہی دور ذرا تخصیص کے ساتھ لوٹ رہا ۔۔ہم روزبروز دنیاوی ترقی تو کر رہے مگر ذہنی پسماندگی میں چار ہاتھ آگے بڑھتے جا رہے ہیں ۔پاکستان میں غیرت کے نام پہ قتل کے واقعات اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں جو کہ اب معمول کا حصہ بنتے جا رہے۔ایسا ہی واقعہ گذشتہ دنوں کوہاٹ میں پیش آیا۔
حنا شاہنواز جو اب منوں مٹی تلے ابدی نیند سو رہی ہے کچھ دن پہلے ایک زندہ جیتی جاگتی لڑکی تھی۔مگر لفظ غیرت نے اس کی زندگی چھین لی ۔دنیا بھی عجیب چیز ہے شخصی آزادی کے نعرے بلند کر کے خود کو آزاد بھی کہتی ہے اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے سے پہلو دہی بھی نہیں کرتی ۔زن ۔زر اور زمیں ابتدائے آفرنیش سے فساد کی جڑ رہی ہے حنا شاہنواز بھی اسی کا شکار ہوئی۔وہ ستائیس سالہ ایک تعلیم یافتہ لڑکی تھی ۔دو بہنیں اور ایک بھائی ۔والد کا اپنا کارو بار تھا ۔کچھ عرصہ قبل وہ کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہو کر چل بسے۔والد کے جانے کی دیر تھی کہ والدہ نے بھی اپنے ہمسفر کے پیچھے اپنا رخت سفر باندھ لیا ۔والدین کس طرح اولاد کے سر کا سایہ ہوتے اس بات کا احساس اب ان لاوارث بچوں کو ہورہا تھا۔خدا کی کرنی یہ ہوئی کہ گاؤں کے جھگڑے میں حنا کے بھائی کو بھی قتل کر دیا گیا ۔یہ سانحہ معمولی حادثہ نہ تھا سارے گھر کا شیرازہ بکھر چکا تھا کمانے والا کوئی نہ رہا ۔حنا کے نازک کندھوں پہ بیوہ بھابھی اس کے دو بچوں کے ساتھ چھوٹی بہن کی ذمہ داری بھی تھی۔عورت خوشی سے کبھی بھی گھر سے نکلنا نہیں چاہتی مگر حالات اور بھوک ایسی چیزیں ہیں جو اچھے اچھوں کو مجبور کر دیتی ہیں ۔سو حنا نے بھی نوکری کی تلاش میں ہاتھ پاؤں مارے ایک ngo میں اسے جاب مل گئی۔بھوکوں کو دو نہ اور پیٹ بھرے کو سہو نہ والی مثال حنا کے رشتہ داروں پہ صادق آئی۔اصل تکلیف تب شروع ہوئی جب حنا نے اپنی جائیداد کے حصول کے لیے آواز بلند کی تو اس کی نوکری سے خائف چچا اور چچا ذاد کے دل میں حسد اور لالچ کی آگ بھڑک اٹھی اور ان کی نام نہاد غیرت جاگ اٹھی جو اسوقت سو رہی تھی جب حنا اور اس کے گھر والے بھوکوں مر رہے تھے۔سو مفاد اور لالچ کی غیرت نے ایسا غلبہ پایا کہ انسانیت ختم ہوگئ ۔اور دن دیہاڑے اس کے چچا ذاد نے اسے نوکری سے واپس گھر جاتے ہوئے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔اور خود فرار ہوگیا۔
انسانی المیہ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔جانے والی چلی گئی اس کے پسماندگان پہ کیا بیتی اس کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ایک حنا شاہنواز کیا جانے روز کتنی حنائیں اس نام نہاد غیرت کی بھینٹ چڑھتی ہیں ۔نہ آسمان گرتا ہے نہ زمین شق ہوتی ہے ۔مجرم دندناتے پھرتے ہیں پکڑے بھی جائیں تو چھوٹ جاتے ہیں کیونکہ ظلم کی رسی دراز اور قانون اندھا ۔گونگا اور بہرا ہے۔لفظ غیرت جس میں ذرا بھی غیرت نہیں معاشرے کے ٹھیکیداروں کے منہ پہ طمانچہ ہے۔جانے معاشرہ کہاں جا رہا جو حق کا ساتھ دینے سے گریزاں اور مجرم کی ہلاشیری کرتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں مگر بعض معاملات میں ہم شیطان کی پیروی کرتے ہیں اور اس کے دیے گئے اسباق کے شاگرد ہیں ۔معاشرہ میں انصاف کا حصول ناپید ہوتا جارہا ۔جائیداد کے لیے قتل ایک عمومی بات ہو کر رہ گئی ہے جبکہ اسلام نے جائیداد کی تقسیم کا جو اعلی پیمانہ مقرر کیا ہے اس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی ۔ہم اس قسم کے واقعات روز سنتے اور کان دبا کر کھسک لیتے کہ ہمیں کیا۔جب تک قانون مجرم کو قرار واقعی سزا نہیں دے گا اور بارسوخ افراد کی پشت پناہی ترک نہیں کرے گا یونہی کئی حنائیں قتل ہوتی رہیں گی۔۔
سچ تو یہ ہے کہ بے گناہ حنا کا غیرت کے نام پر قتل در اصل غیرت کا قتل ہے