چشمِ نم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عفت
زندگی اور موت انسان کے ساتھ ساتھ ازل سے قدم بہ قدم چلتی آ رہی ہے ۔کوئی اس دنیا سے اپنا سفر پورا کر کے جاتا تو اس دنیا میں آنے والا اپنا سفر شروع کرتا ہے ۔انسان حوادثِ زمانہ سے برسرِ پیکار ہے اس جنگ میں کبھی اسے جیت ہوتی تو کبھی مات۔خیر و شر کی یہ لڑائی ازمنہ کا قدیم دستور ہے ۔آدم کی اولاد میں تفرق کی بنیاد حسد بنی اور اس حسد نے وہ کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ انسانیت
زندگی اور موت انسان کے ساتھ ساتھ ازل سے قدم بہ قدم چلتی آ رہی ہے ۔کوئی اس دنیا سے اپنا سفر پورا کر کے جاتا تو اس دنیا میں آنے والا اپنا سفر شروع کرتا ہے ۔انسان حوادثِ زمانہ سے برسرِ پیکار ہے اس جنگ میں کبھی اسے جیت ہوتی تو کبھی مات۔خیر و شر کی یہ لڑائی ازمنہ کا قدیم دستور ہے ۔آدم کی اولاد میں تفرق کی بنیاد حسد بنی اور اس حسد نے وہ کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ انسانیت
ششدر و حیراں رہ گئی اور اسے اپنا منہ چھپانے کے لیے کہیں جگہ نہ ملی ۔انسان نے جب اپنے اغراض و مقاصد کے لیے سفاکی کا لبادہ اوڑھا ننگِ انسانیت ہو گیا ۔ایسی ہی صورتحال موجودہ دور میں بھی آن پہنچی ۔کوئی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں ہر طرف قیامت خیز خبریں ۔عصرِحاضر کی نفسا نفسی۔اخلاقی کردار کی گراوٹ اور مذہب سے دوری اس کا سب سے بڑا سبب ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے مگر اب انسان صرف حیوان بننے پہ تلا ہے ۔لالچ ۔طمع،حرص،بغض ،ہوس،مفاد پرستی یہ سب ایسی بیماریاں ہیں جن کے جراثیم آج کے منافقانہ دور میں پھل پھول رہے ہیں ۔اور ہم ان جراثیموں کی آبیاری میں مصروف ہیں ۔لیہ ایک ترقی یافتہ ضلع ہے جس کی آبادی لگ بھگ پندرہ لاکھ ہے گذشتہ دس دن سے یہ ضلع قیامتِ صغری کا شکار ہے اور نقارہِ اجل ہے کہ سر پہ کھڑا ہے ،تقدیر تدبیر پہ حاوی ہے اور ہے تدبیر رائیگاں جا رہی ہے ۔یہ حادثہ تھانہ فتح پور کے چک نمبر۱۰۵ ایم ایل اور اس کے اردگرد کے چکوک میں رونما ہوا جہاں جہاں ایک خوشی کا موقع الم میں بدل گیا ۔حلوائی کی لاپرواہی جس نے مٹھائی بناتے وقت غلطی سے اس میں زرعی دوائی سلفونائل ۔بیکنگ پاؤڈر کی جگہ ڈال دی اور فوری علم ہونے کے باوجود اپنی مٹھائی کے نقصان کے ڈر سے وہی مٹھائی فروخت کر دی اور اس زہر نے ۳۰ افراد کی جان لے لی اور درجنوں زیرِ علاج ہیں ۔اس پہ افسوس ناک بات کہ اسپتال کے عملے کی نا اہلی کہ مناسب اور فوری ٹریٹمنٹ نہ دینے کے سبب مریضوں کی حالت اور بگڑ گئی،ملتان ریفر کیے جانے پہ نشتر ہسپتال کے عملے کا ناروا سلوک مرے کو سو درے کے مترادف ہوا اور کئی جانیں لقمہ اجل کا شکار ہوگئیں ۔اس پہ حکمرانوں کی بے حسی جنہیں خبر ہی نہیں کے ملک میں کیا ہو رہا کیونکہ سب اپنی اپنی ڈفلی پہ اپنا اپنا راگ گانے میں مصروف ہیں ۔
نجانے ہم کب بیدار ہوں گے ؟؟
اس واقعے کے اثرات ابھی ختم بھی نہ ہونے پائے تھے کہ اور بھی اس طرح کی مصدقہ اطلاعات موصول ہونی شروع ہو گئیں ،شادی میں چاول کھانے سے متعدد افراد کی حالت خراب۔اور آج پھر لاہور میں ملٹی نیشنل کمپنی سے جعلی ادویات پکڑی گئیں۔فیصل آباد میں دکان کے افتتاح کے موقعے پہ دودھ سوڈا تقسیم کیا گیا اور اس کو پینے سے ۱۰۰ افراد ہسپتال پہنچ گئے ان میں سے کئی کی حالت تشویش ناک ہے ، اب کیا وہ دودھ بھی زہریلا تھا ۔یا حیرت کہ کیا یہ سب واقعات انسان کی ذہنی گراوٹ کا پتہ نہیں دیتے آخر اس قسم کے پے در پے واقعات کس حقیقت کو جنم دے رہے میرے ذاتی خیال کے مطابق یہ بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتے ،اب ہر صاحبِ ہوش مارکیٹ کی تیار کردہ اشیاء کے استعمال میں جھجک محسوس کرے گا کہ جانے اس میں کیا ملا ہو ۔اس صورتحال سے ان محنت کش طبقے کو بھی نقصان ہو گا جن کا یہ روز گار ہے گویا جس کا جان گئی اس کا اعتماد گیا ۔
گذشتہ رات پی۔ٹی آئی کا جلسہ ہوا اور حسبِ سابق پہلے عوام کو نغموں سے انٹرٹین کیا گیا ،نوجوانوں نے خوب بھنگڑے ڈالے۔اور قوم کی بیٹیوں نے بڑے جوش و خروش سے سیلفیاں بناتے ہوئے ۔عمران خان دے جلسے وچ نچنے نوں جی کردا پے عملی مظاہرہ کیا ،در حقیقت بات کچھ اور ہے پہلی بار جب عمران خان ایک نیا پاکستان بنانے نکلے تو دکھوں کی ماری عوام نے انہیں اپنا مسیحا سمجھتے ہوئے ان کا ساتھ دیا اور جب تبدیلی کا نعرہ لگانے والے اپنا گھر بسانے والی تبدیلی لے آئے اور عوام منہ تکتی رہ گئی ۔اب تب پالستان ایک سیاسی اکھاڑہ بنا ہوا تھا اور دیکھا دیکھی علامہ صاحب بھی اس میدان میں کھڑے تھے سب وعدے وعید ہوا ہو گئے۔خان صاحب بیگم لے کر اپنے گھر سدھارے اور علامہ صاحب بھی انجوائے کر کے واپس روانہ ہوئے ۔رہی سدا کی جھلی عوام تو وہ بھی اپنا سا منہ لے کر گھر لوٹ آئی۔لیکن ایک تبدیلی ضرور آئی کہ اب عوام ان جلسے جلوسوں میں اپنا ٹائم پاس کرنے اور میوزک کنسرٹ سمجھ کے جاتی ہے چلو ایک شام ہی اچھی کٹ جائے رہے مسائل تو کیا کیا جائے ۔ زندگی کیا ہے ؟ غم کا دریا ہے ،
بس حق بات تو یہ ہے کہ عوام ہی عوام کا دارو ہے ھمیں خود آپس میں ہی ایک دوسرے کی مدد کرنی ہو گی جب تک ہم خود اپنی حالت نہیں بدلیں گے کوئی سیاستدان ۔کوئی حکمران ہماری حالت نہیں بدل سکتا ایسا ہوتنا تو اب تک بہت کچھ بدل چکا ہوتا مگر پوت کے پاؤں پالنے میں ہی دکھائی دی جاتے ہیں ۔پاکستان بنانا کوئی دیوانے کی بڑ نہیں ۔جو سب بنا لیں نہ ا کے پاس صداقت نہ دیانت نہ شجاعت اور نہ امانت ۔لہذا بہتری اسی میں ہے کہ اس نعمتِ خداوندی کی قدر کریں اور اسے سنواریں ۔کیونکہ میٹھے تھے جن کے پھل وہ شجر کٹ کٹا گئے۔۔۔ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں وہ دیوار گر گئی ،
نجانے ہم کب بیدار ہوں گے ؟؟
اس واقعے کے اثرات ابھی ختم بھی نہ ہونے پائے تھے کہ اور بھی اس طرح کی مصدقہ اطلاعات موصول ہونی شروع ہو گئیں ،شادی میں چاول کھانے سے متعدد افراد کی حالت خراب۔اور آج پھر لاہور میں ملٹی نیشنل کمپنی سے جعلی ادویات پکڑی گئیں۔فیصل آباد میں دکان کے افتتاح کے موقعے پہ دودھ سوڈا تقسیم کیا گیا اور اس کو پینے سے ۱۰۰ افراد ہسپتال پہنچ گئے ان میں سے کئی کی حالت تشویش ناک ہے ، اب کیا وہ دودھ بھی زہریلا تھا ۔یا حیرت کہ کیا یہ سب واقعات انسان کی ذہنی گراوٹ کا پتہ نہیں دیتے آخر اس قسم کے پے در پے واقعات کس حقیقت کو جنم دے رہے میرے ذاتی خیال کے مطابق یہ بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتے ،اب ہر صاحبِ ہوش مارکیٹ کی تیار کردہ اشیاء کے استعمال میں جھجک محسوس کرے گا کہ جانے اس میں کیا ملا ہو ۔اس صورتحال سے ان محنت کش طبقے کو بھی نقصان ہو گا جن کا یہ روز گار ہے گویا جس کا جان گئی اس کا اعتماد گیا ۔
گذشتہ رات پی۔ٹی آئی کا جلسہ ہوا اور حسبِ سابق پہلے عوام کو نغموں سے انٹرٹین کیا گیا ،نوجوانوں نے خوب بھنگڑے ڈالے۔اور قوم کی بیٹیوں نے بڑے جوش و خروش سے سیلفیاں بناتے ہوئے ۔عمران خان دے جلسے وچ نچنے نوں جی کردا پے عملی مظاہرہ کیا ،در حقیقت بات کچھ اور ہے پہلی بار جب عمران خان ایک نیا پاکستان بنانے نکلے تو دکھوں کی ماری عوام نے انہیں اپنا مسیحا سمجھتے ہوئے ان کا ساتھ دیا اور جب تبدیلی کا نعرہ لگانے والے اپنا گھر بسانے والی تبدیلی لے آئے اور عوام منہ تکتی رہ گئی ۔اب تب پالستان ایک سیاسی اکھاڑہ بنا ہوا تھا اور دیکھا دیکھی علامہ صاحب بھی اس میدان میں کھڑے تھے سب وعدے وعید ہوا ہو گئے۔خان صاحب بیگم لے کر اپنے گھر سدھارے اور علامہ صاحب بھی انجوائے کر کے واپس روانہ ہوئے ۔رہی سدا کی جھلی عوام تو وہ بھی اپنا سا منہ لے کر گھر لوٹ آئی۔لیکن ایک تبدیلی ضرور آئی کہ اب عوام ان جلسے جلوسوں میں اپنا ٹائم پاس کرنے اور میوزک کنسرٹ سمجھ کے جاتی ہے چلو ایک شام ہی اچھی کٹ جائے رہے مسائل تو کیا کیا جائے ۔ زندگی کیا ہے ؟ غم کا دریا ہے ،
بس حق بات تو یہ ہے کہ عوام ہی عوام کا دارو ہے ھمیں خود آپس میں ہی ایک دوسرے کی مدد کرنی ہو گی جب تک ہم خود اپنی حالت نہیں بدلیں گے کوئی سیاستدان ۔کوئی حکمران ہماری حالت نہیں بدل سکتا ایسا ہوتنا تو اب تک بہت کچھ بدل چکا ہوتا مگر پوت کے پاؤں پالنے میں ہی دکھائی دی جاتے ہیں ۔پاکستان بنانا کوئی دیوانے کی بڑ نہیں ۔جو سب بنا لیں نہ ا کے پاس صداقت نہ دیانت نہ شجاعت اور نہ امانت ۔لہذا بہتری اسی میں ہے کہ اس نعمتِ خداوندی کی قدر کریں اور اسے سنواریں ۔کیونکہ میٹھے تھے جن کے پھل وہ شجر کٹ کٹا گئے۔۔۔ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں وہ دیوار گر گئی ،