بدھے چور تے ہر کوئی ڈاہڈا ہوندے
خضرکلاسرا
معروف صحافی ارشد شریف کے پروگرام” پاور پلے” میں پیپلزپارٹی کے لیڈر آصف علی زرداری پوری طاقت کیساتھ نوازشریف پر حملہ آور تھے اور کوئی جملہ ایسا نہیں تھا جو نوازشریف پر طنز کی صورت میں نہ برسارہے ہوں ۔نوازشریف کو سیکورٹی رسک قراردیا۔ بھارت کیساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کا الزام بھی لگارہے تھے ا ۔ دلچسپ صورتحال یوں تھی کہ ارشدشریف ان کو میٹھے اور حقائق پر مبنی سوالوں کیساتھ موصوف کو خوابوں کی دنیا سے نکال کر حقیقی دنیا کی طرف لانے کی بھرپور کوشش کررہے تو راقم الحروف کو سرائیکی کا یہ محاور ہ شدت سے یاد آرہاتھا کہ” بدھے چور تے ہر کوئی ڈاہڈا ہوندے”مطلب جب چور پکڑا جاتاہے تو پھر ھر کوئی اس پر چڑھ دوڑتاہے اور اپنی بہادری کے جوھر دکھاتاہے ۔ لیکن عا م حالات میں یہی بہادری کی تاریخ رقم کرنیوالے اداکار اپنے علاوہ دوسروں کو بھی شہر کے چوکوں ،چوراہوں پر بغیر تنخواہ کے سمجھاتے پھرتے ہیں کہ ایسے چور،اچکے اور بدمعا ش سے دور رہیں تو بہترہے۔ایسے خواہ مخواہ منہ لگنے کا کیافائدہ ہے ؟ اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔نوازشریف وزیراعظم تھے تو زرداری صاحب بمع پارٹی تابعدار تھے۔ نوازشریف حکومت کو مکمل سہولت پیکج فراہم کرنے کیلئے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ نوازحکومت کی طرف سے کوئی شکایت نہ ملے کہ شاہ صاحب عوام کی خاطر ایوان میں حقیقی اپوزیشن لیڈر بننے کی کوشش کرر ہے ہیں اور شاہ صاحب نے پہلی بار کہے کو ہی کافی سمجھااور پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا ،وہ کیا جوکہ لیگی قیادت سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ خورشید شاہ کو اس بات کی بھی داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے پورے چار سال کی مدت میں اپنی انا کو بالائے طاق رکھ کر لیگی قیادت کو وہ سروس دی ہے کہ رہے نام اللہ کا۔حد تو یہ تھی کہ کورم پورا کروانا جو کہ حکومت کاکام ہوتاہے لیکن شاہ صاحب نے اس کیلئے بھی اپنی خدمات پیش کردیں ۔شاہ صاحب اسمبلی میں حکمران جماعت کیلئے وہ کرگزرے کہ پریس گیلری میں موجود صحافیوں کو بھی شاہ صاحب کی معصو م ادادؤں پر داد دینی پڑگئی ۔خورشید شاہ کی مسلسل نوازشریف کیلئے بلامعاوضہ ہمدردیوں کو دیکھ کر وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب سمیت دیگر وزراء اور ارکان بھی وہم میں پڑ گئے کہ یااللہ آخر ماجرا کیاہے کہ خورشید ہمارے سوچنے سے پہلے ہی ہمیں درپیش ایشوزکو حل کرنے کیلئے ایوان میں موجود ہوتے ہیں۔شاید یہی وجہ تھی کہ ایک دن خواجہ آصف نے فلور آف دی ہاوس خورشد شاہ کو رنگ باز اپوزیشن لیڈرقراردیاتاکہ کہیں تو شاہ صاحب حکومت کی تابعداری سے فاصلہ کریں لیکن شاہ صاحب تھے کہ انہوں نے رنگ باز جیسے تذلیل بھرے لفظ کو بھی خلوص کیساتھ پی لیا ۔اسپیکر قومی اسمبلی ایازصادق جوکہ بحیثت اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی خدمات کے عینی شاہد ہیں ،انہوں نے خواجہ آصف کی طرف سے شاہ صاحب کیلئے کہے گئے الفاظ رنگ باز اپوزیشن لیڈر کو حذف کرنے کا اشارہ دیاتو لیگی لیڈر خواجہ آصف بھڑک پڑے کہ جناب اسپیکر آپ ان الفاظ کو حذف نہیں کریں گے ،ایاز صادق تھوڑی دیر تو اپنی بات پر ڈتے رہے لیکن اسپیکر کو اس وقت خاموش ہوناپڑا جب خواجہ آصف نے تلخ لہجہ کے ساتھ انہیں مجبور کردیاکہ وہ بحیثت اسپیکر اختیار ہونے کے باوجود بھی ایسانہیں کریں گے ۔
پروگرام میں آصف علی زرداری نے نوازشریف پر سنگین الزامات لگائے ،مثال کے طورپر ان کا تکرار تھاکہ نوازشریف سیکورٹی رسک ہیں اوران کے چیرمین بلاول بھٹو نے نعرہ لگایاتھاکہ مودی کا جو یارہے غدار ہے ،غدارہے۔ان کا کہناتھاکہ نوازشریف گریٹر پنجاب بناناچاہتے ہیں ۔ارشد کی طرف سے اس الزام پر حیرت کا اظہار کیاگیاتو موصوف نے دوبارہ اپنی بات دھرا ئی کہ نوازشریف گریٹر پنجاب بناناچاہتے ہیں اور ان کا گریٹر پنجا ب میں ان کا مال بکتاہے ۔زرداری کا کہنا تھاکہ میری تعریف بھارت سے آئے تو اچھی بات نہیں ہوگی ،نوازشریف صاحب کی تو آرہی ہے۔نوازشریف پر بھارت نوازی الزام نہیں لگارہاہے،یقین ہے۔ملک چلانے اور بزنس چلانے میں بڑا فرق ہوتاہے۔2013 ء کے الیکشن کے بارمیں سوال پر آصف زرداری کا کہناتھا کہ وہ آراو الیکشن تھے ۔ادھرارشدکی طرف سے سوال اٹھایاگیاکہ پھر آپ نے نتائج کو تسلیم کیوں کیا ؟ تو وہی پرانی واردات تھی کہ ہم نے نظام کو چلاناتھا۔ساتھ ہی کہاکہ نوازشریف کبھی الیکشن نہیں جیتاہے بلکہ اس کو ہمیشہ لایاجاتاہے۔ہمارے مخالفین کو کرسی نہ ملے تو ان کے رنگ پیلے ہوجاتے ہیں ۔۔نوازشریف کا پاکستان میں دس ارب ڈالرکا بزنس پورٹ فولیو ہے۔ یہ سودگران پنجاب ہیں۔آصف علی زرداری نے پروگرام میں آئندہ الیکشن میں نتائج کی جوتقسیم کی اس میں تحریک انصاف کو سندھ ،وسطی پنجاب اور خبیر پختواہ سمیت بلوچستان سے مکمل فارغ کردیا اور عمران خان کے ووٹ بنک کو جنوبی پنجاب تک محدود کردیا مطلب پیپلزپارٹی بالخصوص زرداری اپنے کارناموں کی بدولت سرائیکی دھرتی کے ووٹ بنک سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ادھرموصوف نوازشریف کو تو اپنے تئیں نااہلی کے بعد الیکشن کے عمل سے نکال چکے ہیں ۔راقم الحرو ف کیلئے دلچسپ صورتحال یوں تھی کہ نوازشریف بحیثت وزیراعظم جب چارسال تک ملک کا برا حال کررہے تھے ،اداروں کو مفلوج کرنے سے لیکر عوام کی زندگی اجیرن بنارہے تھے ،ملک وزیرخارجہ کے بغیر چل رہاتھا ،حکومت کی طرف سے بیرونی قرضوں لینے کی حدیوں کردی گئی تھی کہ تاریخ میں اتنا قرضہ کبھی پاکستان میں کسی حکومت نے نہیں لیاتھا ۔ادھر عوامی مینڈیٹ کی توہین نوازشریف یوں کررہے تھے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس میں موصوف آنے پر تیار نہیں تھے ۔پاکستان کی خارجہ پالیسی دن بدن یوں کمزور ہورہی تھی کہ نوازشریف نے وزیرخارجہ نہیں بنایاتھا، دوسری طرف دشمن قوتیں پاکستان کودیوار کیساتھ لگانے کیلئے عالمی سطح پر سرگرم تھیں ۔پاکستان میں بگڑتی صورتحال میں عام آدمی کو پریشان کررہی تھی کہ ہ ملک کے حالات دن بدن خراب ہی ہوتے جارہے تھے لیکن نوازشریف تھے کہ میں نہ مانوں کی ضد پر قائم تھے ۔اس پیچیدہ صورت حال میں پیپلزپارٹی کے لیڈرآصف زرداری بمع اپنی پوری پارٹی نوازشریف اورحکومت کی تابعدار ی میں لگے ہوئے تھے ۔نوازحکومت کی اپوزیشن کرنا تو درکنا ر ،پیپلزپارٹی تو چار سال کی جومدت مکمل
ہوئی ہے اس میں بچھی بچھی جارہی تھی ،اور صدقے واری ہورہی تھی ،نوازشریف کو جہاں بھی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مشکل سے دوچار کرتے،پیپلزپارٹی کی پوری لیڈرشپ نوازحکومت کے سامنے حاضر ہوجاتی اور اپنی تابعداری کی نوکری پر حاضر ہوجاتی ۔زرداری نے اسوقت ایک ہی نعرہ مستانہ اپنی زبان پر رکھاجوکہ جمہوریت کے ورد سے شروع ہوتا اور مفاہمت پر ختم ہوتاتھا۔اس سارے کھیل میں بچاری عوام کا دکھ کہیں زرداری کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا۔نوازشریف نے اپنی ذاتی خواہشات کی خاطر ملک کا بھرکس نکال دیااورزرداری اینٹوں کی خریداری کیلئے لندن ،دبئی اور دیگر ملکوں کے بھٹہ مالکان سے بھاؤ تاؤ کرتے رہے ۔موصوف اسوقت تک غائب رہے جب تک ان کویہ اطلاع نہیں ملی کہ اب نوازشریف اپنے ہی جال میں بچوں کو ارب پتی کرتے کرتے پھنس گئے ہیں اور سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد ڈھیر ہوگئے ہیں تو آصف زرداری وہی سرائیکی والامحاورہ کہ بدھے چور تے سارے ڈاہڈھے ہوندے ہن پر عمل کرنے کیلئے پاکستان پہنچے۔اورجمہوریت کیلئے کمر کس لی ۔عوام کو نوازشریف کے کاروبار اور چوربازاری سے آگاہ کرنے کیلئے سارے وسائل بروئے کار لے آئے ۔ساتھہ ہی نااہل وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے کی گئی گریٹر پنجاب کی سازش سے لے کر نوازشریف کی ساری وارداتوں سے پردہ اٹھانے لگے۔زرداری فارمولے میں تو یہ جمہوریت بچاؤ مہم ہے لیکن سمجھدار اس کو واردات کا نام دے رہے ہیں ۔ کیا ہی اچھاہوتاکہ آصف علی زرداری اسی انداز ،جرات اور جذبہ کیساتھ اسوقت قوم کیساتھ کھڑے ہوتے جب نوازشریف بحیثت وزیراعظم ملک وقوم کی توقعات کے بر خلاف کام کررہے تھے ۔اور اینٹوں کی خریداری کے چکرمیں موصوف باھر نہ چلے جاتے اور قوم کا حوصلہ بڑھاتے اور حقیقی معنوں میں اپوزیشن لیڈر کا کردار اداکرتے۔ نوازشریف کو اس حدتک پاکستان کا نقصان کرنے سے عوامی طاقت اور حقیقی اپوزیشن کیساتھ روکتے لیکن ایسا تو موصوف نہیں کرنا ہی تھا کیونکہ مک مکا فارمولہ چل رہاتھا ۔کیاہی اچھاہوتاکہ اب بھی آصف علی زرداری عوام کو بیووقووف بنانے کی سیاست کرنے کی بجائے ذوالفقارعلی بھٹو کی حقیقی سیاست کی طر ف لوٹے جاتے ۔ ہمارے خیال میں ٰ اب تو آصف علی زرداری بڑے ہوجاتے اور بڑے فیصلہ کرنے کی اپنے اندر صلاحیت پیدا کرتے۔دوسرے کے شکار پر سیاست کرنے کی بجائے ا پنے اندر شیر کا شکار کرنے کی صلاحیت پیداکرتے۔