اپنی طرزکی ایک انوکھی تقریب
شاہداقبال شامی
شاہداقبال شامی
میں نے زندگی میں بے شمارعلمی،ادبی،سماجی،سرکاری اور غیر سرکاری تقریبات میں کبھی بطورسامع تو کبھی بطور مقرر اور کبھی مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی مگر ”پاکستان رائیٹرزونگ”کے زیر اہتمام 24مئی کو رضا ہال ملتان میں منعقدہ اپنی طرز کی ایک انوکھی تقریب میں شرکت کا موقع ملا جس کی یاد دل کے گلستان کو بہت دیر تک اپنی منفرد خوش بو سے مہکاتی رہے گی۔یہ کنوینشن اور تقریب تقسیم انعامات پاکستان رائیٹر زونگ کے زیر اہتمام ہونے والے نظم،کہانی اور مضمون نویسی کے مقابلہ جات
کے شرکاء کے اعزازمیں منعقد کیا گیا جس میں اس مقابلہ میں حصہ لینے والیقلمکاروں کے ساتھ ساتھ سینئر اور تجربہ کار قلمکاروں نے بھی پاکستان بھر سے شرکت کی۔
اس یادگار تقریب کے روح رواں پاکستان رائیٹر ونگ کے چیئرمین مرزا محمد یسین بیگ جو ایک منجھے ہوئے کالم نگارہونے کے ساتھ ساتھ شفیق،درددل رکھنے والے اور ملنسار انسان بھی ہیں،نئے لکھنے والوں سے مسلسل رابطہ میں رہتے ہیں اور قدم قدم پر راہنمائی بھی کرتے ہیں،قاری محمد عبداللہ صاحب جو ایک ابھرتے ہوئے نوجوان قلمکار،کمپئیر،مقرر،خوشش الحان قاری ،محبت اور ادب کرنے والے اور ہر فن مولا قسم کے انسان ہیں اور پاکستان رائیٹرز ونگ کے صدر بھی ہیں۔ انہوں نے ملتان آنے کی دعوت دی توانتہائی مجبوری اور کسمپرسی کے باوجود ان کی حکم عدولی نہ کرسکا،دونوں نے سفر سے پہلے اور سفر کے دوران پل پل رابطہ میں رکھا۔
ہم جب رضا ہال ملتان پہنچے تو سب سے پہلے بھائی مرزا یاسین بیگ صاحب اور قاری محمدعبداللہ میگزین ایڈیٹر روزنامہ اعتماد نیوز نے گرمجوشی سے معانقہ کیا ۔حالانکہ یہ ہماری پہلی ملاقات تھی لیکن ان کی محبت اور گرمجوشی سے یوں لگا جیسے ہم صدیوں سے ایک دوسرے کے شناسا ہوں۔کچھ مہمان آچکے تھے باقی مہمانوں کی آمدکا سلسلہ جاری تھا۔میں ہال میں اپنے آپ میں گم بیٹھا تھا کہ دور سے کسی نے مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایاغور کیاتو سدا کا مسکراتا چہرہ حسیب اعجازعاشر کا تھاان سے پل بھر کی ملاقات ہوئی کیونکہ ان کے اور بھی چاہنے والے وہاں آئے ہوئے تھے جن کو انہوں نے فیض بخشنا تھا۔غرض آغاز سے اختتام تک پُرخلوص اور ادب نواز لوگوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ گھر پہنچنے تک رابطہ میں رہے ،گاڑی ملی یا نہیں؟ سیٹ اور برتھ ملی؟کہاں پہنچے؟ جب بھی ان کا فون آتاتو میں شرمندہ ہو جاتا کہ میرے لئے اتنے پریشان ہیں اتنے تو گھر والے اور میں خود بھی نہیں۔
کچھ انتظامی مسائل کی بنا پرپروگرام مقررہ وقت سے کافی تاخیر سے شروع ہوا۔ نقابت ونظامت کے فرائض مرزا یاسین بیگ صاحب اور قاری محمد عبداللہ صاحب نے انجام دیئے۔ سٹیج کو کنوینشن اور تقریب تقسیم انعامات کا خوبصورت پینا فلیکس سے سجایا گیا تھا،اسقبالیہ پرموجود انتہائی خوش مزاج اور متحرک نوجوان آنے والے کو خوش آمدید کہہ رہے تھے اور ان کی رجسٹریشن کر رہے تھے۔
پروگرام کی ترتیب ایسی رکھی گئی تھی کہ کہیں بھی یہ دل کش تقریب کسی تعطل کا شکار نہیں ہوئی جس پر منتظمین کو داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ اس کنوینشن کی ایک اور انوکھی بات یہ تھی کی 120نئے لکھنے والوں میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی۔ اس کنوینشن نے یہ اعتراض بھی ختم کر دیا کیا کہ ادبی محفلوں میں خواتین شرکت نہیں کرتیں۔اس پُروقار یقریب نے یہ بھی باور کروایا کہ ادبی تقاریب اگر صرف خانہ پری ،قیام و طعام اورفوٹوسیشن تک محدود نہ ہو ں اوخواتین کے وقار واحترام کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو خواتین بھی بھرپور شرکت کرتی ہیں۔
یہ پروگرام باقی تما م ادبی اور صحافی تنظیموں کے لیے مشعل راہ بھی ہے،تمام تنظیمیوں اور ان کے منتظمین کو چاہیے کہ اس پروگرام کو مد نظر رکھ کر اپنی پالیسیاں تشکیل دیں،کیونکہ جہاں عورت کو تحفظ مہیا کیا جائے گا تو وہ وہاں پر بھر پور شرکت بھی کریں گی اور بہتر طور پر اپنی صلاحیتوں کا اظہار بھی کر سکیں گی اس کامیابی پر اس پروگرام کی تمام انتظامیہ خاص طور پر پاکستان رائیٹر ونگ کے چیئرمین مرزامحمد یٰسین بیگ اور صدر قاری محمد عبداللہ مبارک باد کے مستحق اور باقی تنظیموں اور ذمہ داران کے لیے امید کی کرن بھی ہیں۔
محفل میں شرکت کرنے والے معروف قلمکار وں کے نام کچھ یوں ہیں: سرپرست و بانی وفائے پاکستان ادبی فورم حاجی لطیف کھوکھر، محمدشعیب مرزا،حافظ محمد مظفرمحسن،عبدالصمد مظفر،سجاد جہانیاں اور ”خودکش بمبار کے تعاقب میں”کے مصنف سید بدر سعیدنمایاں تھے۔ جیسے ہی سامعین میں اکتاہٹ ہونے لگتی تو منتظمین کی طرف سے ان کے جوش کو بڑھانے کے لیے ” ٹیبلو”یا خاکہ پیش کردیا جاتا۔ ،مختلف موضاعات،کشمیر کاز،دہشت گردی کے نقصانات اور پاکستان کے حوالے سے بہت اعلیٰ”ٹیبلو”بچوں نے پیش کئے اور سامعین نے بھی کھل کر داد دی۔
تلاوت حافظہعمارہ احد اور حافظ معاذالرحمن نے بڑے خوبصورت انداز میں کی اور اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے،اتنی کم عمری میں اتنے بڑے مجمع میں اتنے احسن انداز میں تلاوت ان کی ہمت کی منہ بولتی تصویر ہے،نعت کا شرف اسامہ سلطان کو حاصل ہواایک چھوٹی بچی ولیجہ زینب نے حمد پیش کی اور ایک دوسری چھوٹی بچی عروہ اشرف نے انگریزی میں اتنے خوبصورت انداز تقریر کی کہ سامعین عش عش کر اٹھے اور خوب کھل کر داد دی۔
یہ پورے پاکستان کے لکھاریوں کا واحد اور انوکھا پروگرام تھا جس میں جہاں آسمان صحافت کے چمکتے ستارے جو اس وقت اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواکر سینئیر بن چکے ہیں،ان کے زیر سایہ 120سے زائد نئے لکھنے والے بھی موجود تھے ،میں نے اب تک کی زندگی میں کہیں بھی اتنے لکھنے والے ایک چھت کے نیچے نہیں دیکھے،ویسے تو منجھے ہوئے لکھاری کسی کی تعریف تک کرنا گوارہ نہیں کرتے لیکن اس پروگرام میں جہاں نئے لکھنے والوں کی خوب حوصلہ افزائی کی وہیں پر راہنمائی کے لیے بہترین طریقہ کار اور اپنے تجربات بھی بتائے۔
ہال میں ملتان کی روایتیگرمی اپنے جوہردکھارہی تھی،لیکن شرکاء کے حوصلے بھی قابل دید اور قابل داد تھے،
پروگرام کے مہمان خصوصی پاکستانی سیاست میں باغی کے نام سے مشہورفخر جمہوریت جاوید ہاشمی تھے،جنہوں نے اپنے خطاب میں جہاں پاکستان کے دفاع کی بات کی وہیں اتنا خوبصورت پروگرام سجانے والوں اور اس میں شریک ہونے والوں کی بھرپور تعریف بھی کی، محترمہ شاہین شفیق صاحبہ ایم این اے نے بھی اس کامیاب کنوینشن کے انعقاد پر منتظمین کو مبادک باد دی ۔جناب شعیب مرزا،جناب مظفر محسن، جناب اطہر ممتاز ،جناب محمد سجاد جہا نیہ اور محترمہ رضیہ رحمن صاحبہ نے بھی قاری محمد عبداللہ ،مرزا یاسین بیگ اور ان کی ساری ٹیم کی کوشش وکاوش کو سراہا اور کامیاب اور پر وقار تقریب کے انعقاد پر خراج تحسین پیش کیا اور آئندہ بھی اس قسم کے پروگراموں کے انعقاد پر زور دیا۔
اس کے بعد کہانی،مضمون اور نظم کے مقابلوں میں جیتنے والوں میں ایوارڈز،انعامات اور اعزازی اسناد تقسیم کی گئیں۔
تقریب کے تمام مہمانان خصوصی کو بھی یادگاری ایوارڈز سے نوازا گیا۔الحمد للہ میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل تھا جنہیں یادگاری ایوارڈز ملے۔
پروگرام کے آخر میں مرازامحمد یٰسین بیگ،قاری عبداللہ،سید بدرسعید،حسیب اعجازعاشر، محمدالطاف،سرداراختر چوہدری اور رانا اعجازدیگر نامور رائیٹرز کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں اوراس یاد گار تقریب کی حسین یادیں دل میں بسا کر ہم گھر کو لوٹے۔
اس یادگار تقریب کے روح رواں پاکستان رائیٹر ونگ کے چیئرمین مرزا محمد یسین بیگ جو ایک منجھے ہوئے کالم نگارہونے کے ساتھ ساتھ شفیق،درددل رکھنے والے اور ملنسار انسان بھی ہیں،نئے لکھنے والوں سے مسلسل رابطہ میں رہتے ہیں اور قدم قدم پر راہنمائی بھی کرتے ہیں،قاری محمد عبداللہ صاحب جو ایک ابھرتے ہوئے نوجوان قلمکار،کمپئیر،مقرر،خوشش الحان قاری ،محبت اور ادب کرنے والے اور ہر فن مولا قسم کے انسان ہیں اور پاکستان رائیٹرز ونگ کے صدر بھی ہیں۔ انہوں نے ملتان آنے کی دعوت دی توانتہائی مجبوری اور کسمپرسی کے باوجود ان کی حکم عدولی نہ کرسکا،دونوں نے سفر سے پہلے اور سفر کے دوران پل پل رابطہ میں رکھا۔
ہم جب رضا ہال ملتان پہنچے تو سب سے پہلے بھائی مرزا یاسین بیگ صاحب اور قاری محمدعبداللہ میگزین ایڈیٹر روزنامہ اعتماد نیوز نے گرمجوشی سے معانقہ کیا ۔حالانکہ یہ ہماری پہلی ملاقات تھی لیکن ان کی محبت اور گرمجوشی سے یوں لگا جیسے ہم صدیوں سے ایک دوسرے کے شناسا ہوں۔کچھ مہمان آچکے تھے باقی مہمانوں کی آمدکا سلسلہ جاری تھا۔میں ہال میں اپنے آپ میں گم بیٹھا تھا کہ دور سے کسی نے مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایاغور کیاتو سدا کا مسکراتا چہرہ حسیب اعجازعاشر کا تھاان سے پل بھر کی ملاقات ہوئی کیونکہ ان کے اور بھی چاہنے والے وہاں آئے ہوئے تھے جن کو انہوں نے فیض بخشنا تھا۔غرض آغاز سے اختتام تک پُرخلوص اور ادب نواز لوگوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ گھر پہنچنے تک رابطہ میں رہے ،گاڑی ملی یا نہیں؟ سیٹ اور برتھ ملی؟کہاں پہنچے؟ جب بھی ان کا فون آتاتو میں شرمندہ ہو جاتا کہ میرے لئے اتنے پریشان ہیں اتنے تو گھر والے اور میں خود بھی نہیں۔
کچھ انتظامی مسائل کی بنا پرپروگرام مقررہ وقت سے کافی تاخیر سے شروع ہوا۔ نقابت ونظامت کے فرائض مرزا یاسین بیگ صاحب اور قاری محمد عبداللہ صاحب نے انجام دیئے۔ سٹیج کو کنوینشن اور تقریب تقسیم انعامات کا خوبصورت پینا فلیکس سے سجایا گیا تھا،اسقبالیہ پرموجود انتہائی خوش مزاج اور متحرک نوجوان آنے والے کو خوش آمدید کہہ رہے تھے اور ان کی رجسٹریشن کر رہے تھے۔
پروگرام کی ترتیب ایسی رکھی گئی تھی کہ کہیں بھی یہ دل کش تقریب کسی تعطل کا شکار نہیں ہوئی جس پر منتظمین کو داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ اس کنوینشن کی ایک اور انوکھی بات یہ تھی کی 120نئے لکھنے والوں میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی۔ اس کنوینشن نے یہ اعتراض بھی ختم کر دیا کیا کہ ادبی محفلوں میں خواتین شرکت نہیں کرتیں۔اس پُروقار یقریب نے یہ بھی باور کروایا کہ ادبی تقاریب اگر صرف خانہ پری ،قیام و طعام اورفوٹوسیشن تک محدود نہ ہو ں اوخواتین کے وقار واحترام کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو خواتین بھی بھرپور شرکت کرتی ہیں۔
یہ پروگرام باقی تما م ادبی اور صحافی تنظیموں کے لیے مشعل راہ بھی ہے،تمام تنظیمیوں اور ان کے منتظمین کو چاہیے کہ اس پروگرام کو مد نظر رکھ کر اپنی پالیسیاں تشکیل دیں،کیونکہ جہاں عورت کو تحفظ مہیا کیا جائے گا تو وہ وہاں پر بھر پور شرکت بھی کریں گی اور بہتر طور پر اپنی صلاحیتوں کا اظہار بھی کر سکیں گی اس کامیابی پر اس پروگرام کی تمام انتظامیہ خاص طور پر پاکستان رائیٹر ونگ کے چیئرمین مرزامحمد یٰسین بیگ اور صدر قاری محمد عبداللہ مبارک باد کے مستحق اور باقی تنظیموں اور ذمہ داران کے لیے امید کی کرن بھی ہیں۔
محفل میں شرکت کرنے والے معروف قلمکار وں کے نام کچھ یوں ہیں: سرپرست و بانی وفائے پاکستان ادبی فورم حاجی لطیف کھوکھر، محمدشعیب مرزا،حافظ محمد مظفرمحسن،عبدالصمد مظفر،سجاد جہانیاں اور ”خودکش بمبار کے تعاقب میں”کے مصنف سید بدر سعیدنمایاں تھے۔ جیسے ہی سامعین میں اکتاہٹ ہونے لگتی تو منتظمین کی طرف سے ان کے جوش کو بڑھانے کے لیے ” ٹیبلو”یا خاکہ پیش کردیا جاتا۔ ،مختلف موضاعات،کشمیر کاز،دہشت گردی کے نقصانات اور پاکستان کے حوالے سے بہت اعلیٰ”ٹیبلو”بچوں نے پیش کئے اور سامعین نے بھی کھل کر داد دی۔
تلاوت حافظہعمارہ احد اور حافظ معاذالرحمن نے بڑے خوبصورت انداز میں کی اور اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے،اتنی کم عمری میں اتنے بڑے مجمع میں اتنے احسن انداز میں تلاوت ان کی ہمت کی منہ بولتی تصویر ہے،نعت کا شرف اسامہ سلطان کو حاصل ہواایک چھوٹی بچی ولیجہ زینب نے حمد پیش کی اور ایک دوسری چھوٹی بچی عروہ اشرف نے انگریزی میں اتنے خوبصورت انداز تقریر کی کہ سامعین عش عش کر اٹھے اور خوب کھل کر داد دی۔
یہ پورے پاکستان کے لکھاریوں کا واحد اور انوکھا پروگرام تھا جس میں جہاں آسمان صحافت کے چمکتے ستارے جو اس وقت اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواکر سینئیر بن چکے ہیں،ان کے زیر سایہ 120سے زائد نئے لکھنے والے بھی موجود تھے ،میں نے اب تک کی زندگی میں کہیں بھی اتنے لکھنے والے ایک چھت کے نیچے نہیں دیکھے،ویسے تو منجھے ہوئے لکھاری کسی کی تعریف تک کرنا گوارہ نہیں کرتے لیکن اس پروگرام میں جہاں نئے لکھنے والوں کی خوب حوصلہ افزائی کی وہیں پر راہنمائی کے لیے بہترین طریقہ کار اور اپنے تجربات بھی بتائے۔
ہال میں ملتان کی روایتیگرمی اپنے جوہردکھارہی تھی،لیکن شرکاء کے حوصلے بھی قابل دید اور قابل داد تھے،
پروگرام کے مہمان خصوصی پاکستانی سیاست میں باغی کے نام سے مشہورفخر جمہوریت جاوید ہاشمی تھے،جنہوں نے اپنے خطاب میں جہاں پاکستان کے دفاع کی بات کی وہیں اتنا خوبصورت پروگرام سجانے والوں اور اس میں شریک ہونے والوں کی بھرپور تعریف بھی کی، محترمہ شاہین شفیق صاحبہ ایم این اے نے بھی اس کامیاب کنوینشن کے انعقاد پر منتظمین کو مبادک باد دی ۔جناب شعیب مرزا،جناب مظفر محسن، جناب اطہر ممتاز ،جناب محمد سجاد جہا نیہ اور محترمہ رضیہ رحمن صاحبہ نے بھی قاری محمد عبداللہ ،مرزا یاسین بیگ اور ان کی ساری ٹیم کی کوشش وکاوش کو سراہا اور کامیاب اور پر وقار تقریب کے انعقاد پر خراج تحسین پیش کیا اور آئندہ بھی اس قسم کے پروگراموں کے انعقاد پر زور دیا۔
اس کے بعد کہانی،مضمون اور نظم کے مقابلوں میں جیتنے والوں میں ایوارڈز،انعامات اور اعزازی اسناد تقسیم کی گئیں۔
تقریب کے تمام مہمانان خصوصی کو بھی یادگاری ایوارڈز سے نوازا گیا۔الحمد للہ میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل تھا جنہیں یادگاری ایوارڈز ملے۔
پروگرام کے آخر میں مرازامحمد یٰسین بیگ،قاری عبداللہ،سید بدرسعید،حسیب اعجازعاشر، محمدالطاف،سرداراختر چوہدری اور رانا اعجازدیگر نامور رائیٹرز کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں اوراس یاد گار تقریب کی حسین یادیں دل میں بسا کر ہم گھر کو لوٹے۔
شاہد اقبال شامی اٹک
0312.6697071