اولاد کے ’’لہو‘‘ میں حرام کمائی کا زہر مت گھولو
تحریر: افضال احمد
اولاد اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے جس کی خواہش ہر شادی شدہ جوڑے کو ہوتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کسے اولاد سے نوازنا ہے اور کسے اولاد سے نہیں نوازنا۔ اللہ تعالیٰ جو کرتے ہیں اپنے بندے کی بھلائی کیلئے کرتے ہیں۔ یہ تو ہم کم عقل لوگ ہیں جو وقتی پریشانیوں کو برداشت نہیں کرتے اور اولاد کے حصول کیلئے اُلٹے سیدھے راستے اختیار کر لیتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اولاد سے نہیں نوازنا تو ساری دنیا کے لوگ جو مرضی جتن کر لیں آپ اُولاد سے محروم ہی رہیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اُولاد دینی ہے تو ساری دنیا کے لوگ جو مرضی جتن کر لیں آپ کو اولاد مل کر رہے گی۔ کس کو بیٹی دینی ہے اور کسے بیٹا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو اختیار نہیں۔ علاج کرانا اچھی بات ہے لیکن شفاء کی اُمید اللہ تعالیٰ سے ہی رکھنی چاہئے۔ علاج کے دوران شیطانی حربوں کو استعمال کرنے سے گریز کریں۔
ولادت کے وقت انسان کے دونوں ہاتھوں کا بندھا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ زندگی کی سواری پر حریص ہے اور موت کے وقت دونوں ہاتھوں کا کھلا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ مُردہ کہہ رہا ہے کہ دیکھو میں اس زندگی کے گھر سے خالی ہاتھ جا رہا ہوں‘ میں نے بہت لوگوں کو دھوکے دیئے‘ پیسہ بٹورا‘ جوئے کھیلے‘ پراپرٹی پر ناجائز قبضہ کیا‘ پیسوں کی خاطر بھائی کو مار ڈالا‘ بہن کا حصہ کھا گیا‘ باپ کو غلط وراثت تقسیم کرنے پر مجبور کیا‘ غریب لوگوں سے یہ جانتے ہوئے کہ وہ پیسہ نہیں دے سکتے رشوت لی‘ پیسہ کمانے کیلئے جھوٹے کو سچا ثابت کر ڈالا‘ لوگوں کو ملاوٹ شدہ چیزیں فروخت کرتا رہا آج موت نے میرا کام تمام کر ڈالا‘ آج میں قبر کے سپرد ہونے جا رہا ہوں‘ اور اُس قبر میں جو عذاب کی وادیاں مجھے نظر آرہی ہیں تم زندہ لوگوں کو نظر نہیں آرہیں‘ زمین پر بہت نا انصافیاں کی آج زمین مجھ سے بدلہ لینے کیلئے بے تاب ہے کب یہ مُردہ مجھ (قبر) میں آتا ہے اور میں عذاب شروع کروں‘ توبہ کے دروازے بھی آج مجھ پر بند ہو گئے‘ کاش! میں زندگی غفلت میں نہ گزاری ہوتی۔
سماج کی ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے جنہیں اُن کے والدین حرام کی کمائی کھلا رہے ہیں ان بچوں کو حلال حرام بارے بچپن سے ہی لا علم رکھا جاتا ہے‘ بچوں کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ ابو جان لوگوں کو دھوکہ دیکر اور رشوت لیکر بے پناہ پیسہ کما رہے ہیں اور ہماری ہر جائز ناجائز خواہشات پوری کر رہے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کے تازہ و شفاف لہو میں حرام کی کمائی کا زہر گھول رہے ہیں یہ ایسا زہر ہے جس کے اثرات اُولاد کے جوان ہو جانے کے بعد شدت سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس زہر کا بیٹیوں پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ جوان ہو کر غیر مردوں کے ساتھ منہ کالا کرنے لگتی ہیں‘ گھروں سے بھاگ نکلتی ہیں وغیرہ‘ اور بیٹے شراب‘ نشہ‘ زناء وغیرہ کرنے لگتے ہیں‘ حرام کمانے والے والدین کو کان و کان خبر تک نہیں ہوتی کہ ان کی اُولاد کن حرام کاموں میں مبتلا ہو گئی ہے۔ اور جس دن ان والدین کو اپنی اُولاد کی حرام کاریوں کا پتہ چلتا ہے تو سر پر ہاتھ رکھ کر روتے ہیں۔ بھئی! حرام کا لقمہ اولاد کے خون میں اپنا اثر تو دکھائے گا۔یاد رکھو کاغذ کے نوٹ نہیں بلکہ نیک اولاد اور اولاد کی عزت آپ کا حقیقی سرمایہ ہے۔
بچہ معصوم پیدا ہوتا ہے والدین پر فرض ہے کہ بچوں کی اچھی تربیت کریں۔ آج کل یہ عالم ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اُس کو ’’گھٹی‘‘ دینے کیلئے جو چیز خریدی جاتی ہے وہ بھی حرام کی کمائی سے خریدی جاتی ہے۔ بیشتر والدین اپنی اُولاد کے پیدا ہوتے ہی حرام کمائی سے توبہ کر لیتے ہیں‘ اور بہت سے والدین اولاد کی پیدائش کے بعد حرام کی کمائی کے ذرائع بڑھا دیتے ہیں۔ یاد رہے میں سب والدین کی بات نہیں کر رہا یہ تحریر صرف اُن والدین کیلئے منظر عام پر لا رہا ہوں جو اپنے بچوں کے لہو میں حرام کی کمائی کا زہر گھول رہے ہیں۔ بہت اچھے اچھے والدین بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو اپنی نیک کمائی سے بچوں کی پرورش کرتے ہیں اور بڑھاپے میں اس اچھی تربیت کا پھل پاتے ہیں۔ بھئی! نیکی اور بدی برابر نہیں ہوسکتی۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ جب کوئی شدید بیمار ہوتا ہے تو اُسے کیا ڈاکٹر زہر کھانے کو کہتے ہیں؟ نہیں بلکہ اگر مریض زہریلی چیزوں کا استعمال کر بھی رہا ہوتا ہے تو ڈاکٹرز اُسے اُن زہریلی چیزوں سے پرہیز بتاتے ہیں تا کہ مریض کی صحت بہتر ہو سکے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم اولاد کے حصول کیلئے اتنے جتن کرتے ہیں‘ دن رات دعائیں مانگتے ہیں‘ جعلی پیروں کے پاس جاتے ہیں‘ دنیا کا کوئی کونہ نہیں چھوڑتے‘ دنیا کا کوئی علاج نہیں چھوڑتے کہ جس سے اُولاد حاصل جائے۔ تو جب اولاد پیدا ہو جاتی ہے تو اُسے آپ پیدا ہوتے ہی حرام کی کمائی کی ’’گھٹی‘‘ کیوں دیتے ہیں؟ پھر جب آپ بچے کی پیدائش سے لیکر جوان ہونے تک اُسے حرام کی کمائی کا پیسہ کھلاتے ہیں تو اُس بچے کے جوان ہو جانے کے بعد اُس (بچے) سے اپنے لئے اچھے کی اُمید کیوں رکھتے ہیں؟ بچہ دنیا سے بے خبر پیدا ہوتا ہے ‘دنیا میں آکر اپنے باپ کو دیکھتا ہے کیسے لوگوں کو چکر دے رہا ہے اور پیسہ کما رہا ہے اور جوان ہو کر باپ کی حرام کمائی والی لائن پر چل نکلتا ہے۔
جب آپ اپنے بچوں کو حرام کی کمائی کھلا کر جوان کرو گے تو وہ اولاد سب سے پہلے آپ ہی کے خلاف ہو جائے گی۔ میں ابھی غیر شادی شدہ ہوں اور لگتا ہے غیر شادی شدہ ہی رہوں گا کیوں کہ میں ایک غریب آدمی ہوں‘ سماج میں غریب آدمی کو کوئی رشتہ نہیں دیتا‘ سب پیسہ‘ کار‘ کوٹھی دیکھ کر رشتہ دیتے ہیں چاہے لڑکے نے حرام کی کمائی سے کار‘ کوٹھی وغیرہ لی ہو‘ پھر بھی دعا ہے کہ خدا مجھے اچھی بیوی دے ‘ مجھے کوئی اچھا رشتہ مل جائے ‘ میں اُولاد کا غم نہیں جانتا لیکن جو لوگ صاحب اولاد ہے اپنی اولاد کی پرورش حرام پر کرتے آئے ہیں تو اُن کی حالت آپ اپنی آنکھوں سے دیکھو! یقین کرو حرام کی کمائی کھلانے والے والدین کو اُن کی اولادیں سر عام سڑکوں پر گھسیٹتی ہیں‘ مارتی ہیں‘ گندی گندی گالیاں دیتی ہیں۔
دیکھیں آپ بات کو سمجھیں آپ حرام کی کمائی کما کر خود کو کامیاب ترین انسان مت سمجھیں۔ ہمارے نصیب کا جو رزق اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے مل کر رہے گا‘ حرام رزق آپ نے خود اپنی قسمت میں لکھا ہے‘ حرام کمائی کر کے آپ دنیا میں بھی نقصان اُٹھائیں گے مرنے کے بعد قبر کے عذاب میں بھی مبتلا ہوں گے اور روز قیامت جو حرام کمائی والوں کا جو حال ہو گا سن کر بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میرے سماج کے حرام کمانے والے افراد خود کو بہت سمجھدار‘ سیانہ‘ پھنے خاں سمجھتے ہیں‘ شریف لوگوں کو دھوکہ دینے کا ایک سے ایک نیا طریقہ نکالتے ہیں۔ اللہ نے تمہیں زمین پر اختیارات دیئے اور تم اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کردہ مخلوق کو ذلیل و خوار کر رہے ہو‘ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے کس منہ سے پیش ہو گے؟
ایک حرام کمانے والے شخص کا واقعہ کہیں پڑھا تھا کتاب کا نام یاد نہیں ایک شخص نے ساری عمر حرام کمانے میں گزار دی اس کے 3 بیٹے تھے‘ بوڑھا ہو گیا اُسے اچانک بدبو دار پاخانے کی بیماری لگ گئی، اس آدمی سے نہ تو اُٹھا جاتا تھا اور نہ ہی بیٹھا جاتا تھا بستر پر پڑے پڑے ہی پاخانہ نکل جاتا تھا‘ پاخانے کی بدبو اتنی زیادہ تھی کہ پورے محلے والے تنگ ہوتے ‘ اس حرام کمانے والے بوڑھے سے اس کی اُولاد کو نفرت ہو گئی‘ اولاد نے اس بوڑھے باپ کیلئے گھر کا ایک گندا سا کونہ اور ایک گندی سی چار پائی منتخب کی جہاں اُسے پھینک دیا‘ سارا دن وہ بوڑھا اپنے ہی پاخانے میں لت پت مکھیوں میں پڑا رہتا‘ اس بوڑھے نے ساری زندگی غریب لوگوں کا حق کھایا، نوکریاں دلوانے کے لئے پیسے کھائے، رشوت لیکر جھوٹے کو سچا ثابت کیا‘ جوان لڑکیوں سے رشوت کے نوٹ لینے کے بعد اُن سے منہ بھی کالا کرتا تھا‘ ایسا حرام خور انسان ایک نہ ایک دن اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں تو آتا ہی ہے‘ ایک دن اس بوڑھے شخص کی اُولاد اس کے بدبو دار پاخانوں سے اتنی تنگ آگئی کہ ایک بیٹے نے اپنے باپ کو زہر کا ٹیکہ لگا دیا جس سے وہ شخص ہلاک ہو گیااور کوڑے
کے ڈھیر پر اس کی لاش پھینک آئے‘ اولاد نے غسل و جنازہ تک نہ کرایا‘ ہاتھ جوڑ کر آپ سب سے گزارش ہے حرام کمائیوں سے توبہ کرلیں‘ ہم سب موت کو بھول گئے لیکن موت آکر رہے گی۔ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آسکتے ہو۔ جس اولاد کے لئے آپ حرام کمائی کرتے ہیں وہ اولاد ہی آپ کی عبرتناک موت کا سبب بن سکتی ہے ‘ خدانخواستہ عبرتناک موت کے تاریخی واقعات میں ایک واقعہ آپ کی عبرتناک موت کا بھی شامل ہو سکتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے سرکاری و پرائیویٹ سکول‘ کالجز والے اگر میری تقریر اپنے ادارے میں کروانا چاہیں تو میں سب کی خدمت میں ضرور حاضر ہوں گا۔ میرا علم ناقص ہے ‘ علماء کرام و دیگر اہل علم لوگ میری اصلاح ضرور کریں۔