اوہام
عفت بھٹی
شام گھر کا دروازہ بجا اور ایک آواز آئی باجی چھوٹے چھوٹے بہن بھائی ہیں روٹی سالن کا سوال ہے ۔میں نے دروازہ کھولا تو ایک ہٹے کٹے نوجوان کو پایا مجھے اس کے حلیے میں کوئی مستحقوں والی جھلک نظر نہ آئی ۔اچھے بھلے ہو کماتے کیوں نہیں مانگنا اچھا لگتا ہے تمھیں ؟ میں نے اسے کھانا پکڑاتے ہوئے سرزنش کی ۔اس نے کوئی جواب نہ دیا اور اگلے دروازےپہ صدا لگائی میری پڑوسن نجمہ نے ایک روٹی پہ سبزی رکھ کر اس کے حوالے کی ۔باجی پرسوں بھی سبزی کل بھی آج بھی۔فقیر نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا اور آگے بڑھا اتنے میں موبائل کی بیل نے مجھے اورنجمہ کو متوجہ کیا فقیر نے موبائل نکالا سام سنگ گلیکسی ۔ہاں آتا ہوں چار گھر رہ گئے وہ فون پہ بات کرتا آگے نکل گیا ۔ہم دونوں کی سوالیہ نظریں ٹکرائیں اور پھر خاموش ہو گئیں بسا اوقات نگاہیں گفتگو کر لیتیں کہنے یا بیان کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
گداگری ہمارے مللک میں۔پھیلا ہوا ایک ناسور ہے ۔جو باقاعدہ ایک پیشہ بن چکا ہے لہذا ہم حقدار اور بے حق میں تمیز ہی نہیں کر پاتے۔بازار کے کونے پہ بیٹھے ہوئے ایک اپاہج نوجوان ایک ٹوکری میں پلاسٹک کے کھلونے سجا کے بیٹھا تھا اسکی آس بھری نظریں راہ گذرتے بچوں پہ ہوتیں کہ کوئی تو اس سے کھلونے خریدے اور اس کے گلشن کا کا روبار چلے۔ مگر افسوس ہم ہٹے کٹے افراد کو تو بھیک دے دیتے مگر جو مستحق عزت نفس کو بیچے بغیر اپنا گزارہ کرنا چاہتا اس کی مالی امداد نہیں کرتے۔اکثر گداگر تو کئی مذموم مقاصد رکھتے بچوں کا اغوا اور پھر ان کو معذور بنا کر بھیک منگوائی جاتی ۔بڑے بڑے گروہ اس میں ملوث ہوتے ۔آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ دینی مدارس میں داخل بچے برتن تھامے گھر گھر جا کر کھانا مانگتے ۔حالانکہ اگر ان کے والدین ان کی حالت دیکھ لیں تو ان کے دل پہ کیا گذرے ۔اب ذرا بڑے پیمانے پہ دیکھیں تو ہمارے حکمران بھی کشکول پکڑے امریکہ صاحب بہادر کے آگے کھڑے ہوتے ہیں .۔اور یہی وجہ ہے کہ ہمارا بچہ بچہ اس قرض تلے دبا ہے۔۔گداگری معاشرے کی ایک ایسی لعنت ہے کہ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔یہ انسان کی عزت نفس کو مار دیتی ہے ۔رسول اکرم صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بڑھ کر ہے۔ کیا حدیث پاک کی گواہی کے بعد کسی بحث کی گنجائش رہتی ہے ۔
گداگری ایک قبیح فعل ہے جو عزت نفس کو ختم کر دیتا اور انسان دوسروں کے آسرے پہ رہتا خود محنت کرنے کی عادت ختم ہو جاتی۔گداگری کی آڑ میں منشیات فروشی بھی ہوتی اور نوجوان نسل اس سے ذیادہ متا ثر
ہو تی ہے۔بہت سے منشیات فروش گداگروں کا بھیس بنا کر مختلف کالجوں یونیورسٹیوں کے سامنے بیٹھ جاتے اور منشیات فروشی کرتے ہیں ۔
سماجی برائیوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے ہمارے معاشرے کو داغدار کیا ہوا ہے ہم جانتے بوجھتے بھی ان کو ختم نہیں کر پاتے کیونکہ ہم کسی برائی کو ہوتا دیکھ کے ایمان کے تیسرے اور کمزور درجے پہ چلے جاتے ہیں کہ اس کو روکتے نہیں بس دل میں برا کہتے اور اپنی راہ لیتے ہیں ۔تبھی تو معاشرہ بگڑ رہا ہے ۔ہم نے مغربی معاشرے سے بہت کچھ مستعار لیا ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کسی معاملے میں مت پڑو سو اس بات نے ہمیں بہت زک پہنچائی ہے ۔ہم بے حس ہوگئے ہیں اور بے پرواہی کا لبادہ اوڑھ کے معتبر بن کے بیٹھ جاتے ہیں اور زبان آسان میں کندھے اچکا کہ personal mater کہہ کر اپنی راہ لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے دل دور ہوتے جا رہے ۔ہمیں اوہام نے مار دیا ہے ۔ہم ہر برائی کو دیکھتے ہیں سمجھتے ہیں پھر بھی آنکھیں بند کر لیتے ہیں اس سوچ کے ساتھ کہ اونہہ ہمیں کیا۔اور جب ہمیں کیا قسمت ہمارے سر پہ مسلط کر دے تو ہم دہائی دیتے نظر آتے ۔
فطرت سے کنارہ کشی اور اوہام کی قربت ہمیں اپنے آج سے بے خبر اور کل۔سے دور کر رہی ہے۔کاش ہم سنبھل جائیں۔