اللہ لولی ۔۔۔۔۔۔سوہنڑی ماں بولی
مامتا ، بچے کی تہذیب اور پرورش میں لوری کا کردار
تحریر : محمد اسلم ۔۔۔۔لیہ
maslamly79@yahoo.com
0331-7169343
ہما ری زندگیوں میں لو ک ر سمیں ر یڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ان رسموں میں ” لوری” قابل ذکر ہے ۔لوری ہندی زبان کا لفظ ہے۔لوری کے معنی ، ایسا کوئی بھی گیت یا شاعرانہ جملے جو عورتیں بچوں کو سلانے یا چپ کرانے کے لئے آہستہ آہستہ سُر میں گاتی
ہیں لوری کہلاتا ہے۔بقول محقق ڈاکڑ عبد الحق” لوری ایک ہلکا پھلکا گیت ہے جس کی طرزِ قواعد موسیقی کی بجائے سازِ فطرت سے مطابقت رکھتی ہے۔ہر وہ آرزو جو ماں کے قلبِ صمیم سے نکل کر گیت کے سانچے میں ڈھل جائے لوری کہلاتا ہے۔اور وہ لوری خواہ وہ فنِ شعری پر پوری اُترے یا محض تُک بندی ہومامتاکے جذبات سے معمور ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کا سب سے میٹھا گیت ”لوری ” ہے جو ہم پیدا ہوتے ہی ماں کے منہ سے سننا شروع کر دیتے ہیں ۔یہ گیت ماں کی ممتاکے ترجمان ہوتے ہیں۔لوری صرف ماں یا بہن ہی نہیں دیتی بلکہ ہر وہ عورت جوبچے کے ساتھ اُنس و لگاؤ رکھتی ہے لوری کے ذریعے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے۔قدیم اور جدید دور میں لوری کی ضرورت ہر اُ س ماں کو رہی ہے جواپنے بچے سلانا یا بہلانا چاہتی ہے۔
برصغیر میں بچوں کو لوریاں سنانے کی روایت بہت پرانی ہے ۔لیکن جب دنیا میں لوری کی تاریخ کو کھنگالا گیا توپتہ چلا کہ اس کی ابتداء چار ہزار سال قبل عراق میں بابل کی تہذیب میں ہوا تھا۔ماہرین کے مطابق دنیا میں پہلی بار یہی لوری بچوں کو سلانے کے لئے گائی تھی اور دوہزارسال قبل مسیح میں یہ لوری مٹی کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر تحریر کی گئی جوکھدائی کے دوران ملا ہے۔اس ٹکڑے کو برٹش میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ہتھیلی میں سما جانے والے مٹی کے اس ٹکڑے پر موجود تحریر ” کیونیفارم سکرپٹ ” میں ہے ،لکھائی ابتدائی اشکال میں ایک سمجھا جاتاہے۔اس لوری کو جہاں پڑھاجاسکا ہے اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ” جب بچہ روتا ہے تو گھروں کاخداناراض ہوجاتا ہے اور پھر اس کا نتیجہ خطر ناک ہوتا ہے ” یعنی اس تحریر سے واضح ہے کہ آج جہا ں لوریاں بچوں کیلئے محبت اور پُرسکون نیند سے جڑ ہیں وہیں دنیا کی پہلی لوری محبت سے زیادہ خوف کاعنصر تھا۔قدیم موسیقی کے ماہر رچرڈ برل کہتے ہیں کہ اُ س دور کی لوریاں خوف اور ڈر کا نمونہ تھیں۔مغربی کینیا کے قبائل میں ایک لوری کافی استعمال ہوتی ہے جس میں بچوں سے کہا جاتا ہے کہ جوبچہ نہیں سوئے گا ، اُسے لگڑبھگڑ کھا جائے گا۔ایک لوری کا ذکر کرتے ہوئے مو سیقار ذوئی پامرنے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ لوگ بچوں کو نصیحت کرتے تھے کہ بہت شور کر چکے ہو اوراس شورسے بُر ی روحیں جاگ گئی ہیں اور اگر وہ ابھی نہ سوئے تو یہ روحیں انہیں کھا جائیں گی ۔ بچوں کی ترقی پر کئی کتابوں کے مصنف گوڈ راڈ بی بی سی بات کر تے ہوئے کہا ہے کہ زیادہ تر لوریوں میں محبت اور تحفظ کی باتیں ہی ہوتیں جبکہ کئی لوریوں میں ملک کی تاریخ کو
دہرایا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حمل کے چوبیسویں ہفتے میں ہی بچہ اپنی ماں کی آواز سننے لگتا ہے ۔روس میں ماہرِ اطفال مائیکل لیزاریو کہتے ہیں کہ” ماں کی آواز بچہ کے لئے ایک پُل کی طرح ہوتی ہے جو بچہ مادرِ شکم میں پل رہا ہے ،بچے کو باہر کی دنیا سے جوڑتا ہے۔ مائیکل کہتے ہیں کہ بچہ مادرِ شکم میں پل رہا ہے بچہ باہر کی آواز سن سکتا ہے لیکن اتنی صاف نہیں جتنا کہ ماں کی آواز سنتا ہے کیونکہ اسے بچہ باہر اور اندر دونوں طرح سے سن سکتا ہے۔ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہے کہ بچے کی پہلی درسگاہ ،ماں کی گود ہے ۔ اب بچے کی تعلیم و تربیت مسلہ تھا ابتدائی طور پر کونسا طریقہ اپنایا جائے ؟اس مسلے کاتمام روایتی ، تہذیبوں بالخصوص "اسلامی تہذیب نے ایک زبردست حل تلاش کیا ہوا تھا اوروہ یہ کہ پڑھنے والے کو پہلے ” سننے والا بناؤ” ایسا صرف لوری ہی کے ذریعے ممکن تھا” ایک بہت ہی مشہور لوری :
حسبی ربی جل اللہ ۔۔۔ ما فی قبلی غیراللہ
نور محمد صل اللہ ۔۔۔ لا الہ الا اللہ
غور کیا جائے تو چار مصرعوں کی اس لوری میں پوری توحید اور رسالت موجود ہے ۔اس میں جامعیت بھی ہے اور اختصار بھی ۔اس لوری میں صوتی حُسن بھی بدرجہ اتم موجود ہے،جوبچے اس لوری کو سنتے تھے وہ اسلام کی بنیاد سے آگاہ ہوتے تھے ، ان کے مزاج میں ایک شاعرانہ آہنگ بھی پیداہوجاتا تھا اورزبان کا ایک سانچہ بھی انہیں فراہم ہوجاتا تھا۔ایک بچہ تین ، چار سال عمرتک یہ لوری ہزاروں بار سنتاتھا اور یہ لوری اس کے شعور میں راسخ ہوکر اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتی تھی۔لوری کے پیچھے ماں کی خواہشیں ، حسریتں ،چاہتیں اور امیدیں ہاتھ ہلاتی نظر آتی ہیں اور جب ماں کی محبت آواز کی شکل اختیار کر تی ہے تو لوری کے بول اس کے منہ سے نکلنے لگتے ہیں جن کی مٹھاس کو ہوا چراکر اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے اوردور کسی نگر جاکر بانٹ دیتی ہے۔ماں کی محبت اورروحانیت جب عروج پر پہنچتی ہے تو اس کے لب کچھ یو ں ہلتے ہیں کہ:۔
دن چڑھیا بھاگیں بھریا ۔۔۔ساڈا نبی ﷺمکے وچ وڑیا
اس وڑ دے کلمہ پڑھیا۔۔۔ پڑھو!
لاالہ الا اللہ محمد ﷺ پا ک رسول اللہ ۔۔۔
اللہ اللہ کیا کرو ۔۔۔خالی دم نہ بھریا کرو
ہردم اُس توں ڈریا کرو۔۔۔۔ورد نبی دا کیا کرو پڑھو!
لاالہ الا اللہ محمد ﷺ پا ک رسول اللہ ۔۔۔
لوری میں نہ صرف محبتیں ، حسرتیں اور امیدیں ہوتی ہیں بلکہ خاندانی و علاقائی رسموں کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔اس طرح ایک لور ی پنجاب میں کافی سنی سنائی جاتی ہے۔وہ یہ ہے:۔
لال نوں لوری دیواں سوں جا
میرے پُتیا نانکیاں نوں جاواں گے ۔۔۔۔جھگا چنی لاواں گے
نانی دا دتا گھیو۔۔۔جیوے لا ل دا پیو
لوریاں لسانی اور علاقائی اثر سے بدل جاتی ہیں لیکن مدعا سب کا ایک ہی ہوتا ہے۔ایک ایسی ہی عربی میں لوری جو قارئین کی نظر کی جا تی ہے:۔
نامٌ ھنا یا حَلو یا اُوت یااُوت ۔۔۔۔اَنا جیبلَک جَوزًکُوت کُوت
یاحبیبی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یامحمد
صل اللہ علیہ وسلم
اللہ۔ اللہ ۔اللہ ۔اللہ
ترجمہ: حَلو ۔ میٹھا ،مگر بہت پیارکے لئے استعمال ہوتا ہے(اگر بچی ہو تو حلَوہ )اُوت اُوت ۔ننھے منے یا ننھی منی ،اَنا۔ میں ،جیبلک۔ تمہارے لئے لاؤں گی،جوزً ۔جوڑا یہ لفظ زوج ہے مگر جوز بولاجاتا ہے، کُو ت کُوت ۔بطخ کے چوزے ،حبیبی ۔میرے پیارے۔
لوری دنیا بھر میں عموماًاور پاکستان میں خصوصاًمختلف انداز میں سننے کو ملتی ہے جو علاقائی ثقافت کی شہادت دیتی ہے اور کہیں پر فصلوں کا ذکر ملتا ہے ،کہیں پر اہل خانہ کی ذمہ داریوں اورمصرورفیا ت کا پتہ چلتا ہے ۔چونکہ پاکستا ن ایک زرعی ملک ہے اس لئے لو ک گیتوں میں دودھ اور اناج کا ذکر ضرور ملتا ہے۔
الھڑ بلھڑ باواے دا۔۔۔۔۔۔باوا کنک لے آواے گا
باوی بیٹھی چھٹے گی۔۔۔۔۔ماں پونیاں وٹے گی
باوی من پکاوے گی۔۔۔باوا بیٹھے کھاوے گا
کا کا کھڑ کھڑ ۔۔۔۔۔۔ہسنے گا
معاشروں میں تنوع کے باوجود ان کی لوریوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔دنیامیں جہاں بھی چلے جائیں مائیں ایک دھن استعمال کرتی ہیں اور ایک طریقے سے اپنے بچوں کے لئے گاتی ہیں۔دیگر تہذیبوں کی طرح سرائیکی تہذیب میں بھی” لولی”(لوری) اب بھی اپنی ثقافتی رنگ کے ساتھ سفر کو جاری رکھا ہوا ہے ۔وسیب میں جہاں مائیں اپنی لاڈلوں کو میٹھی میٹھی لوری سنا کر سلاتی یا بہلاتی ہیں وہاں ایک اور رسم بھی ہے کہ بھنڈ (میراثی) بھی بچوں کولوری دینے کے لئے آتے ہیں جس میں ایک یہ لوری وسیب میں بہت ہی مشہور ہے ۔
تیڈا جمدا جیوے لال ، لو لی لال کُوں ڈیواں
جدُو والی جال سُہائی سرور والا تَھلا
کُچِھڑ والا جِیندا رہی بیاوی ڈیوی اللہ
جمدا جیوے لا ل ، لولی لال کُوں ڈیواں
سِرتے ڈیواں ٹوپیاں ، ہَتھ وِچ ڈیواں کانی
لا ل تیڈ ا لاڈلا کھِڈاوَن والی نانی
تیڈا جمدا جیوے لال ، لو لی لال کُوں ڈیواں
سِرتے ڈیواں ٹوپیاں ، ہَتھیں ڈیواں پُھٹی
بال تیڈا لاڈلا کھِڈاون والی پھُپھی
تیڈا جمدا جیوے لال ، لو لی لال کُوں ڈیواں
سِرتے ڈیواں ٹوپیاں ، ہَتھیں ڈیواں مینڑ
بال تیڈا لاڈلا کھِڈاون والی بھینڑ
تیڈا جمدا جیوے لال ، لو لی لال کُوں ڈیواں
گھوڑا نیلا سنجھ سنہری ، ٹپ کے رکھیں ہتاں
پنیگھڑے کو ں لولیاں،میں پانی لاون ونجاں
تیڈا جمدا جیوے لال ، لو لی لال کُوں ڈیواں
مندرجہ بالا لوری جو نومولود کی پیدائش پر میراثی اپنے مخصوص انداز میں بچوں کو ہاتھوں میں اٹھا کرگول گول تیز تیز قدموں سے گھومتا ہواسُریلی آوازمیں لوری گاتا ہے۔ اس لوری میں جال کے درخت اور تھلا (تھڑا) کا ذکرِ خاص وسیبیوں کی پیروں فقیروں کے ساتھ عقیدت مندی کی طرف اشارہ ہے ، ساتھ وسیب کی روایتی پسماندگی، ضروریات زندگی عدم دستیاب اور اقتصادی زبوں حالی تذکرہ بھی پایا جاتا ہے جو ماؤں کو بھی کسبِ معاش میں مصرورف رکھتی ہے اور اُنہیں فرصت نہیں دیتی کہ وہ اپنے لاڈلوں کے پنگوڑے جھُلا سکیں ۔
دوسری لوری ملاحظہ ہو۔
لولی ڈیندی مَیں ونجاں گھولی
لولی ڈیندہاں مَیں رتی دے راوے
نِندر خوشی دی تیڈی اکھیاں کوں آوے
لولی ڈیندی مَیں ونجاں گھولی
لولی ڈیندی مَیں ڈے نہ واری
اکھیں تے رکھدی تیڈی جند پیاری
لولی ڈیندی مَیں ونجاں گھولی
لولی ڈیندی مَیں مکھناں دے پیڑے
رِنگ منجھیں تیڈے مامے دے ویڑھے
لولی ڈیندی مَیں ونجاں گھولی
آڈئیم پینگھا ، پٹ دیا ں لانہاں
جُھوٹا دیندیں تھکِم نہ بانہاں
لولی ڈیندی مَیں ونجاں گھولی
وُٹھے مینہہ دَر میڈے تے چِکاں
آسِن وِیر تے لہسِن سِکاں
لولی ڈیندی مَیں ونجاں گھولی
سَم کے اُٹھی تے ویلے کو ں جاگ
تیڈے جاگیں میڈے ویڑھے کو ں بھاگ
لولی ڈیندی مَیں ونجاں گھولی
مغربی دنیا میں یہ رسم ختم ہونے کے ساتھ ماں بچے کا وہ خاص تعلق بھی ختم ہوگیا ہے جومشرقی قوموں میں ابھی باقی ہے گو مغرب پر ستی کی زد میں آکر قلیل ہوتا جا رہا ہے۔یہ ماں کی لوری کی تاثیر تھی کہ بچے حسنؓ و حسینؓاورپیرانِ پیر عبدالقادر ؒ بنتے تھے۔ پہلے دور میں ” مائیں اپنے بچوں کو درود و سلام کی لوریاں سناتی تھیں جس کی وجہ سے ان کے بچے بھی امن و شانتی کے علمبردار بنتے تھے