عام آدمی
عفت
سیاست اور ملکی میدان ایک بار پھر سج گیا طرح طرح کی چہ مگوئیاں ایک بار پھر اپنے عروج پہ ہیں ۔پی ٹی آئی ایک دفعہ پھر دوسرے دھرنے کے لیے تیاری پکڑ رہی ۔کپتان نے بھی ڈی جے کو نئے گانوں کی تیاری کا کہہ دیا ہے آخر عوام نے انجوائے بھی تو کرنا ہے ۔جب کہ وزیر اعظم نواز شریف
عفت
سیاست اور ملکی میدان ایک بار پھر سج گیا طرح طرح کی چہ مگوئیاں ایک بار پھر اپنے عروج پہ ہیں ۔پی ٹی آئی ایک دفعہ پھر دوسرے دھرنے کے لیے تیاری پکڑ رہی ۔کپتان نے بھی ڈی جے کو نئے گانوں کی تیاری کا کہہ دیا ہے آخر عوام نے انجوائے بھی تو کرنا ہے ۔جب کہ وزیر اعظم نواز شریف
نے اپنے بیٹوں سے ملاقات کر کے کوئی لائحہ عمل طے کرنے پہ بات چیت شروع کر دی ہے ۔ہر طرف سے مختلف پیشن گو ئیاں منظر عام پہ آ رہی ہیں مگر سوال یہ پیدا ہو تا کہ کیا عام آدمی پر اس کا کوئی اثر پڑے گا ۔میرا ذاتی خیال ہے کہ عام آدمی کی سطح عام ہی رہتی نہ کسی کے آنے سے اس بیچارے کی حالت میں فرق پڑتا نہ کسی کے جانے سے ۔تخت شاہی پہ نواز ہو یا زرداری،عمران ہو یا فضل الرحمن عام آدی بس عام آدمی ہی رہے گا ۔اس کے بینک بیلنس میں جان توڑ محنت کے باوجود کمی اور اشرافیہ کے بیلنس میں اضافہ ہی ہو گا ۔
عام آدمی کے پیدا ہونے کے مقاصد:ہر دور حکومت میں بے وقوف بننا ،غضب کیا جو ترے وعدے پہ اعتبار کیا ،کی تمثیل نظر آنا خود غربت کی چادر میں ملفوف رہنا اور ووٹ دے کو دوسروں کو اسمبلی میں اور دولت دار میں پہنچانا ،جھوٹے وعدوں اور بہلاوؤں میں آنا اور انتہائی ثابت قدمی سے بار بار وہی چناؤ کرنا ۔اس پہ طرہ ہی کہ ان لیڈروں کی کال پہ ان کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہوئے احمقوں کی طرح اپنا کام دھندا چھوڑ کر ہڑتالیں ،دھرنے، میں شریک ہو جانا ۔ڈی۔جے کے گانوں پہ مست ہو کے جھومنا ۔کچھ نہ حاصل ہونے پہ گھر کو لوٹنا۔غریب سے غریب تر ہونا ۔خالی ہاتھ ہوتے ہوئے نوکری کی خواہش کرنا ۔ڈگری ہولڈر ہو کر دھکے کھانے کے بعد ریڑھی لگا لینا ،جہیز کے بغیر سوچنا کہ بیٹی کا رشتہ اچھے گھر سے آئیگا ۔اپنے منتخب نمائندگان سے توقع رکھنا کہ وہ ان کے علاقے کی سڑکیں مرمت کروائے گا ۔اور ان کے مسائل حل کرے گا ۔یہ وہ تمام کام ہیں جو عام آدمی کرتا ہے اور بار بار کرتا ہے۔
میم ؛یہ ممنون حسین کون ہے؟؟بچے من کے سچے کا کیا گیا سوال ۔بے ساختہ آدھی کلاس نے قہقہہ لگایا اور کچھ نے ادھر دیکھنے پہ اکتفا کیا ۔ایک طرف سے آواز آئی ہمارا صدر ہے ۔سوال کرنے والے نے پوچھا پاکستان کا؟؟ سوال میں حیرانگی تھی ۔تو اور کیا ایران کا ،،بذلہ سنجی سے پھر جواب آیا ۔مگر کبھی سنا نہیں یہ نام نہ کبھی نیوز میں نہ کبھی کسی موقعے پہ، سوال پہ سوال اور اب جواب آیا اوہو وہ محض نام کے صدر ہیں ان کا ملک کے معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ۔تو کیا ملک ان کے بغیر چل رہا؟ہا ہا ہا ملک تو اللہ کے آسرے پہ چل رہا ۔باقی سب کھاؤ خلیفہ ہیں باریاں لگی ہوئیں ہیں سب رج رج کے لوٹو اور مل بانٹ کے کھاؤ ۔جسے موقعہ نہ ملے وہ تخت پہ بیٹھے کی ٹانگیں کھینچتا ہے کہ بس کرو اب میری باری ،اگر اگلا نہ سنے تو عوام کو استعمال کر کے ڈرامے اسٹارٹ ۔کبھی نیا پاکستان ۔تو کبھی بھابھی جان ۔کبھی الہام ہونے لگتے کبھی خوشخبری آتی،عوام کو کبھی اورنج ٹرین اور کبھی یلو ٹرین کا لالی پاپ تھما دیا جاتا اور بھولی عوام عام آدمی کی طرح عام ہو جاتی۔۔
علامہ صاحب بھی میدان میں اتر آئے ان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان گذشتہ تیس سال
سے کرپشن ،ٹیکس چوری اور کالے دھن سے بیرون ملک میں آف شور کمپنیاں بنا رہے ۔پانامہ لیکس پہ کون ان سے مواخذہ کرے گا ۔پاکستان کا آئین اور قانون کب طاقتور ہو گا ۔گویا اب لب لباب یہی ہے کہ گو نواز گو ۔لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اگلا آنے والا حکمران ملک و قوم کا وفادار ہوگا ۔۔
عام آدمی کے پیدا ہونے کے مقاصد:ہر دور حکومت میں بے وقوف بننا ،غضب کیا جو ترے وعدے پہ اعتبار کیا ،کی تمثیل نظر آنا خود غربت کی چادر میں ملفوف رہنا اور ووٹ دے کو دوسروں کو اسمبلی میں اور دولت دار میں پہنچانا ،جھوٹے وعدوں اور بہلاوؤں میں آنا اور انتہائی ثابت قدمی سے بار بار وہی چناؤ کرنا ۔اس پہ طرہ ہی کہ ان لیڈروں کی کال پہ ان کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہوئے احمقوں کی طرح اپنا کام دھندا چھوڑ کر ہڑتالیں ،دھرنے، میں شریک ہو جانا ۔ڈی۔جے کے گانوں پہ مست ہو کے جھومنا ۔کچھ نہ حاصل ہونے پہ گھر کو لوٹنا۔غریب سے غریب تر ہونا ۔خالی ہاتھ ہوتے ہوئے نوکری کی خواہش کرنا ۔ڈگری ہولڈر ہو کر دھکے کھانے کے بعد ریڑھی لگا لینا ،جہیز کے بغیر سوچنا کہ بیٹی کا رشتہ اچھے گھر سے آئیگا ۔اپنے منتخب نمائندگان سے توقع رکھنا کہ وہ ان کے علاقے کی سڑکیں مرمت کروائے گا ۔اور ان کے مسائل حل کرے گا ۔یہ وہ تمام کام ہیں جو عام آدمی کرتا ہے اور بار بار کرتا ہے۔
میم ؛یہ ممنون حسین کون ہے؟؟بچے من کے سچے کا کیا گیا سوال ۔بے ساختہ آدھی کلاس نے قہقہہ لگایا اور کچھ نے ادھر دیکھنے پہ اکتفا کیا ۔ایک طرف سے آواز آئی ہمارا صدر ہے ۔سوال کرنے والے نے پوچھا پاکستان کا؟؟ سوال میں حیرانگی تھی ۔تو اور کیا ایران کا ،،بذلہ سنجی سے پھر جواب آیا ۔مگر کبھی سنا نہیں یہ نام نہ کبھی نیوز میں نہ کبھی کسی موقعے پہ، سوال پہ سوال اور اب جواب آیا اوہو وہ محض نام کے صدر ہیں ان کا ملک کے معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ۔تو کیا ملک ان کے بغیر چل رہا؟ہا ہا ہا ملک تو اللہ کے آسرے پہ چل رہا ۔باقی سب کھاؤ خلیفہ ہیں باریاں لگی ہوئیں ہیں سب رج رج کے لوٹو اور مل بانٹ کے کھاؤ ۔جسے موقعہ نہ ملے وہ تخت پہ بیٹھے کی ٹانگیں کھینچتا ہے کہ بس کرو اب میری باری ،اگر اگلا نہ سنے تو عوام کو استعمال کر کے ڈرامے اسٹارٹ ۔کبھی نیا پاکستان ۔تو کبھی بھابھی جان ۔کبھی الہام ہونے لگتے کبھی خوشخبری آتی،عوام کو کبھی اورنج ٹرین اور کبھی یلو ٹرین کا لالی پاپ تھما دیا جاتا اور بھولی عوام عام آدمی کی طرح عام ہو جاتی۔۔
علامہ صاحب بھی میدان میں اتر آئے ان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان گذشتہ تیس سال
سے کرپشن ،ٹیکس چوری اور کالے دھن سے بیرون ملک میں آف شور کمپنیاں بنا رہے ۔پانامہ لیکس پہ کون ان سے مواخذہ کرے گا ۔پاکستان کا آئین اور قانون کب طاقتور ہو گا ۔گویا اب لب لباب یہی ہے کہ گو نواز گو ۔لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اگلا آنے والا حکمران ملک و قوم کا وفادار ہوگا ۔۔