عین اس وقت جب ڈسٹرکٹ پریس کلب میں کشمیر بنے گا پا کستان ہو نے والے ایک سیمینار میں ایک فا ضل مقرر یہ فرما رہے تھے کہ آج کا دور ففتھ جنریشن وار کا دور ہے جہاد کے نام پر ہر گلی میں قبریں بنانے کا کیا فا ئدہ سوشل میڈیا پر ایک پو سٹ وائرل ہو رہی تھی جس میں بتایا گیا ہے کہ سا بقہ مشرقی پا کستان اور حال کے بنگلہ دیش میں نائب امیر جماعت اسلامی اور پٹنہ سے 5 بار بنگلہ دیش پا ر لیمنٹ کے رکن منتخب ہو نے والے سجا نگر کے عبد السبحان دوران حراست جیل میں انتقال کر گئے ۔ انا للہ و انا الیہ را جعون
بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حسینہ واجد نے بر سر اقتدار آ نے کے بعد اپنے ان سیاسی مخالفین کو چن چن کر مارا ہے جنہوں نے پا کستان کو دو لخت ہو نے سے بچا نے کے لئے بھارت کی مسلح جارحیت کے خلاف آواز بلند کی ۔ نصف صدی گذرنے کے بعد بھی قر با نیوں کا یہ سفر آج بھی جاری ہے ۔ نہ حسینہ واجد کا کلیجہ ٹھنڈا ہوا ہے اور نہ پا کستان اور نظریہ پا کستان سے وابستگان نے اپنا قبلہ اور کعبہ تبدیل کیا ہے ، ظلم ، ستم اور استبدد کے مقابلہ میں خلوص ، وفا اور استقامت کی ایک بے مثال تاریخ رقم ہو رہی ہے اور یہی کچھ مقبوضہ کشمیر میں گذشتہ ستر سالوں سے ہو رہا ہے ، کشمیر آور کے نام پر ہو نے والے سیمیناروں میں ایک شعر عموما سننے کو ملتا ہے
یاران جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
جنت کسی کا فر کو نہ ملی ہے نہ ملے گی
اب یہ شعر پڑھنے والوں کوکون سمجھائے ، کون آئینہ دکھائے کہ کشمیر کی اس جنت کو ہندوستان کے تنگ نظر حکمرانوں نے کیسے جہنم بنا رکھا ہے ، گذشتہ ستر برسوں میں تو جو کیا وہ کیا گذرے سال کے 5 اگست سے جو ظلم و استبداد روا رکھا ہوا ہے اس کی مثال تو آج کی جدید دنیا میں کبھی نہیں ملتی ۔ 200 دن ہو نے کو ہیں مکار ہندو نے کر فیو لگا کر وادی کشمیر کی جنت کو عملا ایک بڑی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے ۔
یہ تسلیم کرنا پڑے گا جب سے مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی ہیئت تبدیل کی ہے چین سے ہم بھی نہیں بیٹھے ۔ جہاں ایک طرف پا کستان کے وزیر اعظم عمران خان نے یو این او سمیت دنیا کے ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کو اٹھایا ہے اور کشمیر یوں پر ہو نے والے بھارتی ظلم ، زیادتی اور جبر کے خلاف بھر پور سفارت کاری کی ہے تو دوسری طرف پا کستانی قوم گذشتہ دو سو دنوں سے بھارتی جا رحیت کے خلاف سراپا احتجاج ہے ۔ گذرے دنوں میں کو ئی جمعہ ایسا نہیں گذرا جب پا کستا نیوں نے کشمیریوں کے حق میں بھارتی جا رحیت کے خلاف احتجاج نہ کیا ہو ۔
کشمیر آور کے سیمینار سے خطاب کرتے ہو ئے مقامی پرائیویٹ سکول کی خاتون ٹیچر کے اس سوال کہ "کیا ہر جمعہ کو چند پینا فلیکس لگانے اور تقاریر کر نے سے کشمیر آزاد ہو جائے گا ؟ ” ایک اور مقرر نے صورت حال پر یوں تبصرہ کیا کہ
ساحل پہ تماشائی ہر ڈوبنے والے کا
افسوس تو کرتے ہیں امداد نہیں کرتے
بعد میں آ نے والے سبھی مقرر خاتون مقرر کے اسی سوال کا جواب دینے کی کو شش کرتے نظر آئے ۔ رانا سلطان محمود ، پرویز درانی ، واحد بخش باروی ، شیخ کمال دین اور مجھ سمیت خاصے مقررین کی رائے تھی کہ کشمیر کی آ زادی کے لئے اسلام کے فلسفہ جہاد پر عمل کر نے کی ضرورت ہے ، ہماری رائے خاتون مقرر کے حق میں تھی کہ پینا فلیکس لگانے اور دو چار تقریریں مسئلہ کشمیر کا حل نہیں ،
ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیائے اسلام اور حکومت پا کستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لئے بھارتی جارحیت کے خلاف عملی اقدامات کریں ، جب کہ کچھ بعض مقررین کی رائے تھی کہ ستر سالہ لا ینحل مسئلہ کشمیر کا حل دنوں میں ممکن نہیں ۔ اور موجودہ حکومت نے جس واضع انداز میں کشمیریوں پر ہو نے والی بھارتی جارحیت اور نا انصافی کو بے نقاب کیا ہے ایسا گذشتہ ستر سالوں کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا
ڈسٹرکٹ پریس کلب میں ہو نے والے سیمینار میں سب سے اہم نکتہ تحریک انصاف کے نو نامزد ضلعی صدر افتخار بابر کھتران نے بیان کیا ان کا کہنا تھا کہ ہم غزوہ بدر میں شریک 313 کی تو بات کرتے ہیں لیکن غزوہ احد کے اس واقعہ کو بھول جاتے ہیں جب احد پہاڑ کے "درے ” کی حفاظت پر اسلامی فوج کے متعین دستے نے اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کی تو سپاہ اسلام کو خاصی پریشانی کا سا منا کر نا پڑا ، غزوہ احد کا یہ واقعہ ہ میں سبق دیتا ہے کہ بحیثیت شہری ہ میں وطن کے جس درے پر ذمہ داریاں ادا کرنا ہیں وہاں ہم پوری دیا نتداری اور فرض شناشی سے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں ۔ چا ہے ہم انتظامی افسر ہیں یا اہلکار ، سیاسی کارکن ہیں یا سماجی کارکن ، ادیب ہیں یا شاعر ، استاد ہیں یا طا لب علم ہم جو بھی ہیں اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہو ئے قوم و وطن کے استحکام ، سلامتی اور بقا کی جدو جہد کریں ۔ ۔ اگر ہم بحیثیت قوم یہ طرز عمل اپنا لیں تو یقین کریں ہمارا دشمن کبھی بھی پا کستان کی طرف میلی آ نکھ سے دیکھنے کی جرات بھی نہیں کر ے گا
سیمینار کے مہمان خصو سی ڈپٹی کمشنر اظفر سمیت سبھی نے بابر خان کی بات کی تا ئید کرتے ہو ئے پا کستانی قوم کے ہر طبقے کو اپنے اپنے میدان میں دیا نتداری اور نیک نیتی کے ساتھ اپنے اپنے "دروں ” کی حفاطت کر نے کی سوچ اور پیغام کو دہرایا ۔ تقریب کے بعد میں نے بابر خان سے گذارش کی غزوہ احد کا سب سے خوبصورت اورمنفرد پہلو سالار اعظم حضرت محمد ﷺ کا عزم راسخ اور دشمنوں کے مقابلہ میں بہادری ، للکار اور استقلال تھا اور پا کستانی قوم کو بھی بھی سنت نبوی کے عین مطابق اپنے دشمن کے مقابلے میں اسی عزم راسخ ، بہادری اور للکار کی ضرورت ہے اور میرا خیال ہے کہ یہی جذبہ اسلام کے فلسفہ جہاد کا پیغام ہے ۔
لیکن میں با بر خان کی اس بات سے بھی متفق ہوں کہ ہ میں سب ک اپنے اپنے "درے "کی حفاظت بھی کر نا ہو گی کہ مضبوط و مستحکم” درے "ہی مضبوط دفاع اور مستحکم پا کستان کی ضمانت ہیں