جن دنوں لیہ کوٹ سلطان روڈ کچی ہوا کرتی تھی ان دنوں لو گوں کی اکثریت ریل گاڑی سے سفر کیا کرتی تھی اس دور کو آپ ریلوے کا دور کہہ سکتے ہیں ریلوے سٹیشن آ باد اور صاف ستھرے اور پلیٹ فارم پر پینے کا ٹھنڈا پا نی بھی دستیاب ہوا کرتا تھا مجھے یاد ہے کہ اس زما نے میں ریلوے سٹیشن کے اسٹیشن ما سٹر کی اپنی شان ہوا کرتی تھی ریلوے کے با بو سے دوستی اور تعلق علا قہ میں معتبر ہو نے نشا نی سمجھا جاتا تھا کوٹ سلطان اسٹیشن کے باہر شہر جا نے والے کچے راستے پر ایک چھپر ہو ٹل ہوا کرتا تھا مجھے اس ہو ٹل کے سنجیدہ سے بزرگ مالک کا نام تو یاد نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ ان کے ایک بیٹے کا نام شا ئد ریاض تھا جو کوٹ سلطان ہا ئی اسکول کا ہو نہار طالب علم تھا۔
میرے ایک دوست ہیں باقر رضوی آج کل لودھراں میں مقیم ہیں ہمارے ہاں بچپن کے دوست کے لئے کچھے کے یار کی اصطلاح ا ستعمال کی جا تی ہے آپ باقر کو میرے کچھے کا یار کہہ سکتے ہیں باقر بچپن میں بہت خو بصورت گول مٹول اور لال گلال بچہ ہوا کرتا تھا اس کے والد ہا شم حسین رضوی اسٹیشن ما سٹر تھے وہ جب کوٹ سلطان میں تعینات ہو ئے تو باقر کی دوستی اور پیار نے ہمیں بھی علاقہ میں معتبر بنا دیااللہ بخشے باقر کی والدہ ایک ہمدرد پیار کر نے والی دھیمے لہجے کی ایک با وقار خو بصورت خا تون تھیں مجھ سے وہ اولاد کی طرح پیار کرتیں ۔میں ان کی محبت اور پیار کے لہجے کو آج بھی بھول نہیں پایا۔
کچی سڑک ہو نے کے سبب ٹرانسپورٹ نہ ہو نے کے برابر تھی لیکن مجھے یاد ہے کہاس زمانے میں بلوچ ٹرانسپورٹ کی ایک راکٹ بس لیہ سے کوٹ سلطان آ یا کرتی تھی کوٹ سلطان اڈہ اس زما نے میں اتنا آ باد نہیں تھا شہر جا نے والی مرکزی گلی کے نکڑ کی دوکان میں ہو ٹل ہوا کرتا تھا ہو ٹل کا مالک شیر خان پٹھان تھا اور اس کا ہوٹل بھی پٹھا نوں کی روایات کا امین تھا شام ڈھلے شیر خان کے ہوٹل میں لا لٹین روشن ہو جاتی جو کچی سڑک پر دور سے آ نے والے بس کے مسا فروں کو اڈے کنارے بسی آ بادی کا احساس دلا تی ۔ بعد میں سڑک پکی ہو جا نے کے بعد اڈے پر بندو خان سا ئیکلوں والاکی دکان اور دوستو ( دوست محمد خان ) کا ہوٹل بھی ایک خو بصورت اضا فہ تھا۔
کوٹ سلطان میں بند کے سے ذرا پہلے مرزا صاحب کی ایک آ ٹے کی چکی تھی آ ٹے کی اس چکی پر مجھے بھی چند مہینے نو کری کرنے کا مو قع ملا میں ان دنوں سا تویں یا آ ٹھویں کلاس میں پڑ ھتا تھا جب مجھے چکی آ شنا ئی ہو ئی ۔ چکی پر کام کرنے والے نو جوان مستری کا نام سعید تھا اس زما نے میں نہ تو بجلی تھی اور نہ ہی چا ئینہ چکیوں اور پیٹر انجنوں کا رواج آ یا تھا پتھر کے دو بڑے بڑے پا ٹوں سے بنی آ ٹے کی چکی چلا نے کے لئے بڑی ہارس پاور کے ڈیزل انجن استعمال کئے جاتے تھے ۔ایک دن جب سعید ایک اور آ دمی کے ساتھ مل کر انجن سٹارٹ کر کے با ہر گندم پیسنے میں مصروف تھا اور میں اندر انجن کا تیل پا نی چیک کر رہا تھا کہ ایک شخص جو دیہا توں میں برتنوں کی پھیری کا کام کرتا تھا انجن روم میں داخل ہوا اور سلام کر کے چلتے انجن کو دیکھ کرکہا ” اچھا تو یہ انجن ایسے چلتا ہے” ابھی اس کی زبان سے یہ جملہ نکلا ہی تھا کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور انجن میں چلنے والی کرینک دو ٹکڑے ہو گئی۔
ہو سکتا ہے کہ آپ بھی میری طرح بد نظری بارے ابہام کا شکار ہوں مگر ایک مکتب فکر اس بارے بہت سنجیدہ ہے میں نے تو اس واقعہ کو کو ئی نام نہیں دیا میرے نزدیک ایک اتفاق تھا جو ہو گیا لیکن سعید سمیت بہت سے لو گوں نے اسے بد نظری قرار دیا سعید کا مو قف تھا کہ بد نظری ایک حقیقت ہے اس نے کہا کہ ما ئیں بچوں کی بد نظری کا علاج سرخ مر چیں جلا کر کرتی ہیں مر چوں کو اگر عام حالات میں آگ میں جلا یا جائے تو جلنے والی مر چوں کی دھسک نا قا بل برداشت ہو تی ہے لیکن جب وہی سرخ مر چیں ما ئیں اپنے معصوم بچوں کی نظر اتارنے کے لئے جلاتی ہیں تو دھسک کا نام و نشان تک نہیں ہو تا کیوں ؟ سعید کی یہ بات سن کر میں نے بھی سو چا کہ بات تو ہے سو چنے کی۔
کوٹ سلطان پو لیس اسٹیشن میں ان دنوں چو ہدری مختیار ایس ایچ او تھے ہم نے ایک بار ایک تقریب میں ان کے ہا تھوں سے بہت سے طلبا بچوں میں کتا بیں کا پیاں اور یو نیفارم تقسیم کرا ئیں اس تقریب کی رپورٹ روزنا مہ نوائے وقت میں بھی شا ئع ہو ئی ۔ہم جب تک کوٹ سلطان رہے یہ سلسلہ چلتا رہا میری کو شش ہو تی کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کی خد مت کر سکیں مجھے یقین ہے کہاس وقت کتا بیں کا پیاں لینے والے بہت سے بچے یقینا اپنی عملی زند گی میں خا صے کا میاب رہے ہوں گے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ میرے اس چھوٹے سے عمل نے میرے بچوں کی زند گی پر بڑا مثبت اثر ڈالا میرے سارے بچوں نے بظا ہر انتہا ئی نا مسا عد حالات میں اعلی تعلیم حا صل کی۔مرزا محبوب کے ایک اور بھا ئی ہیں مرزا ایوب ۔ ہمارے بچپن کے دنوں میں وہ سعودی عرب ہوا کرتے تھے بہت محنت کی بہت کما یا سنا ہے کہ آج کل لا ہور میں ہیں اور حالات کے مدو جزر کا شکار ہیں ۔بد نصیبی کا تو قائل نہ تھا لیکن میں نے برسات میں جلتے ہو ئے گھر دیکھے ہیں میری شادی 1980میں ہو ئی اور ہم 1987 میں لیہ شفٹ ہو ئے اس وقت میرے بیٹے نعمان اور فیضان پرائمری اسکول نمبر 2 کی ابتدائی کلاسوں میں زیر تعلیم تھے ما سٹر غلام حسن اسکول کے ہیڈ ما سٹر تھے ، غلام حسن منجوٹھہ میرے بھی استاد تھے اور میرے بچوں کے پہلے استاد بھی یہی بنے کوٹ سلطان میں حبیب کتاب گھر اور حفیظ کتاب گھر کے نام سے دو کتابوں کی دکا نیں تھیں میں اپنے بچوں کی کتا بیں کا پیاں اکثر انہی سے خریدا کرتا تھا نقد بہت کم ادھار زیادہ ۔ یہ دو نوں بھا ئی میرا بڑا لحاظ کرتے اور کبھی بھی نجھے ما یوس نہ کرتے۔ جب نعمان اور فیضان نے اسکول جانا شروع کیا تو مجھے پتہ چلا کہ بہت سے بچے ایسے ہو تے ہیں جن کے پاس سلیبس کی کتا بیں نہیں ہو تیں یا کم ہو تی ہیں بعض کی یو نیفارم بہت خستہ حا لت میں ہو تی ہے یہ سب میری کہا نی تھی میں ایسے حالات سے گزرا ہوا تھا سو تب میں نے سو چا کہ اگر میں اپنے بچوں کے لئے کتابوں اور کا پیوں اور یو نیفارم کے لئے ادھار کر سکتا ہوں تو میں اسکول کے دوسرے بچوں کے لئے کیوں ادھار نہیں کر سکتا تو میں نے یہ سلسلہ شروع کر دیا میں جہاں اپنے بچوں کے لئے بستے خریدتا وہاں ایسے بچوں کے لئے جن کے والدین غریب ہو تے ان کے لئے بھی کتا بیں ، کا پیاں اور یو نیفارم خرید لیتا۔
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ میرے بچے لیہ پبلک اسکول جیسے ادارہ میں قیا مت کی ادھار پر پڑ ھتے رہے اور کبھی واجبات کی بر وقت ادائیگی نہ ہو نے کے سبب نام خارج نہیں ہوا ۔ مجھ سے کبھی کسی استاواور پرو فیسر نے بچوں کی ٹیو شن فیس طلب نہیں کی ۔مجھے اپنے بچوں کی ملاز مت کے لئے زمین کے سیاسی اور با ختیار نا خدائوں کے سا منے اپنا دامن نہیں پھیلا نا پڑا ان سے شفارش کی بھیک نہیں ما نگنا پڑی ۔۔یہ کو ئی میرا کمال ہے؟ ۔۔ نہیں قارئین محترم یہ میرا کمال نہیں۔۔۔ یہ کمال ہے اس خالق کا جو اپنے کمزور اور محتاج بندوں کی طرف سے بندوں پر کئے جا نے والے احسان کو اپنے لئے قرض حسنہ قرار دیتا ہے کھرا سچ یہی ہے کہ اپنے دامن کو اللہ کے بندوں کے لئے وسیع کر لو اللہ تمہارا دامن بھر دے گا ۔اپنے رزق میں اللہ کے بندوں کو حصہ دار بنا لو تمہاری تنگ دستی دور ہو جا ئے گی ۔ دوسروں کی خو شیوں کی خیرات ما نگو تمہارا آ نگن میں خو شیوں کی بارات اتر آ ئے گی۔