شہاب نا مہ میں جھنگ کے ڈپٹی کمشنر قد ر ت اللہ سے تو میری ملاقات ز مانہ طا لب علمی کے اوائل دور میں ہی ہو چکی تھی لیکن مظفر گڑھ کے ڈپٹی کمشنر سے میری پہلی با ضابطہ ملاقات ملتان کینٹ سٹیشن پر ہو ئی ، ، ماجرا کچھ یوں تھا کہ یہ80 کی دہا ئی کے ابتدائی سا لوں کا ذکر ہے اس زمانے میں ہم ڈاکٹر حامد نیوز ایجنسی ملتان میں محنت مزدوری کیا کرتے تھے ۔ ہمارا کام رات گئے شروع ہو تا ہمار ی ڈیوٹی امروز اخبار کے پریس سے اخبار کے بنڈل نیوز ایجنسی میں پہنچا نے کی تھی پرانے اخبار بینوں کو یقیناًروزنامہ امروز یاد ہو گا اخبار کی فراہمی رات بارہ بجے شروع ہو تی اور ہم سب اخبار ڈھونے والے لڑکوں کی ڈیوٹی بھی اسی وقت شروع ہو تی ۔ نیوز ایجنسی آ فس میں اخبار پہنچا نے کے بعد ہا کروں کو اخبار کی ترسیل کا کام ہو تا ہا کر نیوز ایجنسی کے سر کو لیشن ڈیپارٹمنٹ کو اپنے سا بقہ بل کی ادا ئیگی بارے مطمئن کر کے نیا بل بنواتا اور ہم اخبار گن گن کر ہا کروں کو دیتے یہ سارا کام صبح چھ سات بجے تک ختم ہو جاتا اور ہم فارغ ہو جاتے ۔ دن کے کچھ گھنٹے نیند پو ری کرتے اور سہہ سے رات کے نو دس بجے تک مٹر گشت کرتے ، ملتان کے مختلف مقامات سے ہو تے ہو ئے رات کے نو دس بجے ہمار ی آ وارہ گردی کا آخری پوائینٹ ملتان کینٹ سٹیشن ہو تا پلیٹ فارم نمبر ! کے ٹی سٹال سے چا ئے پینا ہماری گذرتے دن کی آخری عیا شی ہو تی چا ئے پی کر ہم دو بارہ اپنی ڈیو ٹی پر حا ضر ہو جا تے ۔ میں نیوز ایجنسی کی ملازمت کا سارا حال شب و روز زندگی کی سابقہ اقساط میں تحریر کر چکا ہوں
اس دن بھی ملتان کینٹ پر مو جود تھے یہ یاد نہیں کہ چا ئے پینے جا رہے تھے یا واپسی کا قصد تھا لیکن ریلوے پلیٹ فارم پر اس زمانے کا منظر اچحی طرح مجھے یاد ہے کہ پلیٹ فارم پر کراچی جانے کے لئے کو ئی گا ڑی آ نے والی تھی اسی لئے سبھی مسافر سا مان سمیٹے اور بچوں کو سنبھلا تے نظر آ رہے بہت سے لوگ اپنوں کو الوداع کہنے ، اور بہت سے اپنے مہما نوں کو ویلکم کر نے آ ئے ہو ئے تھے ۔ اگر آپ نے آ باد ریلوے سٹیشن دیکحے ہیں تو آ پ ما نیں گے کہ پلیٹ فارم پر آ وارہ گردی کا اپنا مزہ ہو تا ہے ، سو اس رش میں ہم بھی انسا نوں کو دیکھنے اور بندوں کو گننے میں لگے ہو ئے تھے کہ اچا نک میری نظر سادہ سی شلوار قمیض پہنے ایک نو جوان پر ٹک سی گئی اس نے وائٹ آ ف کپڑوں پر نے ہلکے کلیجی کلر کی خوبصورت سی جر سی بھی پہنی ہو ئی تھی جو اس سارے میلے میں اسے نمایاں کر رہی تھی ، مجھے اس نو جوان کا چہرہ جا نا پہچانا سا لگا ۔ ذہن پر زور دیا تو مجھے یاد آ گیا وہ مظفر گڑھ کے نئے ڈپٹی کمشنر کا مران رسول تھے ۔ میری ان سے ایک مختصر سی ملاقاتمظفر گڑھ کے ایک صحا فی دوست کے ساتھ ان کے دفتر میں ہو چکی تھی ۔ مگر یہ ملاقات بہت مختصر تھی اتنی مختصر کہ شمجھے تعارف کرانے کا بھی مو قع نہیں ملا ۔ بحیثیت ڈپٹی کمشنر کا مران رسول کی غالبا یہ پہلی تعیناتی تھی سنا یہ تھا اس سے قبل کا مران رسول گو جرانوالہ کے کسی تعلیمی ادارے میں انگلش کے پرو فیسر تھے ، مقابلے کے ا امتحان ن میں کا میاب ہو ئے کے بعد مظفر گڑھ میں ڈپٹی کمشنر تعینات کر دئے گئے اس زما نے میں لیہ مظفر گڑھ کی تحصیل تھا اور اسی کا مران رسول تحصیل لیہ کے بھی ڈپٹی کمشنر تھے ۔
کا مران رسول ایئر کنڈیشند ویٹنگ روم کے دروازے کے کی دیوار کے ساتھ کحڑے تھے پلیٹ فارم پر بہت رش تھا گاڑی آ نے میں ابھی کچھ دیر تھی میں نے انہیں پہچا نا تو میں آ گے بڑھا اور ان کے قریب جا کر اور ان کے سا منے جا کر انہیں سلام کر تے ہو ئے متو جہ کیا انہوں نے اجنبی نظروں سے مجھے دیکھتے ہو ئے میرے سلام کا جواب دیا ۔
میں نے پو چھا سر آپ کا مران رسول ہیں نا ڈی سی مظفر گڑھ ؟
جواب بہت ہی مختصر تھا ۔۔ جی
سر میرا نام انجم صحرائی ہے ۔ میں لیہ سے جر نلسٹ ہوں ۔ ایک بار آپ سے آ پ کے آ فس میں مختصر ملا قات ہو ئی تھی ۔۔ میں نے جلدی سے اپنے بارے تعارفی کلمات مکمل کئے ۔۔
اچھا ۔۔ اچھا ۔۔ کیسے ہیں آپ ؟ لیہ کیسا ہے ؟ شا ئد لیہ کا سن کر ان کی آ نکھوں کا تا ثر بد لا تھا
آ پ خیر یت سے یہاں ؟ کہیں جا رہے ہیں سر ؟ میں نے لیہ کی خیریت بتانے سے اجتناب کرتے ہو ئے پو چھا
نہیں ۔۔ میری امی آ رہی ہیں انہیں لینا ہے ۔۔ پھر مختصر سا جواب ملا
اتنی ہی دیر میں گا ڑی آ گئی میں نے خدا حافظ کہا تو مسکراتے ہو ئے بو لے کبھی مظفر گڑھ آ نا ہو تو دفتر آ ئیے گا
یہ جزل ضیاء الحق کا ابتدائی دور تھا جو نیجو وزیر اعظم بنے تو لو کل گورٹمنٹ سسٹم سا منے لا یا گیا ۔ ہو نے والے بلدیاتی انتخابات میں غازی کھر ضلع کو نسل مظفر گڑھ کے چیئرمین اور چوک اعظم لیہ سے تعلق رکھنے والے معروف آ ڑھتی چو ہدر جلال رند ھاوا وائس چیئرمین منتخب ہو ئے ۔ ملک امیر قلم اعوان اور سردار غلامفرید مرانی بھی لیہ سے ضلع کو نسل کے پہلی بار ممبر بنے ۔چوک اعظم سے منتخب ہو نے والے ایم پی اے لا لہ طا ہر رند ھاوا بھی شا ئد چو ہدری جلال کی ہی برادری کے ہیں اور انہیں کی ہی سیاست کا تسلسل ہیں ۔۔بحیثیت ڈپٹی کمشنر کوٹ سلطان بھی تشریف لا ئے مجھے یاد ہے اس زمانے میں تھل کی نہروں میں پانی کی کمی ایک بڑا ایشو تھا ایک ملاقات میں میں نے گوش گزار کیا تو انہوں نے اگلے ہفتے کوٹ سلطان تھل میں آ نے کا پروگرام رکھ لیا مو ضع شر شتہ تھل میں ڈپٹی کمشنر کی کھلی کچہری منعقد ہو ئی اور کسانوں کے اس حساس مسئلہ کو زیر بحث لا ئے اور مو قع پر احکامات جاری کئے ، جہاں تک مجھء یاد پڑتا ہے یہ کھلی کچہری سرشتہ تھل کے موضع دھاڑی مار کے قریب ہو ئی تھی
کا مران رسول وضعدار شخصیت ایک اصول پسند اور قواعد و ضوابط کے پا بند نیک نام سر کاری افسر تھے ن ترقی کرتے کرتے ڈیفنس سیکرٹری اور وفاقی سیکریٹری دا خلہ کی حیثیت سے خد مات انجام دیں ۔ دوران سروس کچھ عرصہ کے لئے تھل ڈویلپمنٹ کا ر پوریشن کے ڈائریکٹڑ بھی رہے ان دنوں میں لیہ شو گر ملز سر کار کی ملکیت تھی اسی نا طے کئی بار لیہ بھی آ ئے جب بھی آ ئے بحیثیت صحا فی ان سے ملا قات کا مو قع ملا گذشتہ انتخابات سے قبل ایکٹنگ گورٹمنٹ میں ذمہ داریوں کے حوالے سے ان کا نام بھی میڈیا میں زیر بحث رہا ۔۔
جن دنوں تھل ڈیو یلپمنٹ کا رپوریشن میں ڈا ئر یکٹر تھے تب وہ کینٹ لا ہور آ فس میں بیٹھتے تھے ۔ ان دنوں ان سے ان کے دفتر میں ملاقات کا ذکر میں شب و روز زند گی کی ایک قسط میں تفصیل سے کر چکا ہوں
اس ملاقات میں میں نے ان سے سوال کیا کہ مظفر گڑھ میں تعینا تی کے دوران آپ کس شخصیت سے زیادہ متا ثر ہو ئے کہنے لگے غازی کھر سے ۔ میں ان کا جواب سن کر بڑا حیران ہوا استفسار کیا کیوں ؟ کہنے لگے غازی کھر ایک بڑا انسان تھا اس نے ضلع کو نسل کے ایک ممبر کا ز رعی قرضہ اپنی جیب سے ادا کر کے اس کے سمن گرفتاری واپس کرا ئے ۔ ضلع کو نسل کا وہ ممبر جس نے زرعی بنک کا قرضہ ادا کرنا تھا ضلع
کو نسل میں نہ صرف ان کی متحرک اپوزیشن تھا بلکہ علاقائی سطح پر بھی ان کا شدید سیاسی مخالف تھا۔۔
باقی اگلی قسط میں