موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں سے اس وجہ سے خوش قسمت ہے کہ اسے ایسے بحرانوں کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا جن کاسامناسابقہ حکومتوں کوکرناپڑا۔سابقہ دونوں ادوارحکومت کی کارکردگی کامختصرجائزہ لیاجائے تو دونوں حکومتوں نے اپنے وقت کے حالات وواقعات کے مطابق اچھی حکومت کی۔جس وقت پیپلزپارٹی نے حکومت سنبھالی توملک میں دہشت گردی کاعفریت اپنے زوروں پرتھا۔آئے روزخودکش حملے، بم دھماکے، ڈرون حملے ہورہے تھے۔امریکاکے پاس ملک کے گیارہ ہوائی اڈے تھے۔ایک ایک دن میں ایک سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات ہورہے تھے۔ملک میں بجلی کابحران بھی اپنے عروج پرتھا۔پیپلزپارٹی نے ایک ایک کرکے امریکاسے اپنے ہوائی اڈے واپس لیے۔پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں دہشت گردوں کے خلاف متعددآپریشن کیے گئے۔اسی دورحکومت میں ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پالیسی تبدیل ہوئی۔ پاکستان نے یہ جنگ اپنی پالیسی کے مطابق لڑناشروع کی تواس کے مثبت نتائج سامنے آناشروع ہوئے ۔ امریکاپرانحصارکم کرنے اورروس سے تعلقات نئے سرے سے قائم کرنے کاآغازبھی اسی دورحکومت میں ہوا۔کئی قانونی مسائل والجھنوں کوحل کیا گیا ۔ این ایف سی ایوارڈ کامسئلہ جوکئی سالوں سے حل نہیں ہورہاتھا حل کرلیاگیا۔کئی وزارتیں اورمحکمے وفاق کے پاس تھے انہیں صوبوں کے حوالے کیاگیا۔اس سے پہلے بجلی بنانے کااختیارصرف وفاق کے پاس تھا اب صوبوں کوبھی یہ اختیاردے دیاگیا۔کسی بھی دورحکومت میں تمام مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ جب مسلم لیگ ن نے اقتدارسنبھالاتوملک کودہشت گردی اوربجلی کے شدیدبحران کاسامناتھا۔چوبیس گھنٹوں میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بجلی نہیں ہوتی تھی۔دکانداروکاریگربجلی نہ ہونے کی وجہ سے گیمیں کھیل کراورہنسی مذاق میں وقت گزاراکرتے تھے۔مسلم لیگ ن کے دورحکومت میں بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان نے اپنی پالیسی کے مطابق لڑی اوردہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشنز کیے گئے جس کے مثبت نتائج سامنے آئے۔ ملک سے دہشت گردی کاخاتمہ ہوا۔اس طرح کے واقعات کومکمل طورپرنہیں روکاجاسکتا۔کراچی میں گزشتہ تین دہائیوں سے روزانہ دس سے پندرہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہورہے تھے۔سرمایہ کاری دوسرے ممالک منتقل ہورہی تھی ۔ کراچی میں امن قائم ہوا۔پہلے ایک کال پرپوراکراچی بندہوجایاکرتاتھا اب ایساکوئی نہیں کراسکتا۔مسلم لیگ ن کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی توانائی کے منصوبوں پرکام شروع کردیا۔جس کے نتیجے میں بجلی کے بحران کاخاتمہ ہوا۔اب لوڈشیڈنگ نہیں ہورہی ہے۔اگرکبھی کبھی ایساہوتابھی ہے تووہ تکنیکی بنیادوں پرہوتاہے ۔ بجلی کے کسی بھی حوالے سے کام کرنے کی وجہ سے بجلی کی سپلائی معطل کی جاتی ہے۔ اس بات کااعتراف توموجودہ کابینہ بھی کرچکی ہے کہ اس وقت ملک میں بجلی ضرورت سے زیادہ ہے۔اسی دورحکومت میں ریلوے کوبھی بحال کیاگیا۔متعددمسافرٹرینوں کوبحال کیاگیا۔ نئی مال بردار ٹرینوں کو چلایاگیا۔محکمے کاخسارہ کم کیاگیا۔اسی دورحکومت میں عوام کوریلیف بھی دیاگیا۔ گندم کی قیمت میں پانچ سال استحکام رہا۔زرعی مداخل کی قیمتیں بھی کم کی گئیں ۔ روزمرہ کی اشیاء بھی عوام کوسستے داموں دستیاب تھیں۔روپے کی قدرمیں اضافہ ہوا۔سوناساٹھ ہزارسے کم ہوکر۴۵ہزارروپے فی تولہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ اسی دورحکومت میں سی پیک شروع ہوا۔فاٹا اصلاحات ہوئیں۔ انتخابی اصلاحات کی گئیں۔ موجودہ حکومت کوایک ہی بحران کاسامناہے اوروہ ہے معاشی بحران۔ عمران خان کی حکومت اس بحران سے نمٹنے کی اپنے طورپرکوشش کررہی ہے۔ اپنی رہائش گاہ بنی گالہ میں مڈل ایسٹ آئی کوانٹرویودیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ بہترتعلقات جاری رکھے گا کیوں کہ اس وقت پاکستان مالی مشکلات کاشکارہے اورہمیں سعودی عرب کی ضرورت ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم اس وقت مایوسی کاشکارہیں۔ملک کوبدترین معاشی بحران کاسامناہے۔آئی ایم ایف یادوست ممالک سے قرض لیے بغیرکوئی چارہ نہیں معیشت کی بہتری کے لیے سعودی عرب سے قرض لینے کے خواہش مندہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے پاس دوتین ماہ سے زیادہ کازرمبادلہ نہیں اوراس وقت دوست ممالک سے قرضوں کی اشدضرورت ہے۔پاکستان کوآنے والے مہینوں میں دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ہمیں فوری طورپرسعودی عرب سے قرض لینے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض میں تین روزہ سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ ہماری حکومت کوزرمبادلہ کے ذخائرمیں کمی کاسامناہے۔کوشش ہے کہ دوست ملکوں سے بھی قرض حاصل کیاجاسکے۔عمران خان نے کہا کہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزیدقرضوں کی ضرورت ہے۔ہم نے قرض کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کیاہے۔عمران خان کاکہناہے کہ اشرافیہ بدعنوانی میں ملوث ہوتی ہے۔کرپشن ملکوں میں ادارے تباہ کرتی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں اقتدارمیں آئے ساٹھ دن ہوئے ہیں ہمیں فوری طورپرکرنٹ خسارے کے مسئلے کاسامناہے ہمیں برآمدات بڑھانی ہیں تاکہ زرمبادلہ بڑھایاجاسکے۔ خورشیدشاہ کہتے ہیں کہ ملک کے معاشی حالات خطرناک رخ پرجارہے ہیں۔وزیرخزانہ اسدعمرکہتے ہیں کہ تمام مایوسیوں کوختم کریں گے۔ لسٹڈ کمپنیوں کے مسائل کوحل کریں گے۔معیشت بہترہوگی توسٹاک مارکیٹ بہترہوگی۔اسدعمرکاکہناتھا کہ میڈیامیں معیشت پربہت طوفان نظرآرہاہے اورمیڈیامیں سٹاک ماکیٹ کی صورت حال بہت خراب نظرآرہی ہے ۔مگرایساکچھ نہیں ہے ایسانہیں ہے کہ کوئی خطرے کی گھنٹی بج رہی ہو۔ملک میں معاشی بحران کیوں ہے۔ اس بحران کی ذمہ دارسابقہ حکومت کوسمجھاجاتا ہے۔ ایساسمجھنے والے غلط بھی نہیں ہیں۔اگریہ کہاجائے کہ اس معاشی بحران کی ذمہ دار سابقہ دونوں حکومتیں ہیں تویہ بھی درست ہوگا۔سابقہ حکومتیں اس وجہ سے اس بحران کی ذمہ دارنہیں جس وجہ سے سمجھاجارہا ہے بلکہ وہ کس وجہ سے ذمہ دارہیں یہ یاد دلانے سے پہلے کچھ اس بحران کی کچھ اوروجوہات پربھی نظرڈال لیتے ہیں۔تھرکول منصوبے کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اربوں روپے پتوں کی طرح بانٹے گئے تین میگاواٹ بجلی نہیں ملی۔۵۴ ارب روپے کاقرضہ معاف کرایاگیا۔عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سالانہ چارسوبتیس ارب روپے کی سگریٹ نوشی کی جاتی ہے۔ ایک خبریہ بھی ہے کہ محکمہ ڈاک کاخسارہ پانچ ارب سے تجاوزکرگیا۔امریکاکہتاہے کہ پاکستان کی مشکل اقتصادی صورت حال کی وجہ چینی قرضے ہیں۔چین نے امریکاکاموقف مستردکرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے معاشی بحران کی وجہ سی پیک قرضے نہیں ۔سی پیک دوحکومتوں کے درمیان طے تجارتی معاہدہ ہے۔قرضوں کاتناسب بہت کم ہے اتنازیادہ نہیں کہ بحران پیداہوجائے ۔ راقم الحروف توکہتا ہے کہ سی پیک سے معاشی بحران پیدانہیں ختم ہورہاہے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہوابازی میں سیکرٹری ایوی ایشن نے بتایا کہ پی آئی اے کاکل قرضہ چار سو ارب روپے تجاوزکرچکاہے ۔ جبکہ ہرماہ آپریشنل لاسزدوارب روپے زائدہیں ۔ پی آئی اے کوبیل آؤٹ پیکج بھی دیاجاچکاہے۔ اسی خسارے کی وجہ سے سابقہ حکومت اس کی نجکاری کررہی تھی کہ آسمان سرپراٹھالیاگیا اورنجکاری نہیں کرنے دی گئی۔ سپریم کورٹ میں اسی ادارے میں خسارے سے متعلق آڈٹ رپورٹ جمع کرائی گئی جس کے مطابق قومی ادارے کودسمبرسال دوہزارسترہ میں تین سوساٹھ اشاریہ ایک سوسترہ ارب روپے خسارے کاسامناتھا۔ ایک طرف توموجودہ حکومت معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے سردھڑکی بازی لگارہی ہے۔وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیاں اوربھینسیں نیلام کی جارہی ہیں۔ اخراجات کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔دوسری طرف یہ خبربھی پڑھیں کہ وزیراعلیٰ خیبرپختون خواسیکرٹریٹ کے بجٹ میں دوکروڑ ۶۵ لاکھ کااضافہ کردیاگیا ۔ جعلی بینک اکاونٹس کیس میں سپریم کورٹ میں پیش کی گئی جے آئی ٹی کی دوسری پیش رفت رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ معاملہ ایک کھرب روپے سے زائدکے حجم تک پہنچ چکاہے۔ ایک خبریہ بھی پڑھ لیں کہ مرنے والوں کے جعلی اکاؤنٹ بنانے کاانکشاف اربوں کی ٹرانزیکشن تحقیقات شروع ۔سال دوہزارچودہ میں انتقال کرجانے والے شہری کے ایک ہی بینک کی تین مختلف برانچوں میں اکاؤنٹ کھولے گئے۔ اس معاشی بحران کی سابقہ حکومتیں اس وجہ سے ذمہ دارہیں کہ سابقہ دونوں ادوارحکومت مشکلات کے دور تھے۔ اس لیے سابقہ دونوں حکومتیں اس مالی بحران کی ازخودذمہ دارنہیں ۔ دونوں ادوارحکومت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملک کاکثیرسرمایہ خرچ ہوا۔ اس بات کااعتراف وزیراعظم عمرا ن خان نے سعودی عرب میں تین روزہ سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان الفاظ میں کیا کہ پاکستان کونائن الیون کے بعددہشت گردی کے خلاف جنگ کاسامنارہا۔ اس جنگ سے ہمارے قبائلی علاقے تباہ ہوئے معیشت کونقصان پہنچا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کاخرچہ کولیشن سپورٹ فنڈکے نام سے امریکانے دیناتھا جووہ کئی جوازبنابناکرنہیں دے رہا ہے۔ مالی خسارے اورکرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی ایک وجہ دہشت گردی بھی ہے۔وزیرخزانہ اسدعمرنے ٹریڈرزکے سوالوں کاجواب دیتے ہوئے کہا کہ ملکی معیشت کے عدم استحکام کی بڑی وجہ ہم نے پاکستان میں کاروبار کرنا مشکل کردیاہے۔اسدعمرنے کہا کہ معیشت کوبہترکرنے کے لیے جدیدٹیکنالوجی کوبھی استعمال کیاجائے گا۔رئیل اسٹیٹ میں اٹھارھویں صدی کانظام چل رہا ہے اسے بہترکرنے سے معیشت میں بھی بہتری آئے گی۔پاکستان کاایک سال کاخسارہ اٹھارہ ارب ڈالرہے خسارے کوکم کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس مالی بحران کاسب سے بڑاذمہ دارامریکاہے کہ اس نے پاکستان پردہشت گردی اوردہشت گردی کے خلاف جنگ مسلط کی۔ جنگ کے اخراجات دینے سے بھی انکار کردیا ۔مسلم لیگ ن کی حکومت نے بجلی کے متعددمنصوبے مکمل کیے ۔ اس پربھی کثیرسرمایہ خرچ ہوا۔ ان منصوبوں سے بجلی کی پیداوارشروع ہوچکی ہے تواب آمدنی کا آغازبھی ہوجائے گا۔اس بحران کے ذمہ داروہ بھی ہیں جنہوں نے پاکستان کاقیمتی سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا اوروہ بھی ہیں جنہوں نے اربوں روپے کے قرضے معاف کرائے ۔ مگریہ بات بھی طے ہے کہ اس بحران کے ذمہ دارعوام نہیں ۔ اس بحران کا بدلہ عوام سے لیاجارہا ہے۔عوام کودیاگیاریلیف ختم کیاجارہا ہے۔بحران سے نمٹنے کی ضرورکوشش کی جائے مگراس کابوجھ عوام پرنہ ڈالاجائے۔
siddiqueprihar@gmail.com