والدین سے حسن سلوک اور نوجوانوں کا کردار
تحریر ۔محمد عمر شاکر
دور حاضر کے مسلمان جتنی دنیاوی لحاظ سے ترقی کر رہا ہے اخلاقی اور دینی لحاظ سے اتنا ہی پستی میں گرتا جا رہا ہے یورپ کے مادر پدر آزاد معاشرے نے مسلمان ممالک میں بھی تیزی سے پھیل رہی ہے جبکہ یورپ اور مغرب مشرقی خاندانی روایات کیطرف بڑھ رہے ہیں خالق کائنات نے انسان کو وجود بخشا اور والدین کو اس کے وجود کا ظاہری ذریعہ بنایاوالدین بچے کو دنیا میں لاتے ہے اور شب وروز محنت مشقت کر کے پال پوس کر بڑا کرتے ہیں خود بھوکے پیاسے رہ کر اولاد کا پیٹ بھرتے ہیں اپنی دکھ تکلیف بھول کر بچوں کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ جاتے ہیں اپنے بچوں کی اچھی پرورش کے لئے دن رات تگ ودو کرتے ہیں اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر اولاد کی خوشی میں خوش ہوتے ہیں اور جب یہی بچہ بڑا ہو کر اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا ہے تو والدین کو یکسر بھول کر اپنی ہی دنیا میں گم ہو جاتا ہے دور حاضر میں اولاد اتنی مصروف ہو گئی ہے کہ انکے پاس ماں باپ کے ساتھ چند پل بیتانے، انکی دلجوئی کے لئے وقت ہی نہیں ہیں جہاں دیکھو نفسا نفسی کا دور ہے وقت کے ساتھ دوڑتے دوڑتے ہم اپنے پیاروں کو کھو رہے ہیں بلاشبہ جس گھر میں والدین ہوں وہ گھر رحمت خداوندی کا آشیانہ ہوتا ہے بلاشہ ماں باپ کی دعاؤں سے بلائیں ٹلتی ہیں مسلمان کا ہر لمحہ ماں باپ کے لئے وقف کیا گیا ہے حتی کہ عمر بھر کی عبادت و ریاضت اور نیکیاں والدین کی رضا سے مشروط ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :’’اور تمھارے پروردگا کا ارشاد ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کیساتھ بھلائی کرتے رہو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور ان سے ادب کے ساتھ بات کرنا اور عجز و نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور انکے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے) پرورش کیا تو بھی ان پر رحمت فرما”(سورۃبنی اسرائیل) احادیث مبارکہ میں بھیوالدین سے حسن سلوک کے بارے بار بار نبی آخرزمان ﷺ نے حکم فرمایا ۔ہمیں چاہیے کہ اپنے والدین کی عزت کریں اور انہیں وہ مقام وہ رتبہ دیں جس کے وہ اصل حقدار ہیں والدین اولاد کو اس امید پر پڑھا لکھا کر اس قابل بناتے ہیں کہ جب وہ خود بوڑھے، کمزور اور ناتواں ہوجائیں تو انکی اولاد بوڑھے کندھوں کا سہارا بنے گی مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے معاشرے میں بوڑھے والدین کی اکثریت ناقابل تحریر حد تک انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں انکے لخت جگر انہیں تنہا چھوڑ کر اپنا الگ آشیانہ بنالیتے ہے اور انہیں تنہا روتا سسکتا چھوڑ دیتے ہیں انتہائی افسوس کی بات ہے ایک باپ دس بچوں کی کفالت کر سکتا ہے مگر دس بچے مل کر بھی ایک والد کو نہیں پال سکتے۔ارشاد نبوی ہے کہ:’’وہ شخص ذلیل ہوا، ذلیل ہوا جس نے والدین کا بڑھاپا پایا اور دونوں(یا ان میں سے ایک جو بھی زندہ ہو) کی خدمت کر کے جنت میں نہ پہنچ جائے”۔قرآن وحدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل ہے ماں باپ کے نافرمان کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا چاہے اس عمل کا تعلق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے ہو یاد رکھیے آج جیسا سلوک آپ اپنے والدین کے ساتھ کریں گے آنے والے وقت میں آپکی اولاد بھی آپکے ساتھ وہی سلوک کرے گی اس لئے ابھی سے سنبھل جائیے اور اپنے والدین کا احترام کریں انکی خدمت کریں تاکہ انکے دل سے ہمیشہ آپ کے لئے دعائیں نکلیں نوجوانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ والدین کی خدمت سے ہیوہ دین و دنیا میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور آپکے ھاتھ سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی فرمانبرداری کرنے والا بنائے اور ہماری اولاد کو بھی ان حقوق کی ادائیگی کرنے والا بنائے علما ء کرام کالم نگاروں اور پالیسی میکروں کو چاہیے کہ ایسے وعظ کیا کریں ایسی تحریریں اور ایسی پالیسیاں ترتیب دیں کہ نوجوان اسلامی تعلیمات کے مطابق والدین کیساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے پاکستانی معاشرے کو ایسا معاشرہ بنائیں جہاں کوئی اولڈ ہوم نہ ہو اور مشرقی رویات کے تحت خاندانی نظام ہی بحال رہے ۔