وہ دروازے سے ٹیک لگائے کھڑا تھا اس کے چہرے پر تھکن اور پر یشانی نمایاں تھی میں اسے دیکھ کر بے ساختہ مسکرادیا اور بیڈ کے ساتھ رکھی ہو ئی کرسی کی طرف اشارہ کر تے ہو ئے آ ؤ بیٹھو نا کھڑے کیوں ہو ؟اور اسلم جو خاصی دیر سے کھڑا گلاب کے پھول کی تفشیش بھگتا رہا تھا اچھا جی کہتے ہو ئے جلدی سے کر سی پر بیٹھ گیا اب اس کے مسکرانے کی باری تھی سو وہ بادلوں کا سفید ہیو لہ مسکراتا ہوا میری جانب بڑھا ۔۔میرے کان میں سر گوشی سنائی دی ۔۔ یہ گلاب تو میں لا یا تھا اور وہ ہیو لہ اسلم کے دائیں جا نب آ کے ٹہر گیا۔
اچا نک نہ معلوم کیا ہوا کہ اسلم نے اپنی قمیض کے بٹن کھو لے اور ہو نٹوں سے سینے پر پھو نکیں مارتے ہو ئے بولا سر گرمی بہت ہے کمرے میں، دل بہت گھبرا رہا ہے ابھی آتا ہوں یہ کہتے ہو ئے کمرے سے باہر نکل گیا ۔کرسی خالی ہو گئی اور ہمزاد صاحب اپنے لبوں پر شرارت بھری مسکراہٹ بکھیرتے ہو ئے کرسی نشیں ہو گئے
سر جی یہ تو اچھی بات نہیں آج آپ نے اسلم کو پریشان کیا کل کسی اور کی باری آ ئے گی ۔ ایسے کیسے کام چلے گا ؟ میں نے دھیمے لہجے میں شکا یت کی
نہیں دوست ایسا کچھ نہیں ہو گا ۔۔
اصل بات یہ ہے کہ تم میرے عادی نہیں ہو نا ، یہاں کمپیوٹر بھی نہیں تمہارے پاس کہ ہم آپس میں چیٹنگ کر سکیں۔اب تو رابطہ کا ایک ہی ذریعہ ہے میرے اور تمہارے پاس کہ تمہیں میری کہی بات سرگوشی بن کے سنائی دے اور تم بھی خا موش رہتے ہو ئے سوچ کی سر گوشی میں مجھے سوال یا جواب کرو ۔ ویسے تمہارے پاس ایک اور آپشن بھی ہے بات کرنے کا کہ تم بلند یا دھیمے لہجے میں بات کرو جیسے ابھی تم نے کیا ۔ لیکن ایسے بو لنا تمہارے لئے زیادہ پریشانی کا سبب ہو گا لوگ جب تمہیں خود کلامی کرتے دیکھیں گے تو وہ تمہیں پاگل قرار دے دیں گے ۔ حالانکہ تم مجھ سے باتیں کرو گے لیکن چو نکہ میں تمہارے علاوہ کسی اور کو نظر نہیں آ ؤں گا اس لئے وہ تمہیں خلاؤں میں گھورتے با تیں کرتے یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ بڑے میاں سٹھیا گئے ہیں اور عقل سے پیدل ہو گئے ہیں۔۔۔ استہزائیہ انداز میں کہتے ہوئے اس نے حسب عادت دائیں آ نکھ بند کر کے مجھے اپنا نشا نہ بنایا ۔
یہ تو شکر کرو میں نے اسلم کو باہر بھیج دیا ہے وگرنہ تمہیں خود کلامی کرتے ہو ئے وہ بے چارہ اور زیادہ پر یشان ہو جاتا ۔یہ کہتے ہو ئے اس نے اپنی بات مکمل کی
ہوں ۔۔۔اچھا یہ بتاؤ کہ تم نے اسلم کو کیسے احساس دلا یا کہ وہ کمرے سے با ہر چلا جائے میری سوچ میں سوال ابھرا
یہ کو ئی سوال ہے ؟ یار تمہاری دنیا میں حاضرات کی حاضری کے وقت ایسا ہی ہو تا ہے ۔۔ میرے سوال کے جواب میں مجھے سر گو شی سنا ئی دی
یہ حا ضرات کی حا ضری ۔۔ یہ کیا ہو تی ہے ؟ میں نے مکرر سوال کیا
ہاں تمہاری دنیا میں عامل جب تسخیر کی گئی ماورائی قو توں کے لئے حا ضری کا عمل کرتے ہیں تب ایسا ہو تا ہے ۔۔ معمول کا سر بھاری ہو جاتاہے ۔آ نکھیں پھٹنے لگتیں ہیں ، بعض اوقات کندھوں پر زور پڑنے لگتا ہے ۔ آ نکھوں کے سامنے بجلی جیسی چمک آ جاتی ہے ، دماغ سن ہو جاتا ہے اور کبھی کبھار گرمی یا سردی کا احساس بڑھ جاتا ہے ۔ میرے آ نے سے ماحول کی کیفیت بد لی اور اس تبدیلی کے احساس نے اسلم کو بے چین کر دیا اور وہ کمرے سے چلا گیا ۔ اس نے تفصیلی جواب سے مجھے سمجھانے کی کو شش کی ۔
حاضرات کی حا ضری کے ذکر پر مجھے یاد آ گیا ہمارے ایک دوست تھے قاری صاحب ۔۔ قاری صاحب محلے کی مسجد میں امام بھی تھے اور روحانی علاج کیا کرتے تھے اور تعویز دیا کرتے تھے ۔۔ ان کے بارے مشہور تھا کہ کئی ماورائی قو تیں اان کے تا بع ہیں او ر وہ لوگوں کے روحانی علاج اور ان کے مسائل و مشکلات کے حل کے لئے حاضرات کی حا ضری بھی کراتے ہیں میں نے تو انہیں یہ عمل کرتے کبھی نہیں دیکھا لیکن سنا تھا کہ وہ کسی بچے کو اپنا معمول بناکر حا ضری کراتے ہیں ۔ بہت سے ستم رسیدہ مردوزن تعویز ، دم درود کا پانی لینے اور اپنے نا معلوم ، دشمنوں ، چوروں کی نشا ندہی ،سنگدل محبوب کواپنے قد موں میں لا نے اور بے وفا شو ہروں کو راہ راست پر لانے کے لئے حاضری کرانے قاری صاحب کے آ ستانے پر جایا کرتے تھے ۔چلیں یہ قصہ پھر سہی ۔۔۔
صحیح ۔۔ مگر ایک بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی ۔۔ میں نے نیلا با با سے رہنمائی چا ہی
مجھے پتہ ہے جو بات تمہیں سمجھ نہیںآ رہی ۔۔ سر گو شی ابھری ۔۔ یہی نا کہ تم نے تو اپنے ہمزاد کی تسخیر اور حا ضری کے لئے کو ئی عمل ہی نہیں کیا تو جب تم نے مجھے بلایا ہی نہیں ۔۔پھر میں کیوں آ گیا ۔۔ یہی بات ہے نا ؟ اس نے زیر لب مسکراتے ہو ئے کہا
ہاں یہی بات ہے ۔۔ میں یہی سوچ رہا ہوں ۔۔ میں نے اسے تکتے ہو ئے ہاں میں سر ہلایا
اچھا ایک بات بتاؤ تمہیں اپنا وہ خواب یاد ہے جو تم نے بچپن میں دیکھا تھا اس وقت جب ماں جی حیات تھیں
کون سا خواب ؟
یاد کرو۔۔۔ تم نے بچپن کا وہ خواب خاندان کے بہت سے لو گوں اور ایک آ دھ دو ستوں کو سنایا بھی ہے ۔۔۔ بچپن میں تم ان ریت کے ٹیلوں پر بہت گشت کیا کرتے تھے ۔ خا ص طور پر جب تم سبق یاد نہ ہو نے پر سکول سے بھاگتے تھے تب یہی ریت کے ٹیلے تمہاری پناہ گاہ بنتے تھے ۔۔ یاد کرو گے تو یقیناًتمہیں یاد آ جا ئے گا ۔ اس نے ا مذاق اڑانے کے سے انداز میں جواب دیا ۔
مجھے تو کچھ یاد نہیں آ رہا ۔۔ کون سا خواب اور کون سے ریت کے ٹیلے ۔۔ تم خوامخواہ سسپنس پیدا کر کے مجھے پر یشان کر رہے ہو ۔۔ میں نے اکتائے ہو ئے سو چا ۔۔
نہیں میں تمہیں پریشان نہیں کر رہا ۔ تمہیں خواب یاد آ گیا تو بہت سے معاملات حل ہو جا ئیں گے ۔۔ اس کی سر گو شی میرے کا نوں میں سنا ئی دی
تبھی ہسپتال کی مسجد سے آ ذان فجر سنائی دی ۔۔ اذان سنتے ہی اس نے کر سی چھوڑ دی ۔۔ او کے نماز کا وقت ہو گیا ہے اب میں چلتا ہوں ۔۔۔ تم بھی نماز کی تیاری کرو ۔۔ میں نے بھی پڑھنی ہے ۔۔ اور ہاں ہو سکے تو ان ریت کے ٹیلوں کو یاد ضرور کرنا تمہیں بچپن میں دیکھا ہوا خواب یاد آ جا ئے گا ۔۔ یہ کہتے ہو ئے نیلا با باکمرے سے غائب ہو گیا
اس کے جاتے ہی اسلم آ گیا ۔۔ کیسی طبیعت ہے تمہاری ۔۔ کیا ہو گیا تھا تمہیں ؟ میں نے پو چھا
پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا ۔۔ کر سی پر بیٹھتے ہی مجھے ایسا لگا جیسے میرے دو نوں کندھے کسی بھاری بوجھ سے دبے جا رہے ہوں ، آ نکھیں درد کر نے اور جی گھبرانے لگا تھا اچا نک ۔۔ اسی لئے میں کمرے سے با ہر نکل گیا ۔۔ کھلی فضا میں جاتے ہی طبیعت بحال ہو گئی ۔۔
صحیح ۔۔ سر جی ہسپتال کی حالت ہی ایسی ہے اچھا بھلا صحت مند بندہ بیمار ہو جاتا ہسپتال آ کے ۔۔ اسلم نے اپنی بات مکمل کی ۔۔ ہسپتال بارے اسلم کا تبصرہ سن کر میں خا موش رہا ۔۔ میں نے آ نکھیں مو ند لیں اور ذہن کی میموری میں بچپن کا وہ خواب تلاش کر نے لگا جس بارے نیلا با با اشارہ کر گیا تھا۔۔ اور پھر مجھے وہ” ریت کے ٹیلے” یاد آ گئے جو بچپن میں دیکھے گئے اس خواب کا مرکز تھے جس کا اشارہ "نیلا بابا "کر گیا تھا ۔۔۔باقی اگلی قسط میں
ضرور پڑھیں ۔ بات بتنگڑ قسط 6