سال 1993 کے الیکشن دوسال قبل بھاری مینڈنٹ کے ساتھ بر سر اقتدار آ نے والی جماعت مسلم لیگ ن کے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور صدر اسحق کے درمیان محاذ آرائی کا شاخشانہ تھے ان انتخابات کی کہا نی کچھ یوں ہے کہ سال 1990 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کو دو تہا ئی اکثریت کے ساتھ نہ صرف مر کز میں اقتدار ملا بلکہ پنجاب میں بھی صوبائی حکومت کا ہما مسلم لیگ ن کے سر پر آ بیٹھا۔ لیکن اس وقت کے صدر محمد اسحق خان نے صرف دو سال بعد نواز حکو مت کو کرپشن کے الزامات کے تحت قومی اسمبلی اور چاروں صو با ئی اسمبلہوں کو تحلیل کر کے وزیر اعظم کو بر طرف کر کے 14 جو لا ئی کو نئے انتخابات کرا نے کا اعلان کر دیا میاں نواز شریف نے اپنی حکو مت کی بر طرفی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جس میں مو قف اخیار کیا گیا کہ صدر پا کستان نے مسلم لیگی حکو مت کو بر طرف کر کے اور اسمبلیوں کو تحلیل کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے سپریم کورٹ نے صدر پا کستان کی طرف سے حکو مت کی بر طرفی اور اسمبلیوں کی تحلیل کئے جانے کو غیر آ ئینی اقدام قرار دیتے ہو ئے میاں نواز شریف کی حکو مت کو بحال کر دیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے حق میں فیصلہ آ نے کے بعد مسلم لیگ ن کی حکو مت کو تو بحال ہو گئی لیکن بات نہ بن سکی ۔ محترمہ بے بے نظیر بھٹو کی قیادت میں اپوزیشن کاحکو مت مخا لف اتحاد پیپلز ڈیمو کریٹک الا ئینس (پی ڈی اے ) کی احتجا جی تحریک بھی عروج پر تھی ملتان سے شروع ہو نے والا پی ڈی اے کا لا نگ مارچ اسلام آ باد تک لے جا نے کے اعلانات کئے جا رہے تھے اور پرائم منسٹر ہا ئوس اور ایوان صدر میں بھی خا صی کشید گی اور تنا ئو تھا یہ اسی زما نے کی بات ہے جب میاں نواز شریف نے قوم سے ریڈ یو اور پی ٹی وی پر خطاب کر تے ہو ئے یہ تا ریخی فقرہ کہا تھا کہ ” میں استعفی نہیں دوں گا میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا “لیکن اس تقریر کے چند ہی روز بعد 18 جو لا ئی کونہ صرف پرائم منسٹر مستعفی ہو گئے بلکہ صدر اسحق کو بھی گھر جانا پڑا۔ مسلم لیگ ن حکو مت کے خاتمہ کے بعد سینٹ کے چیئر مین وسیم سجاد قائم مقام صدر اور ورلڈ بنک کے سا بق ایگزیکٹیو معین قریشی نے نگران وزیر اعظم کے طور پر اختیارات سنبھال لئے اور 6 اکتوبر کو نئے انتخابات کا اعلان کر دیا گیا۔
نگران وزیر اعظم معین قریشی نے احتساب کا نعرہ لگا یا اور انتخا بی اصلا حات کے ذر یعے میدان سیاست کو کرپٹ سیاستدانوں سے پاک کر نے کانعر لگا یا، نگران وزیر اعظم کی جانب سیاخبارات میں شا ئع ہو نے والے اخباری بیانات میں کہا گیا کہ ما ضی میں بر سر اقتدار رہنے والی دو نوں جما عتوں مسلم لیگ اور پی پی پی نے اربوں روپے کی کرپشن کی ایک اخباری بیان میں کہا گیا کہ ما ضی میں بر سر اقتدار رہنے والی حکو متوں نے قو می خزانے کو ستر ارب روپے کا نقصان پہنچا یا۔ معین قر یشی کے دور میں ہی آ ٹا دو رو پے کلو مہنگا ہو گیا اس زما نے میں ہم بھی پی ڈی اے پلیٹ فارم سے سیا سی طور خا صے متحرک تھے اور اکتو بر میں ہو نے والے متوقع انتخابات میں صوبائی حلقہ سے حصہ لینے کے خوا ہشمند تھے اسی لئے آ ٹا مہنگا ہو نے کے ایشو پر ہم نے اپنی انتخا بی مہم کے آغاز کا پرو گرام بنایااور آٹا مہنگا ئی کے خلاف پرا چہ پٹرول پمپ کے ساتھ بھوک ہڑ تا لی کیمپ لگا لیا ۔آ ٹا مہنگا ئی کے اس ایشو پر ہمارے احتجاج کو عوامی سطح پر خا صی پذ یرا ئی ملی ہمارا احتجا جی کیمپ تقریبا حو صلہ افزا ئی کر نے والے دوستوں سے بھرا رہتا۔
چوہدری اشرف تبسم ، چوہدری منیر ، ضیاء اللہ خان ، ڈاکٹر ایم آر اختر ، فیض اللہ بھٹی ،محمد اسلم کلا سرہ۔ علی احمد ایڈووکیٹ مرحوم، ایپکا کے اسلم خان نتکا نی ، کینال ورکرز یو نین کے چو ہدری بشیر ، اے ایم او ورکشاپ کے محمد سلیمان ، عبد الکریم گجر ، شیخ یو سف کو نسلر ، فرید سیال اور میڈیا کے بیشتر دوست شب و روز ہمارے احتجاجی کیمپ میں ہمارے سا تھ رہے۔ ہمارا یہ احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ تقریبا چار روز جا ری رہا خدا کا کر نا ایسا ہوا کہ حکو مت نے آ ٹے کے نر خوں میں اضا فے کا نو ٹس لیتے ہو ئے آ ٹے کے سا بقہ نر خ بحال کر دیئے اور اس طرح ہمارا احتجاج کا میاب ہوا اور ہم سر خرو ہو ئے ۔ آ ٹے کے نر خوں میں دو رو پے کلو کے اضا فے کی واپسی ایک بڑی خبر تھی بھوک ہڑتالی کیمپ کے خا تمہ کے حوالے سے طے پا یا کہ چوک قصا باں میں ایک جلسہ کیا جا ئے ۔پرو گرام کے مطا بق جلسہ عام منعقد ہوا اور اس جلسہ میں مقررین کی اکثریت انہی دو ستوں میں سے تھی ۔ اس جلسہ کی خاص بات ضیا ئاللہ خان نا صر کی پڑھی جا نے والی ایک پنجا بی نظم تھی جس کے پہلے شعر کا دوسرا مصرعہ کچھ یوں تھا ” ا ٹا سستا رہن دیو “اس پنجا بی نظم کے علا وہ ایک اور بات جلسہ میں لمبے لمبے ڈنڈے لئے پو لیس کے وہ جوان تھے جن کی تعداد جلسے کے شر کاء سے زیا دہ تھی۔
انتخا بی شیڈول کا اعلان ہوا تو ہم بھی میدان میں مو جود تھے مطا بق کا غذات نا مزدگی کے بعد کا غذات کی چھان بین کے دن اعتراضات کی سما عت کے دوران ریٹرننگ آ فیسر ذو الفقار ملک جو ایڈ یشنل سیشن جج تھے نے ہم امید واروں سے پو چھا کہ کسی کو کسی پر کو ئی اعتراض ، سب خا موش رہے مگر ہم نے اپنے ہا تھ میں پکڑے ہو ئے فا ئل کور سے ہا تھ سے لکھی ہو ئی ایک در خواست نکا لی اور پیش کر تے ہو ئے عرض کیا کہ ہمیں اعتراض ہے امید واروں میں مسلم لیگ کے ملک غلام حیدر تھند جو قو می اور صو با ئی دو حلقوں سے امیدوار تھے پی پی پی کے مہر فضل حسین سمرا کے علا وہ ہم جیسے امیدوار بھی بہت سے تھے ، ریٹرننگ آ فیسر نے میری در خواست وصول کی پڑھی اور حکم سنا یا کہ آ دھے گھنٹے بعد سما عت کریں گے ۔درخواست میں کیا لکھا ہے ؟ شا ید غلام حیدر تھند پر اعتراضات کئے ہوں گے ؟یار ان جیسے لوگوں نے تو الیکشن کومذاق بنا رکھا ہے َ دیکھتے ہیں کیا ہو گا ؟ یہ تھیں وہ چہ میگو ئیاں جو اس آدھے گھنٹے میں ہمیں سننے کو ملیں چند دوستوں نے ہم بھی پو چھا کہ یار عمرو عیارتم نے اپنی زنبیل سے کیا نکال کر آر او کو دیا ہے مگر ہم مسکرا دیئے اور چپ رہے۔
ٹھیک آ دھے گھنٹے بعد ہمارے نام کی آواز پڑی تو ہم ریٹرننگ آ فیسر کی عدالت میں پیش ہو گئے یہ بتاتا چلوں اس زما نے میں ضلعی کچہریاں مو جودہ نوز شریف ہسپتال کی بلڈ نگ میں ہوا کر تی تھیں۔ کمرہ عدالت کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ آر او صاحب نے میرا نام لے کر پو چھا۔۔ کیا یہ در خواست آپ نے دی ہے ؟ جی میں نے جواب دیا بتا ئیں آ پ کے کیا اعتراضات ہیں ؟ سر ! مجھے جو اعتراضات ہیں وہ میں نے اپنی در خواست میں تحریر کر دیئے ہیں
آپ نے اپنی در خواست میں کیا اعتراض لگا ئے ہیں بیان کریں
سر۔ میں نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہو ئے کہا ہمارے ملک کے نگران وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ما ضی میں بر سر اقتدار رہنے والی پا رٹیوں نے قو می خزا نے سے اربوں کی لوٹ مار کی ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ مسلم لیگ اور پی پی پی کی سا بقہ حکو متوں نے قو می خزا نے میں اربوں کی کرپشن کی ،۔ اگر ایسا ہے اور نگران وزیر اعظم جھوٹ نہیں بول رہے تو آ ئین پا کستان کے مطا بق کوئی کرپٹ جماعت اور کو ئی کرپٹ امیدوار انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔
ایک اخباری رپقرٹ کے مطابق سابقہ حکومتوں نے اپنے حامیوں کے ایک ارب سے زا ئد قرضے معاف کئے اور سیاسی اقربا پروری کرتے ہو ئے 60 ارب سے زیادہ قر ضے اپنے حما یتوں میں تقسیم کئے لہذا استدعا ہے کہ ان کرپٹ جما عتوں کے امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے سے رو کا جا ئے خدا جھوٹ نہ بلوائے میں نے عدالت کے سا منے شا ید پون گھنٹے سے زیادہ اپنے معروضات پیش کئے میں نے امید واروں کی جانب سے گذ شتہ پا نچ پا نچ سالوں کے واپڈا بلوں اور زر عی قر ضوں کی انتخابی شیڈول کے بعد ادا ئیگی کی نشا ند ہی کر تے ہو ئے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ ایک عام آدمی کا واپڈا میٹر تو ایک ماہ کے بل کی عدم ادا ئیگی پر کاٹ دیا جاتا ہے اور ان پیشہ ور سیا ستدانوں کو سالوں کو ئی نہیں پو چھتا اور جناب دیکھیں یہ زر عی قر ضے لا کھوں کے زر عی قر ضے جو سالوں کے ڈوبے ہو ئے تھے صرف الیکشن میں حصہ لینے کے لئے آج ادا کئے جا رہے ہیں لیکن کیا ریا ست یہ سہو لت عام کا شتکار کو دیتی ہے ، نہیں جناب عام کا شتکار کے ذمہ اگر پانچ ہزار رو پے کا سرکاری قرض بھی ہو تو چا ہے حالات کیسے بھی ہوں ژ الہ باری نے اس کی فصلیں تباہ کر دی ہوں یا سیلاب اس کے مال و اسباب کو بہا کر لے گیا ہو
سرکار اسے کو ئی رعا ئت نہیں دیتی بنک اور محکمہ مال کے ریکوری افسران اس بے چا رے کی زند گی عذاب کر دیتے ہیں مہنگا ئی اور بے روز گاری نے عام آدمی کی زند گی اجیرن کر دی ہے سر کاری ہسپتالوں میں مریضوں کے لئے اسپرین کی گو لی تک نہیں ملتی ۔ عام آدمی کے بچے قبرستان میں بنے ایک کمرے پر مشتمل بغیر چار دیواری کے سکو لوں میں پڑ ھنے پر مجبور ہیں محکمہ مال ، پو لیس واپڈا سمیت ہر سر کاری محکمے میں رشوت شفارش ما فیا غریب عوام کا لہو چوس رہا ہے سر کاری ملاز متیں اندھے کی ریوڑیوں کی طرح با نٹی جا رہی ہیں مگر یہ سب ظلم استحصال اور جبر کے با وجود ان پیشہ ور سیا ستدانوں کے اللے تللوں کا کوئی حساب ہی نہیں ۔ میری یہ بے سروپا اور جذباتی تقریر تقریبا پون گھنٹے جا ری رہی عدالت نے بڑی تو جہ اور دلچسپی کے ساتھ میری گفتگو سنی میری گفتگو کے بعد آر او نے پو چھا کہ کو ئی ان کے جواب میں کچھ کہنا چا ہیں گے۔ سبھی خا موش رہے نہ مسلم لیگ کا امیدوار بولا اور نہ ہی پی پی پی والوں کے پاس کہنے کو کچھ تھا ۔حکم ہوا کہ تھوڑی دیر میں عدالت فیصلہ سنا ئے گی۔
عدالت بر خواست ہو نے کے بعد میں کمرہ عدالت سے باہر نکلا تو سیا سی کار کنوں کے ایک ہجوم نے مجھے گھیر لیا یہ سیا سی کارکن میرے سا تھی نہیں تھے ان سیا سی کار کنوں کا تعلق ان سیا سی پار ٹیوں سے تھا جن کے خلاف میں نے گفتگو کی تھی سبھی مجھے گلے مل رہے تھے میرا حو صلہ بڑھا رہے تھے وہ خوش تھے کہ کسی نے تو جرا ت کی کسی نے تو عام آدمی کی بات کی ۔ کچھ وقت گذرنے کے بعد ہم نے عدالت کے ریڈر سے مذ کورہ درخواست پر دیئے گئے فیصلہ بارے دریا فت کیا تو پتہ چلا کہ آر او صاحب نے اپنی شفارشات کے ساتھ میری درخواست بغرض کاروائی الیکشن کمیشن آ ف پا کستان کو بھجوا دی ہے چو نکہ انہیں سیا سی پار ٹیوں کے خلاف سما عت اختیار ہی نہیں تھا۔۔ اور ہم آج 22 سال گذر جا نے کے بعد بھی آراو کو دی گئی اعتراضات پر مشتمل اپنی درخواست پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف کی جانے والی کاروائی سے بے خبرہیں۔ با قی آ ئیندہ قسط میں