اگر آپ کو یاد ہو تو ڈیڑھ ماہ قبل ہم شب و روز زند گی کی سا بقہ قسط 46میں سال 1997 میں ہو نے والے الیکشن کے انتخابی مہم کے حوالہ سے پہاڑ پوڑ سے لیہ تک کئے جانے والے چار روزہ احتجاجی پیدل مارچ کی یا دیں تازہ کر رہے تھے ایک ماہ کی طویل رخصت کے شب و روز سعودی عرب میں گذرے جن کا کچھ مختصر سا احوال آپ میرے گذ شتہ کالم ” جسے چا ہا در پہ بلا لیا ” میں پڑھ ہی چکے ہیں آئیے اب آ گے چلیں ۔۔ ہمارا قا فلہ جمن شاہ بند سے تھوڑا آ گے تھا کہ ایک جیپ آ کر میرے پاس رکی ۔ جیپ میں ملک افتخار جکھڑ تھے جو پرویز مشرف دور میں تحصیل کو نسل لیہ کے ناظم بھی رہے ۔ اس زما نے میں ملک افتخار جکھڑ کے عین شباب کا دور تھا یہ صرف اللہ کا ہی کرم رہا کہ شدید سیاسی نظریاتی اختلاف رائے اور تنقید کے با وجود میرے ہم عصر سیاستدانوں اور ان کے نوجوانوں سے ہمیشہ میرا ادب اور احترام کا رشتہ رہا ہے ۔ اللہ بخشے وقار حسن جکھڑ کو وہ میرے بہت ہی عزیز تھے افتخار جکھڑ نے جیپ روکی اور اتر کر میرے پاس آ گئے بڑی گرم جو شی سے ملے سلام دعا کے بعد کہنے لگے صحرائی صاحب آپ پیدل چل رہے ہیں تم ہمارے بزرگ دوست ہو یہ دیکھ کر ہمیں دکھ ہو تا ہے میں تمہیں ایک ڈالہ دیتا ہوں الیکشن مہم کے لئے تم اپنی الیکشن مہم جیسے چا ہے کرو مجھے کو ئی اعتراض نہیں ہو گا
لیکن تم پیدل نہ چلو میں ملک کی بات سن کر مسکرا دیا میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہو ئے کہا کہ میں تو پیدل مارچ کر ہی اس لئے رہا ہوں کہ پیدل چلنے والوں کو آ گہی اور شعور دے سکوں ان کے ووٹ کی قوت کا ۔ میری یہ بات سن کر ملک نے یہ کہتے ہو ئے کہ تمہاری مرضی جیپ آ گے بڑ ھا دی۔ تیسر ے دن ساڑھے بارہ بجے ہوں گے جب ہم لوگ رحمان آباد میں تھے کہ ایک دوست نے ہمیں یاد دلا یا کہ آج کا غذات نا مزدگی کی جانچ پڑتال بھی ہے یہ سنتے ہی میں نے شیرخان جو میرے تجویز کنندہ بھی تھے سے کہا کہ وہ ڈسٹرکٹ کورٹس چلے جا ئیں اور ریٹرننگ آ فیسر کے دفتر میں پیش ہو کر کاغذات کے جانچ پڑتال کے عمل میں شریک ہوں ۔میں نے شفیق میو سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتا یا کہ وہ پی ٹی سی ایل کے بل کی انسالمنٹ کرا کے جمع کرا چکے ہیں اور انہوں نے محکمہ کی طرف سے جاری ہو نے والا NOC بھی ریٹر ننگ آ فیسر کے دفتر میں جمع کرا دیا ہے ۔ ہم نے ایک موٹر سا ئیکل والے سے لفٹ ما نگی اور شیرخان کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال میں شریک ہو نے کے لئے سول کورٹس میں ریٹرننگ آ فیسیر کے دفتر میں چلے گئے
اس وقت ہمار اپیدل قا فلہ کوٹلہ قریشی کے قریب تھا ۔ تقریبا ایک گھنٹہ کے بعدجب ہم بائی پاس چوک پر پہنچے نہ صرف لیہ بلکہ دیگر علا قوں کے بہت سے دوست وہاں ہمارے منتظر تھے جن میں لیہ کے ضیاء اللہ ناصر ، اسحق رحمی ، جاوید لودھی ،چوک اعظم کے غلام عباس اور کروڑ کے طارق پہاڑ سمیت کئی صحافی دوست اور کئی سیاسی کارکن مجھے یاد ہیں ۔ ہم ابھی ان دو ستوں سے مل ہی رہے تھے کہ کچھ ہی دیر میں شیر خان اور شفیق میو بھی وہاں پہنچ گئے اور ہمیں بتایا کہ ریٹرننگ آ فیسر نے ہمارے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے ہیں میں نے وجہ پو چھی تو شیر خان کہنے لگے کہ وہ کہتے ہیں کہ آپ نے پی ٹی سی ایل کی طرف سےNOC بروقت جمع نہیں کرایا میں نے کہاکہ اگر ایسا ہوا ہے تو پھر ٹھیک ہوا ہے ۔ شیر خان بو لے کہ یہ غلط ہے شفیق میو نے محکمہ پی ٹی سی ایک کی جانب سے جاری ہو نے والا NOC صبح گیارہ بجے ریڈر کے پاس جمع کرادیا تھا لیکن شا ئد جب ہماری پکار ہو ئی تو متعلقہ کلرک صاحب کو یاد نہ رہا یا وہ بھول گئے
ریٹرننگ آ فیسر نے ہمارے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے میں نے شیر خان سے کہا کہ آپ نے یہ سب ریٹرننگ آ فیسر کو بتانا تھا تو شیرخان کہنے لگے کہ میں نے ایسا کیا لیکن کسی نے میری ایک نہ سنی اس زیادتی پر میں نے احتجاج کیا تو مجھے گرفتار کر لینے کی دھمکی دی گئی ۔ ایسے میں میں کیا کرتا میں خامو شی سے لوٹ آیا ۔ بڑی عجیب صورت حال تھی چار دن کی پیدل مسا فت سے ہمارے پیر تو سوجے ہو ئے تھے لیکن ہم بہت خوش تھے کہ ہماری یہ منفرد الیکشن مہم خا صی کامیاب رہی تھی ہمارا خیال تھا کہ ہم نے اس منفرد اور بھرپور طریقہ سے چلا ئی گئی الیکشن مہم کے سبب اپنی بات حلقہ کے لوگوں تک پہنچانے میں خا صے کا میاب رہے ہیں اور ہمیں امید تھی کہ اس بات ہاریں گے تو سہی مگر اس ہار میں بھی مستقل کے لئے ایک امید اور ایک پیغام ہو گا لیکن یہاں سب کچھ الٹا ہو رہا تھا ہمارے کا غذات نامزدگی ہی مسترد کر دیئے گئے تھے سبھی دوست اس صورت حال پر بڑے دکھی اور افسردہ تھے طے پا یا کہ سول کورٹس جا یا جا ئے
ریٹرننگ آ فیسر سے دوبارہ درخوست کی جائے سو ہم ایک قا فلہ کی صورت میں سول کورٹس پہنچے ابھی تین بجے تھے اور ریٹرننگ آ فیسر صاحب دفتر میں مو جود تھے پو لیس کی خا صی نفری بھی دفتر کے باہر مو جود تھی میں ریٹرننگ آ فیسر صاحب سے ملا اور انہیں ساری صورت حال بتا ئی میں نے ان کی خد مت میں عرض کیا کہ محکمہ پی ٹی سی ایل کی جانب سے جاری کیا جانے والاNOCآج صبح دفتر میں جمع کرادیا گیا ہے کاغذات نامزدگی کے مسترد کئے جانے کا کوئی جواز نہیں بنتا میری ساری گفتگو سننے کے بعد ریٹرننگ آ فیسر بو لے میں فیصلہ انا ئونس کر چکا ہوں آپ اپیل میں چلے جا ئیں میں یہ سن کرخامو شی سے باہر نکل آیا باہر آکر دوستوں کو میں نے بتایا تو سبھی بہت پریشان ہو ئے چند دوستوں نے مشورہ دیا کہ ہا ئیکورٹ اپیل کی جائے مگر مجھے ہو نے والے انتخابات میں متوقع رزلٹ کا ادراک تھا تھا اور نہ ہی میرے پاس ہزاروں تھے کہ میں ہائیکورٹ میں اپیل کر سکتا
سو میں نے کہا کہ ہم اپیل میں نہیں جا ئیں گے ہم عوام میں ووٹ کی اہمیت اور ان کے مسائل کے حوالہ سے شعورو آ گہی کی مہم چلا رہے ہیں اس سلسلہ میں جتنا ہم کر سکتے ہیں اتنا ہی کریں گے سو ہم انتخاب لڑے بغیر اپنی یہ مہم جاری رکھیں گے احتجاجی پیدل مارچ کے آخری دن کے شیڈول کے مطابق آ خری کارنر میٹنگ شمالی چوک صدر بازار پر ہو نا تھی ہم سول کورٹس سے نکلے اور جنوبی صدر بازار سے دوکانداروں سے ملتے ہو ئے سے ہو ئے شمالی چوک پہنچے جہاں پو لیس کے جوان لمبی لمبی لا ٹھیوں سمیت مو جود تھے لیکن کو ئی بد مز گی نہیں ہو ئی صدر بازار کے شما لی چوک پر کارنر مینٹنگ میں شیر خان اور میں نے بھر پور احتجاجی خطاب کیا لو گوں کا خا صا مجمع تھا اور کا غذات مسترد کئے جا نے کا دکھ بھی بہت تھا سو شیر خان اور میں نے بھر پور احتجاجی خطاب کیا۔
پرویز مشرف دور میں بھی ہم نے یہ انتخابی شغل جا ری رکھنے کا فیصلہ کیا طے یہ پا یا کہ ہو نے والے بلد یا تی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں میری اہلیہ مسز کنیز فاطمہ یو نین کو نسل لیہ ون کے لئے کو نسلر کا الیکش لڑے اور دوسرے مرحلہ میں میں خود ضلع کو نسل کے انتخابات میں حصہ لوں ۔ پروگرام کے مطا بق ہم دونوں میاں بیوی نے لیبر کو نسلر کے لئے انتخابات میں حصہ لیا اہلیہ کا انتخا بی نشان جھو نپڑی تھا اور وہ ان انتخابات میں ایک ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر کا میاب رہیں جب کہ مجھے ضلع کو نسل کے لیبر امیدوار کی حیثیت سے 84 بلدیا تی کو نسلرز کے ووٹ ملے مسترد کئے جا نے والے ووٹوں کی تعداد بہت زیا دہ تھی جب کہ مد مقا بل جیتنے والے امیدوار کے 130سے زیادہ ووٹ تھے ان بلد یا تی انتخابات میں میرا انتخابی نشان انگور کا گچھہ تھا ان بلد یا تی انتخابات میں بھی بجٹ نہ ہو نا میرا بڑا مسئلہ تھا ضلع کو نسل کے انتخابات میں میرا حلقہ ضلع لیہ کی تینوں تحصیلوں کی یو نین کو نسلز پر مشتمل تھا ان یو نین کو نسلوں کے نو منتخب کو نسلرز نے جن کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ تھی نے مجھے ووٹ دینا تھا لیہ چو بارہ اور کروڑ کے دور افتادہ علا قوں ، چکوک اور مواضعات میںجا کر ان منتخب کو نسلرز سے فردا فردا ملنا اور ان سے ووٹ کی درخواست کر نا خاصا مشکل اور مہنگا کام تھا
اس کے سا تھ سا تھ ایک اور بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ضلعی نظا مت کے لئے علاقائی سیا سی دھڑوں نے نہ صرف ضلع ناظم کے لئے ہی نہیں بلکہ نائب ضلع ناظم ، لیبر ، کسان ، خواتین اور اقلیتی کو نسلرز کی نششتوں کے لئے بھی اپنے اپنے امیدوار کھڑے کئے ہو ئے تھے ضلع لیہ کے دونوں معروف سیا سی دھڑوں سیہڑ گروپ اورجکھڑ گروپ کی جا نب سے سردار شہاب الدین خان سیہڑ اور ملک نیاز جکھڑ کے درمیان کا نٹے دار مقا بل تھا ۔ میرے مد مقا بل امیدوار مر حوم عابد حسین کلاسرہ تھے جنہیں سیہڑ اور تھند گروپ کی آ شیر باد حا صل تھی ۔علا قا ئی سطح پر ہماری سیا سی ہمدردیاں ہمیشہ ملک نیاز احمدجکھڑ ، چوہدری اصغر گجر ،منظور حسین جوتہ اور فرید خان مرا نی کے سا تھ رہی تھیں خصو صا ملک منظور حسین جو تہ ہمیشہ میرے فیورٹ رہے مگر یہ سب دوست بھی اپنے اپنے سیا سی گروپ کے فیصلے کئے بیٹھے تھے اور ظاہر ہے کہ علا قائی سیا سی گروپوں میں ہم جیسے آزاد منش لو گوں کی کیسے گنجا ئش ہو سکتی تھی ہمیں اپنے ان دوستوں کے سیاسی مزاج اور تر جیحات کا علم تھا سو ہم نے بھی کو ئی خاص کو شش نہیں کی کہ الیکشن میں ان سے مدد ما نگی جا ئے صرف ایک بار سر راہے ملک نیاز احمد جکھڑ ہمیں سول کورٹس میں ملے
جہاں انہوں نے ہمیں ضلع کو نسل کا الیکشن لڑنے کی بجا ئے تحصیل کو نسل کے لیبر امیدوار بننے کا مشورہ دیا جہاں عبد الرحمن ما نی امیدوار تھے جسے ہم نے منا سب نہ جا نا چو نکہ ہمیں معلوم تھا کہ الیکشن ضلع کو نسل کا ہو یا تحصیل کو نسل کا ہمارا رزلٹ ایک جیسا ہی ہو گا ۔البتہ ان دو ستوں میں سے ہمیں ملک منظور حسین جوتہ سے قدرے امید تھی کہ شا ئد وہ ذاتی سطح پر اپنی یو نین کو نسل میں ہماری کچھ ہیلپ کریں گے مگر “جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے کے مصداق “وہ بھی رو ا ئتی سیاسی رویوں کا شکار نکلے ہمیں ان سے کیوں امید تھی اس کا ذکر قدرے تفصیل سے ہو گا لیکن وقت آ نے پر ابھی بس اتنا ہی۔۔۔
با قی اگلی قسط میں