نعت خوان موصوف پوری الیکشن مہم میں دوبارہ نظر نہ آئے۔ انتخابات کے بعد بڑے عرصے بعد ملے تو میں نے جلسہ سے بغیر بتائے غائب ہو نے کا گلہ کیا تو معذرت کرتے ہو ئے کہنے لگے کہ بس صحرائی صاحب اندازے کی غلطی ہو گئی۔
میں نے پو چھا ہوا کیا تھا جواب ملا کہ جلسہ ابھی شروع نہیں ہواتھا کہ میرے پاس ایک شخص آیا میں اسے نہیں جانتا تھا کہنے لگا کہ آپ کو فلاں صاحب نے بلایا ہے کو ئی نعت خوانی کا پروگرام طے کرنا ہے میں نے کہا کہ جلسہ شروع ہو نے والا ہے اور میں نے نعت پڑ ھنا ہے میں نعت پڑھ لوں چلتے ہیں انہوں نے کہا کہ ابھی جلسہ میں دیر ہے اور ہم نے بھی واپس آنا ہے اور جلسہ بھی سننا ہے آ پ چلیں ہم ابھی آجا ئیں گے یہ سن کر میں ان کے سا تھ ان کی گا ڑی میں بیٹھ گیا ۔وہاں باتوں میں دیر ہو گئی اور یوں میں واپس آپ کے جلسہ میں نہ آ سکا ۔ اسی طرح ایک مدت کے بعد وزیر اعظم کے نعرے لگانے والے مہر بان دوستوں سے بھی ملا قات ہو ہی گئی وہ ہمارے دوست ایک بڑے صاحب کے حاشیہ نشین اور بڑی سماجی شخصیت ہیں وہ ہمیں آج بھی دیکھ کے وزیر اعظم انجم صحرائی کے نعرے لگا تے ہیں لیکن آج ان کے نعروں میں محبت اور خلوص کی مٹھاس زیادہ ہو تی ہے۔
در اصل یہ سارا کھیل ہمارے جلسے کو سبو تاژ کر نے کی ایک بھونڈی کو شش تھی ان کا خیال تھا کہ جلسے میں ہڑ بو نگ مچا کر وہ ہمیں وہاں سے بھا گنے پر مجبور کر دیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔ جیسا میں نے بتا یا کہ اسلا مک فرنٹ کی جانب سے عبد الکریم گجر کو پی پی حلقہ 216 کے لئے امیدوار نا مزد کیا گیا تھا ۔ اللہ غریق رحمت کرے کریم گجر مر حوم ہمارے دو ستوں میں سے تھے ایک عر صہ قبل وہ کاروبار کے سلسلہ میں کرا چی شفٹ ہو چکے تھے جہاں ان کا دودھ کا خا صا بڑا کاروبار تھا ۔ الیکشن میں حصہ لینے کے لئے لیہ آ ئے تھے اور انہیں امید تھی کہ ان کی گجر برا دری جو لیہ شہر کی بڑی برادریوں میں سے ایک ہے ان کا بھر پور سا تھ دے گی ۔اسلامک فرنٹ کی طرف سے ان کی نامزدگی نے انہیں مزیدبا اعتماد بنا دیا تھا۔
الشفاء کے ظہور انصاری اور شیخ یو سف کو نسلر یہ دو نوں کریم گجر اور میرے مشتر کہ دو ستوں میں سے تھے اسی الیکشن میں ڈاکٹر مقصود بھی انتخابات میں حصہ لے رہے تھے وہ قو می اسمبلی کی نششت کے لئے آزاد امیدوار تھے کریم گجر اسلا مک فرنٹ کے امید وار تو تھے مگر قو می اسمبلی میں اسلامک فرنٹ کا کو ئی امیدوار نہ ہو نے کی وجہ سے کریم گجر نے ان سے غیر اعلا نیہ پینل بنا لیا تھا ۔ ہماری الیکشن مہم تو صرف جلسے جلو سوں کارنر میٹنگز اور اشتہارر بازی تک محدود تھی اور وہ بھی زیادہ شہر میں وہ اس لئے کہ ہمارے پاس اتنے وسائل ہی نہیں تھے کہ ہم حلقہ کے ہر گا ئوں ، مو ضع اور بستی میں جا کر گھر گھر لو گوں سے ملتے اور ووٹ ما نگتے لیکن ہمارے بر عکس کریم گجر صاحب اپنی رابطہ عوام مہم بھر پور طریقہ سے چلا ئے ہو ئے تھے کو ئی ایسا علا قہ نہ تھا جہاں وہ نہ پہچے ہوں اور ووٹ نہ ما نگا ہو ۔ خصو صا حلقہ کے تمام گجروں تک تو وہ یقینا پہنچے ہوں گے اور برادی کے نام پر انہیں ساتھ چلنے اور ووٹ دینے کی اپیل بھی کی ہو گی ْ ایک رات جب ہم ٹی ڈی اے کا لو نی میں سر شام ہو نے والی ایک کا رنر میٹنگ میں دھواں دار انقلا بی تقریرکرنے کے بعد گھوڑے بیچ کر سو ئے ہو ئے تھے کہ بیگم نے ہمیں تقریبا جھنجھوڑتے ہو ئے ا ٹھا یا ہم نے نیم وا آ نکھوں سے بیگم سے پو چھا کیا ہے ؟ کہنے لگیں باہر کچھ لوگ ہیں جو کا فی دیر سے گھنٹی بجا رہے ہیں اور دروازہ پیٹ رہے ہیں۔
میں نے ٹائم دیکھا تو رات کے ڈیڑھ بجے تھے ابھی میں سنبھل ہی رہا تھا کہ ایک بار پھر گھنٹی بجی اور دروازاہ زور زور سے بجنے لگا میں جلدی سے اٹھا دروازہ کھو لا تو سا منے کریم گجر ظہور انصاری اور شیخ یو سف تھے میں نے دفتر کا دروازہ کھو لا یاد رہے کہ ان دنوں ہم ہا ئو سنگ کا لو نی ون میں جعفریہ ہا ئوس کے سا منے کیپٹن ایوب کے مکان میں کرایہ دار تھا ۔ یہ کو ٹھی نما مکان دو منزلہ تھا میں نے نیچے کے پورشن میں صبح پا کستان کا آفس بنا یا ہوا تھا جبکہ اورپروالی منزل میں فیملی رہا ئش پذیر تھی ۔ چا ئے پیتے ہو ئے کریم گجر کہنے لگے عجیب الیکشن لڑ رہے ہوسا رے امیدواروں کی نیندیں حرام ہو رہی ہیں اور تمہاری نیند ہے کہ پوری ہو نے کا نام نہیں لے رہی ۔ یار الیکشن لڑنا ہے تو سنجیدگی سے لڑو وگر نہ مذاق نہ بنو ۔ میں تو ایسے ہی الیکشن لڑتا ہوں میں نے ہنستے ہو ئے کہا ۔ ظہور بھا ئی کہنے لگے صحرائی یار چو ہدری تم سے خاص بات کر نے آئے ہیں میں نے کہا ضرور کریں میں ہمہ تن گوش ہوں ۔ چو ہدری کریم گجر کہنے لگے یار تمہیں پتہ ہے کہ میرے حلقہ میں گو جروں کے نو ہزار سے زیادہ ووٹ ہیں یوں سمجھ لو کہ میں نو ہزار ووٹ لے کر گھر سے نکلاہوں با قی اسلا مک فرنٹ کی جما عتوں کے ووٹ ، جما عت اسلا می کے ووٹ ۔چو ہدری اصغر گجر اور دیگر دو ستوں کا حلقہ احباب مل کر مجھے یقین ہے کہ ہم الیکشن میں بڑا اپ سیٹ کر سکتے ہیں میں چا ہتا ہوں کہ تم میری حمایت میں دستبردار ہو جا ئو اگر یار صحرائی تم میری حمایت کرو گے تو یقینا کا میا بی ہما رے قدم چو مے گی میں نے ان کی با تیں بڑے غور سے سنیں اور کہا کہ اچھا میں سوچ کر صبح تک آپ کو جواب دو ں گا ۔۔اگلی دو پہر میں ظہور بھا ئی سے ملا اور ان سے معذٔرت کرتے ہو ئے کہا کہ میرا اس مرحلہ پر عبد الکریم گجر کے حق میں الیکشن سے دستبردار ہو نا منا سب نہیں۔
رات ڈھلے تو چو ہدری صاحب دوبارہ آ گئے اس مر تبہ ان کے ساتھ چو ہدری ڈاکٹر مقصود بھی تھے میں نے ان کا ستقبال کیا ، چا ئے پیش کر تے ہو ئے انہیں ایک بار پھر معذرت کی اور کہا کہ آپ کی گجر برادری کے بہت سارے ووٹ ہیں حلقہ میں ۔ میرے الیکشن لڑنے یا لڑنے سے آپ کو کو ئی فرق نہیں پڑ تا ۔ میں ایک عام سیا سی کارکن ہوں نہ میری برادری ہے اور نہ میرا کو ئی حلقہ احباب ۔ مجھے پتہ ہے کہ میں الیکشن میں جیت نہیں سکتا لیکن میں اس ما حول سے فا ئدہ اٹھا تے ہو ئے عام آ دمی کے فہم اور شعور کو اس کے مسا ئل اور حقوق بارے دعوت فکر دے رہا ہوں ۔اگر میں اس مرحلہ پر الیکشن سے دستبردار ہو جاتا ہوں تو ووٹرز یہ سمجھیں گے کہ مجھے بھی کسی ملک ، مہر اور خان نے خرید لیا ہے اس لئے میں ایسا نہیں کر سکتا ۔ انتخابات کا رزلٹ تو وہی تھا جو ہو نا تھا مگر میرا رزلٹ قدرے غیر متوقع تھا امتخابی نتا ئج کے مطا بق پہلی پو زیشن آ زاد امیدوار ملک غلام حیدر تھند کے حصہ میں آئی دو سری مسلم لیگ ن کے مہر فضل حسین سمرا ۔ تیسرے نمبر پر آ زاد امیدوار انجم صحرائی اور چو تھی پوزیشن پر اسلا مک فرنٹ کے عبد الکریم گجر تھے۔
میں پہلے ذکر کر چکا ہوںکہ میں نے اس وقت کے چیف ایگز یکٹیو معین قریشی کے بیا نات کو بنیاد بنا کر ما ضی میں بر سر اقتدار رہنے والی سیا سی جما عتوں کے امیدواروں کے خلاف ریٹرننگ آ فیسر کے سا منے تحریری اعتراضات پیش کئے تھے جن کی با قاعدہ سما عت کے بعد میری تحریری درخواست کو ریٹر ننگ آ فیسر نے الیکشن کمیشن آ ف پا کستان کو بھجوا دیا تھا کئی مہینے گذ رنے کے بعد بھی مجھے اپنے ان اعترا ضات بارے کسی کاروائی کی تو کو ئی خبر نہیں ملی کہ الیکشن کمیشن آ ف پا کستان نے میرے اعتراضات پر کیا ایکشن لیا لیکن یہ ضرور ہوا کہ انتخابات کے چند مہینوں کے بعد مجھے الیکشن کمیشن آ ف پا کستان کی طرف سے ایک نو ٹس ملا جس میں کہا گیا تھا کہ آپ نے بحیثیت امیدوار صوبا ئی اسمبلی امتخابات کے دوران کئے گئے اخراجات کا گو شوارہ جمع نہیں کرا یا کیوں نہ آپ کو الیکشن میں حصہ لینے کے لئے تا حیات نااہل قرار دے دیا جائے؟
باقی اگلی قسط میں