ہو نے والے ان انتخابات میں نلکا ہمارا انتخابی نشان تھا۔ مجھے سرائیکی چینل رو ہی کے مارننگ شو میں مہمان بننے کا اعزاز حا صل ہوا ۔ پرو گرام کی میز بان نا صرہ خان تھیں انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ نے بے وسائل ہو تے ہو ئے زند گی میں انتخابات ، سیاست ، ریل و جیل اور مشکل صحافت کا سفر کیسے طے کیا مجھ سے یہی سوال ایف ایم 89 کے طارق علیا نی اور صدف رضا نے کیا اور یہی سوال عنایت بلوچ نے اپنی پہلی ملاقات میں مجھ سے پو چھا تو سبھی کو میں نے ایک ہی جواب دیا اور وہ یہ کہ جب قدرے ہوش مند ہو ئے تو زند گی کے سفر کی دو تر جیحات طے کیں ایک یہ کہ جس سماج کا حصہ ہوں وہ سماج مجھے جا نے پہچا نے اور تسلیم کرے دوسرا یہ کہ میری آنے والی نسل زیور تعلیم سے آراستہ ہو۔
سیاست ، صحافت اور سما جی خدمات میں ابتدائی طور پرمیری دلچسپی انہی تر جیحات کی مر ہون منت تھی میں نے بچپن میں ایک ہندی کہاوت پڑھی تھی کہیں کہ اللہ کی طرف سے چار سزائیں دنیا میں انسا نوں کے لئے پیدا کی گئی ہیں پہلی زبان دراز بیوی ، دوسری نا فرمان اولاد ، تیسری گھر کے دروازے پر بیری کا درخت ہو نا اور چو تھی اور سب سے بڑی سزا یہ کہ بندے کو کسی کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر آ گے آگے دوڑنا پڑے یعنی کسی کا غلام بننا ۔ ہمارے سماج میں مجھے تو دو ہی قو میں نظر آ تی ہیں ایک ظالم اور دوسری مظلوم یا اس کو یوں کہہ لیں کہ ایک مالک اور ایک غلام ۔ بس میں نے سو چا کہ میں نے مظلوم نہیں بننا ، غلام نہیں بننا اور کسی کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر آگے آ گے نہیں دوڑنا یہ تھا وہ فیصلہ جس کے بعد ہم ساری زند گی یہی حما قتیں کرتے رہے ، بو لنے کی حما قتیں اور لکھنے کی حما قتیں اور ہمیں جو ملا انہی حما قتوں کا انعام ہے۔
ایک عام سے گھر میں جنم لینے والے ایک عام سے فرد کے لئے اشرا فیہ کے اس سماج میں اپنی پہچان کے ساتھ زند ہ رہنا مسلسل محنت اور شب و روز جدو جہد سے ہی ممکن ہے میں نے اپنی زند گی میں کئی الیکشن لڑے ایک بڑی حقیقت جس سے میں با خبر تھا وہ یہ تھی کہ میں انتخابات میںکبھی بھی جیت نہیں پا ئوں گا مجھے اپنے ہار کے رزلٹ کا پتہ ہو تا تھا لیکن میں پھر بھی الیکشن لڑتا ہار نے کے لئے لڑتا وہ اس لئے کہ اس طرح ایک طرف میں اس سماج کے اس پسے ہو ئے مظلوم طبقے کی بات کرتا تھا جو میرا طبقہ تھا جس کے مسا ئل تھے لیکن وہ اپنے مسا ئل کا ادراک کر تے ہو ئے بھی اپنے سا تھ نا انصا فی ، ظلم اور استحصال کر نے والوں کے ہا تھوں گروی بنے ہو ئے ہیں اور شا ید بر سوں رہیں اور دوسری طرف میرا یہ انتخا بی عمل اشرا فیہ کے اس سماج میں میری پہچان کے عمل کو آگے بڑ ھاتابس یہی سوچ تھی میری کہ اگر اللہ کریم نے مجھے اس سماج میں پیدا کیا ہے مجھے زند گی دے کر اس دھر تی پہ پیدا کیا ہے تو مجھے اپنی پہچان کرانا ہے ،مجھے اپنی شنا خت کے سا تھ زندہ رہنا ہے ۔تو بات ہو رہی تھی الیکشن سال 1993 کی۔
دوسرے امیدواروں کی طرح ہم نے بھی بھر پور انتخابی مہم چلائی انتخابی نشان نلکا ( ہینڈ پمپ )کے پوسٹر چھپوائے ، چار صفحات پر مشتمل منشور شا ئع کیا ، جلسے کئے اور جلوس نکا لے۔ میں آپ سے جس جلسے کا ذکر کر رہا تھا آ فتاب مار کیٹ میں ہو نے والے انتخا بی جلسے کا ۔ ہمارے جلسوں میں ہمارے جو بہت سے دوست بڑی با قا عد گی سے شر کت کیا کرتے تھے ان دوستوں میں ہمارے وسیب کے معروف نعت خواں غلام حسن بھٹہ بھی تھے وہ ہمارے جلسوں میں نعتیں پڑھا کرتے تھے اس دن بھی وہ ہمارے اس پروگرام میں شر کت کے لئے آ ئے ہو ئے تھے اور تر تیب کے مطا بق انہوں نے تلاوت کلام پاک کے بعد نعت شریف س پیش کر نا تھی۔ بھر پور جلسہ تھا سٹیج پر محلہ عید گاہ ،جہان شاہ اور محلہ شریف پورہ کے بہت سے معزز نما ئندہ شخصیات بھی مو جود تھیں۔ حسب روایت سٹیج سیکریٹری ضیا ء اللہ خان ناصر نے جلسے کی کاروائی کا آغاز کرتے ہو ئے تلاوت کلام پاک کے لئے قاری محمد ایوب اعوان کو دعوت دی۔
تلاوت کلام پاک کے بعد سٹیج سیکریٹری نے نعت شریف پڑحنے کے لئے لیہ کے معروف نعت خواں غلام حسن بھٹہ کا نام پکارا تو غلام حسن بھٹہ نہیں آ ئے پانچ منٹ کے بعد ایک بار پھر نعت خوانی کے لئے معروف نعت خواں غلام حسن بھٹہ کو بلا یا گیا لیکن بھٹہ صاحب کی کو ئی خبر نہ تھی ابھی شا ئد سٹیج سیکریٹری یہ سو چ ہی رہے تھے کہ نعت خوانی کے بغیر پروگرام کو کیسے آ گے بڑھا یا جا ئے کہ کھڑے ہو ئے سا معین میں ہلچل ہو ئی اور وہاں سے چند بلیاں میا ئوں میا ئوں کی آ وازیں نکلتے ہو ئے جلسہ گاہ میں زمیں پر بیٹھے ہو ئے لو گوں کے درمیان سے نکلنے کا راستہ ڈھو نڈنے لگیں۔
نعت خوان کی غیر حا ضری اور بلیوں کی میا ئوں میا ئوں نے جلسہ گاہ میں ایک مزا حیہ ما حول پیدا کر دیا تھا ابھی ہم بلیوں کی افتاد سے نبرد آ ز ما ہو نے بارے سوچ رہے تھے کہ رہی سہی کسر ایک کو نے میں کھڑے بہت سے نو جوانوں کے ٹولے کی طرف سے لگا ئے جا نے والے وزیر اعظم انجم صحرائی کے فکا ہیہ نعروں نے پو ری کر دی دی اور یوں جلسے کا ما حول خا صا غیر سنجیدہ ہو گیا ضیاء اپنے تئیں پوری کو شش کر رہے تھے کہ حالات پر سکون ہو جا ئیں مگر وزیر اعظم انجم صحرائی کے نعروں کی شدت اور میا ئوں میا ئوں کرتیں آگے پیچھے دا ئیں با ئیں بھا گتی بلیوں نے پورے ما حول کو اپنا اسیر بنا لیا تھا لوگ بات سننے کی بجا ئے یوں ہمارا تمسخر اور مذاق اڑا رہے تھے جیسے ہم انتخا بی امیدوار نہ ہوں بلکہ کسی موت کے کنویں کے پھٹوں پر تھرکنے اور مٹکنے والے کردار ہوں جن پر پھبتیاں کسنا اور قہقہے لگا نا شا ئقین کا حق ہو تا ہے۔
میں نے یہ بے قابو حالات دیکھے تو بہت ہی پریشان ضیاء سے کہا کہ بھا ئی آپ سٹیج چھوڑیں مجھے موقع دیں اور انہوں نے بغیر کسی تا مل کے مائیک میرے ہا تھ میں دے دیا میں نے سرائیکی میں اپنی گفتگو کا آ غاز کرتے ہو ئے کہا “کہ ہمارے چند نو جوان دوستوں کی طرف سے وزیر اعظم انجم صحرائی کے نعروں نے مجھے بڑا حو صلہ دیا ہے مجھے لگتا ہے کہ ہم جو تبد یلی لا نا چا ہتے ہیں وہ آ رہی ہے میرے طبقہ کے غریب لو گوں کو احساس ہو رہا ہے کہ ان کے ووٹ ہی وزیر اعظم اور وزیر اعلی منتخب کرتے ہیں ۔ ہم اسی آ گہی اور شعور کی جدو جہد کر رہے ہیں ہمارا مقصد بھی یہی ہے کہ ایک عام ووٹر کو یہ احساس ہو جا ئے کہ یہ اختیار اور اقتدار اسی کے ووٹ کامر ہون منت ہے یہ اسی کی طاقت ہے جس کو چا ہے دے دے۔
لیکن شا ئد نعرے لگانے والے دوستوں کو یہ نہیں پتہ کہ میں جس صوبا ئی سیٹ پر الیکشن لڑ رہا ہوں اگر میں جیت گیا تو وزیر اعظم تو نہیں البتہ اگر لوگ چا ہیں آپ لوگ مجھے اپنا اعتماد بخشیں تو وزیر اعلی بننے کی دوڑ میں شا مل ہو سکتا ہوں ۔ اب آپ بتا ئیں کہ کیا کسی ممدو مراثی ، وسائے مو چی اور خدے پا ولی کے بچے کو کیا یہ حق نہیں کہ وہ وزیر اعلی ۔ ممبر صو با ئی اسمبلی یا ایم این اے بننے کے خواب دیکھے جدو جہد کرے اپنے آپ کو پیش کرے اپنی محرومیوں ، اپنے مسائل اور اپنے حقوق کی آواز بلند کرے یہ ہمارا حق ہے مجھے پتہ ہے کہ ابھی اس سماج کے ممدو مو چی ، خدے مرا ثی اور اور وسے پا ولی کو ہو ش نہیں آ یا ابھی میرا خوانچہ لگانے والا ، دیہاڑی دار مزدور ، دھوپ میں جلتا راج ،۔ تپتی دو پہر میں ہل چلاتا کا شتکار یہ سبھی سو ئے ہیں مجھے پتہ ہے کہ ابھی ان کے جا گنے میں دیر ہے۔
لیکن جب بھی یہ جا گے جب بھی انہیں اپنے حق کا ادراک ہوا سماج بدل جائے گا اقتدار کا ہما بس ان کے جا گنے کا منتظر ہے پھر نعرے انہی کے لگیں گے ” میری جذ با تی گفتگو نے ما حول کو یکلخت تبدیل کر دیا ایک سنا ٹا تھا جو ہر سو چھا گیا نہ نعرے تھے اور نہ ہی بلیوں کی میا ئوں میا ئوں بس ایک آواز تھی جو گو نج رہی تھی میں نے اس جلسے میں تقریبا پو نے دو گھنٹے تقریر کی ۔ میں نے سرا ئیکی بو لی ، پنجابی اور اردو میں بات کی ۔ تقریر کے بعد وہی لوگ جو ہم پر پھبتیاں کس رہے تھے ہمارے گلے مل رہے تھے اور کر سیاں اکٹھی کرا رہے تھے۔۔
با قی آ ئیندہ