مجھے اس الیکشن مہم کے دوران ہو نے والا ایک واقعہ نہیں بھو لتا میں نے اس پر ایک کالم بھی لکھا تھا اس زما نے میں کالم کا عنوان تھا” انجم خورشید کے ساتھ سجتا ہے “تفصیل اس کی یوں ہے کہ پیر خورشید اسی الیکشن مہم کے دوران حلقہ کے چکوک میں لو گوں کے ساتھ عوا می رابطہ مہم پر تھے میں بھی ان کے ساتھ تھا پیر صاحب علاقے کی ایک روحانی شخصیت تھے لوگ ان سے بڑی نیاز مندی سے ملتے جھک کر ان کے گھٹنوں کو چھو تے اور پیر صاحب کے ہا تھوں کو عقیدت سے چو متے میں نے دیکھا کہ لوگ پیر صاحب کے ہا تھوں کو تو چو متے ہی ہیں اکثر لوگ سلام کرتے ہو ئے ہاتھ ملا نے کے بعد میرے ہا تھوں کو بھی چومنے لگے ہیں ۔ میں خا صا اس رویئے سے بچنے کی کو شش کر تا مگر سادہ اور پر خلوص لوگ ایسا کر ہی جا تے ۔ میں نے اس بات کا تذ کرہ پیر خورشید سے کیا تو مسکراتے ہو ئے کہنے لگے کہ” انجم خورشید کے ساتھ ہی سجتا ہے “انتخا بی نتائج تو ہمارے حق میں نہیں آ ئے پی پی پی کے ملک نیاز احمد جکھڑ 43056 ووٹ لے کر میدان مار لیا
پا کستان عوامی اتحاد کے پیر خورشید احمد بخاری 34980 ووٹ لے سکے ۔ تیسرے نمبر پر سردار غلام فرید مرانی رہے جنہوں نے 13376 ووٹ حا صل کئے ، قومی اسمبلی کے ان نتائج نے ہمیں خا صا ما یوس کیا ہمارے امیدوار قو می اسمبلی جن کے بارے ہمارے صوبا ئی امیدواروں کو پہلے ہی خا صے تحفظات تھے انہوں نے بھی ہارنے کے بعد اپنے ونگ کے ان امیدواروں سے کوئی رابطہ نہیں رکھا ایسے میں شیخ نذر حسین ایڈ وو کیٹ جو لیہ شہر کے حلقہ سے پا کستان عوا می اتحاد کے امیدوار تھے نے اپنے تحریک استقلال کے ساتھیوں کا ایک اجلاس طلب کیاتا کہ نئے سیاسی تنا ظر میں حکمت عملی تیار کی جا سکے اجلاس میں بعض دوستوں کی رائے تھی کہ ہار جیت ہوتی رہتی ہے انتخابات میں چند دن با قی ہیں میدان نہ چھوڑا جا ئے لیکن بہت سے دوست ایسے بھی تھے جن کی رائے تھی کہ انتخابات میں کھڑے رہنے سے سوائے اس کے کہ مہر فضل حسین سمرا کو نقصان ہو گا ہم کچھ حاصل نہ کر پا ئیں گے اور ہمارے دوستوں کی اکثریت اس حق میں تھی کہ مسلم لیگ( ن )کے امیدوار مہر فضل حسین سمرا کی حمایت کی جا ئے
اس کا بھی ایک پس منظر تھا اور وہ یہ تھا کہ مہر فضل حسین سمرا ماضی میں تحریک استقلال میں شا مل رہے تھے مہر فضل حسین سمرا کو تحریک استقلال میں بڑی اہمیت حاصل رہی تھی جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ضیا ء الحق دور میں ایم آر ڈی) Movement for the Restoration of Democracy ) کی حکو مت مخالف تحریک کے زما نے میں جب پنجاب سے تحریک استقلال کو سربراہی ملی تو پارٹی کی جا نب سے انہیں ایم آر ڈی پنجاب کے کنو ینر بننے کا مو قع بھی ملا ۔ اسی پارٹی تعلق کے ناطے تحریک استقلال کے بیشتر ساتھیوں کی رائے تھی کہ ہمیں ووٹ خراب کر نے کی بجائے اپنا وزن مہر فضل حسین سمرا کے پلڑے میں ڈال دینا چا ہیئے ۔ ویسے بھی ان انتخابات میں لیہ شہر کے اس حلقہ میں ہو نے والا یہ انتخابی معرکہ آ خری دنوں میں ہو نے سیا سی اتار چڑھائو اور ٹکٹوں کی کھینچا تا نی کے سبب خاصا دلچسپ رخ اختیار کر چکا تھا
ہوا یہ تھا کہ کاغذات نامزدگی کے وقت ملک غلام حیدر تھند مسلم لیگ( ن) کے امیدوار کی حیثیت سے سا منے آ ئے جب کہ مہر فضل حسین سمرا آ زاد امیدوار تھے مگر نہ جا نے کیا ہوا اور ملک غلام حیدر تھند کے مخا لفین نے کیا ترپ کی چال چلی کہ نشانات الاٹ ہو نے والے دن مسلم لیگ (ن ) کے ٹکٹ ہو لڈر ملک غلام حیدر تھند کی بجا ئے مہر فضل حسین سمرا تھے اور یوں مہر فضل حسین سمرا کو شیر ملا اور آزاد امید وار ملک غلام حیدر تھند کے حصہ میں
چا رپا ئی کا نشان آیا ۔ہمارے امیدوار شیخ نذر حسین بھی مہر فضل حسین سمرا کے پرانے سا تھیوں میں سے تھے سو ان کی رائے بھی یہی تھی کہ انتخابات میں خود الیکشن لڑنے کی بجا ئے مہر فضل حسین سمرا کی حمایت کی جائے ۔ یہ فیصلہ ہو تے ہی ہم سارے اپنے تحصیل آفس والے انتخابی دفتر سے اٹھے اور اظہار یکجہتی کے لئے چو بارہ روڈ پر لڈو پان شاپ کے نزدیک وا قع مسلم لیگ( ن) کے دفتر کی طرف چل دیئے ۔ انتخابات ہو ئے مگر ہماری غیر مشروط حمایت بھی مسلم لیگ ن کے کسی کام نہ آ سکی اور آزاد امیدوار ملک غلام حیدر تھند شیر کے مقابلہ میں چا ر پا ئی کے نشان سے جیت گئے۔
انتخابی نتا ئج کے چند دن بعد ہمیں ملک غلام حیدر تھند کی طرف سے ایک پریس کا نفرنس میں شر کت کادعوت نا مہ ملا جس میں انہوں نے مسلم لیگ ن میں غیر مشروط شمو لیت کا اعلان کر تے ہو ئے کہا کہ گو وہ آ زاد امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہو ئے ہیں لیکن وہ مسلم لیگی ہیں اور مسلم لیگ میں ہی رہیں گے اور پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن )کے ایک نما ئندے کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کریں گے ۔ کہا جاتا ہے کہ میدان سیاست میں دوست اور دشمن پا ئیدار نہیں ہو تے آج کے دوست کل کے دشمن اور کل کے دشمن آج کے دوست ہو سکتے ہیں اکچھ ایسا ہی ہماری علا قائی سیاست میں نظر آتا ہے پرویز مشرف دور میں جب مقا می حکو متوں کا سورج سوا نیزے پر آیاتب شہری سیاست کے یہ دونوں مہا گرو ہمیں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ضلعی نظامت سے استفادہ کے لئے ایک ہی کشتی میں سوار بھی نظر آ ئے۔
صاحبزادہ فیض الحسن سواگ ضلع کو نسل لیہ کے غالبا تیسرے چیئر مین ضلع کو نسل کے تھے ۔ صاحبزادہ فیض الحسن سواگ سے میری پہلی ملا قات نیو خان کروڑ کے دفتر میں ہو ئی تھی ان دنوں صاحبزادہ فیض الحسن سواگ یو نین کو نسل گرے والے سے کو نسلر منتخب ہو ئے تھے ۔ چو ہدری محمد افضل گجر اڈہ نیو خان کروڑ کے کر تا دھرتا تھے بعد ازاں چو ہدری محمد افضل گجر ایم پی اے اور چیئرمین ضلع کو نسل بھی منتخب ہو ئے ۔ صاحبزادہ فیض الحسن سواگ جب چیئرمین بنے ہم نے انہیں بھی صبح پا کستان فورم میں مد عو کیا صبح پا کستان فورم میں ہم اپنے جن مہمانوں کو دعوت دیتے تھے وہ زیر بحث مو ضوع پر پہلے تفصیل کے ساتھ شرکائے فورم کو بریفنگ دیتے اور پھر شرکا کی جانب سے پو چھے جا نے والے سوالات کے جوابات بھی دیتے۔
صبح پا کستان فورم میں مہمان بننے والی شخصیات میں ایئرمارشل(ر) ائیر مارشل محمد اصغر خان ، حافظ عاکف سعید امیر تنظیم اسلامی ، حافظ محمد ادریس راہنماء جما عت اسلا می ۔ سردار بہرام خان سیہڑ ایڈووکیٹ ضلع چیئرمین پیپلز پروگرام ۔ملک نیاز احمد جکھڑ ایڈ وو کیٹ اور دیگر راہنماء شا مل تھے ۔ صبح پا کستان کی ان تقریبات کی شروعات مرجان ہو ٹل سے ہو ئیں ۔مرجان ہو ٹل کے مالک حامد خان ایک ادب دوست اور قدر شناش شخصیت تھے حامد خان جنزل حمزہ کے بیٹے ہیں ا نہوں نے ہمیشہ صبح پاکستان کی طرف سے ہو نے والی ایسی تقریبات کی حو صلہ افزا ئی کی ۔صبح پاکستان فورم تلے ایک اور خو بصورت تقریب جس کا ذکر کئے بغیر یہ داستان شب و روز نا مکمل رہے گی وہ تھی تقریب مقا بلہ گل و لا لہ ۔ ہوا یوں کہ لیہ میں کراچی کے ایک نواب انیس آ بسے ۔ ان کے کراچی سے لیہ آ نے کا پس منظر تو جو تھا وہ تھا مگر تھے وہ ایک شا ندار شخصیت اور الگ ۔ پھو لوں سے انہیں پیار تھا انگلش بہت خوبصورت بو لتے اور لکھتے۔
گائیکی سے انہیں جنون کی حد تک عشق تھا ہار مو نیم کی تاروں کو چھوتے تو وجد کا سماں باندھ دیتے ان کی شخصیت میں ایک اور انفرادیت تھی اور وہ تھا ان کا اپنے آپ سے بے نیاز نظر آنا ، میری ان سے ملاقات تحریک استقلال کے ضلعی راہنماء چوہدری اشرف تبسم کے توسط ہو ئی کہ ان دنوں نواب صاحب نے ان کی کو ٹھی کرایہ پر لی ہو ئی تھی۔ نواب صاحب کا دستر خوان بہت وسیع تھا کھا نے کے دوران نواب صاحب کو جب ہمارے میگزین صبح پا کستان بارے پتہ چلا تو بہت خوش ہو ئے کہنے لگے میں چا ہتا ہوں کہ آپ صبح پا کستان کے زیر اہتمام ایک تقریب مقا بلہ گل و لا لہ کا ا نعقاد کریں ۔ میں نے قدرے وضا حت چا ہی تو کہنے لگے کہ اس تقریب میں میں آ پ ایسے لو گوں کو دعوت دیں جنہوں نے اپنے گھروں کے لان پھولوں سے سجا ئے ہوں۔
آپ ان میں مقا بلہ کریں جن گھروںکے لان زیادہ خو بصورت ہوں جس میں زیادہ اور خو بصورت پھول کھلے ہوں انہیں حوصلہ افزائی کے انعامات دیں ،میں نے عرض کیا نواب جی تقریب بھی منعقد ہو جا ئے گی گھروں کے خوبصورت پھولوں والے لان بھی دیکھ لیں گے اول دوئم اور سوئم کا فیصلہ بھی ہو جا ئے گا مگر ان کے لئے انعامات کہاں سے آ ئیں گے ؟ کہنے لگے کہ فکر نہ کریں انعامات اور دیگر اخراجات میری جا نب سے لیکن ایک بات تقریب کے اخراجات میرے ذمہ ہوں گے مگر نہ تو میں اس تقریب میں آ ئوں گا اور نہ ہی آپ کسی جگہ میرا اظہار کریں گے آپ کل ملک انور سے مل لیں انتظام ہو جا ئے گا میں نے کہا ٹھیک۔ ملک انور نواب کے قریبی دوستوں میں سے تھے اور ان کے مالی معاملات کی دیکھ بھال کرتے تھے کہا جا سکتا تھا کہ انہیں ایک منیجر کی حیثیت حا صل تھی ان دنوں صبح پا کستان کا دفتر شمع پلازہ کالج روڈ میں ہوا کرتا تھا خیر ہم نے اگلے روز ملک انور سے رابطہ کیا تو انہوں نے ہمیں کہا کہ آ جا ئیں ہم ان سے ملنے نواب کی کو ٹھی پر پہنچے تو نواب انیس سے تو ملاقات نہ ہو سکی مگر ملک انور نے ہمیں ایک لفا فہ دیا ۔ لفا فے پر بڑی خو بصورت انگریزی میں ” انجم صحرائی صبح پا کستان ” لکھا ہواتھا۔۔