تھل ہو میو پیتھ کالج میں ایڈ مشن لینے والے پہلے سٹو ڈنٹ کا نام محمد عرفان تھا جس نے پورے تین ماہ بعد داخلہ کے لئے ہمارے دفتر سے رجوع کیا تھا اور یوں صدیق کلینک کوٹ ادو کے معروف ہو میو پیتھ ڈاکٹر محمد عرفان کو تھل ہومیوپیتھ کالج لیہ کے پہلے سٹو ڈنٹ کا اعزاز حا صل ہوا ۔ انہی دنوں رضوی صاحب کروڑ روڈ پر سا بقہ گتہ فیکٹری کے سا منے واقع اپنی زمین پر ایک مسجد تعمیر کرا رہے تھے میں نے انہیں تجویز دی کہ آپ اس مسجد کے ساتھ کالج عمارت بھی تعمیر کرا لیں انہیں میری یہبات پسند آ ئی اور انہوں نے وہاں ایک ہال اور چھ کلاس روم کی تعمیر بھی شروع کرادی۔
ہال کی تعمیر کے بعد ہم نے کالج آ فس وہاں شفٹ کر لیا اور کالج کی افتتا حی تقریب بھی منعقد کی ۔افتتا حی تقریب میں اس وقت کے ایس پی چو ہدری محمد شفیع بحیثیت مہمان اعزاز تشریف لا ئے ۔ افتتا حی تقریب میں لیہ ضلع کے سبھی ہو میو پیتھ ڈاکٹرز بھی شریک ہو ئے جنہوں نے تھل ہو میو پیتھ کالج کے قیام کو سرا ہتے ہو ئے ادارہ سے بھر پور تعاون اور وابستگی کا یقین دلا یا ۔ اور اس طرح تھل ہو میو پیتھ کالج کے ٹیچنگ سٹاف کا مسئلہ بھی حل ہو گیا ۔ اعزای طور پر کالج سٹاف کا حصہ بننے والے ہو میو پیتھ ڈاکٹرز میںچوک اعظم ڈاکٹر عبد المجید چودہری ، ڈاکٹر عبد الحق ،ڈاکٹر نور محمد ،ڈاکٹر علامہ محمد ارشد ، ڈاکٹر عبد الشکور ، ڈاکٹر ایم آ ر اختر اور ایم بی بی ایس ڈاکٹرمنیر شاہد قا ضی تھے ۔یہاں یہ بات واضع کر دوں کہ آج کل ڈاکٹر ایم آ ر اختر الخیر ہو میو پیتھ میڈیکل کالج کے با نی پرنسپل ہیں۔
ہم نے کالج میں تعلیم کا سلسلہ بھی شروع کردیاتھا کلاسز بھی شروع ہو چکی تھیں لیکن سچی بات کالج انتظا میہ میں میرے سمیت کسی کو بھی پتہ نہیں تھا کہ ہو میو پیتھی کو نسل آف پا کستان سے کالج ریگکنائزیشن کے کیا مراحل ہوں گے اور کالج میں زیر تعلیم طلبا کیسے امتحانات دے پا ئیں گے دن گذرتے دیر نہیں لگتی تھل ہو میو پیتھ کالج میں فسٹ ایئر طلبا کی تعداد 40 کے لگ بھگ تھی ان طلباء میں دیگر سٹوڈنٹ کے علاوہ ملک نواز چھینہ بہل ، احسان الہی کروڑ ، فرخ چیمہ ، نعیم سیمو ئل ڈیرہ اسما عیل خان ،محمد افضل شور کوٹی ریاض آ باد ، خالد خان کندیاں قا بل ذکر تھے ۔راوی چین ہی چین لکھتا تھا کہ ایک رات محمد رضا رضوی (منا شاہ ) گاڑی لے کر میرے گھر کوٹ سلطان پہنچ گئے اور کہنے لگے ابو نے بلایا ہے ابھی اور اس وقت ۔اس وقت رات کے نو بجے ہوں گے میں نے پو چھا کہ خیریت ؟ کہنے لگے کہ کالج کا کوئی مسئلہ ہے میں نے کہا کہ ابھی پانچ بجے تو میں لیہ سے گھر آ یا ہوں صبح میں نے آنا تو ہے کہنے لگے ابو نے کہا ایمر جنسی ہے صحرائی کو لے آ ئو ۔ میں نے کہا ٹھیک آ ئو چلیں اور میں منے کے ساتھ رضوی صاحب کے پاس لیہ آ گیا ۔مسئلہ واقعی پریشان کن تھا ہو میو پیتھی کونسل کی طرف سے ہو نے والے امتحانات میں شرکت کرنے والے طلباء کی انرولمنٹ کی تاریخ ختم ہو نے میں چند دن باقی تھے کو نسل کا مر کزی دفتر کرا چی میں تھا اور اب مسئلہ یہ تھا کہ تھل کالج کے طلبا ء طالبات کی شیڈول کے مطا بق انرولمنٹ کیسے کرائی جائے۔
رضوی صاحب بڑے پریشان تھے کہ اگر طلباء کی انرولمنٹ نہ ہو ئی اور سٹو ڈنٹ امتحان میں شریک نہ ہو سکے تو حالات خراب ہو سکتے ہیں ۔ میں نے تجویز دی کہ ملتان یا ڈی جی خان کالجز سے رابطہ کرتے ہیں فی الحال ان کے توسط طلبا کے امتحانات دلا دیتے ہیں رابطہ بھی کیا گیا لیکن مسئلہ حل نہ ہوا سو اس مسئلہ کے حل کے لئے مجھے رضوی صاحب کے ساتھ پشاور سے براستہ کراچی جانے والی خو شحال ایکسپریس کا سفر کرنا پڑا ہم نے وہاں پہلی دفعہ کو نسل کے ذمہ داران سے ملا قاتیں کیں اور ہمیں کو نسل سے کالج ریگنا ئزیشن کے پراسیس بارے بھی معلوم ہوا ۔ان دنوں ہو میو پیتھ کو نسل پاکستان کے چیئر مین ملتان ہو میو پیتھ میڈ یکل کالج کے بانی اور پر نسپل ڈاکٹر مصباح الحق تھے ان کی خصو صی شفقت اور کنٹرولر ڈاکٹر خور شید کے تعاون سے یہ مسئلہ بھی بطریق احسن حل ہو گیا تھل ہو میو پیتھک میڈ یکل کالج کی نہ صرف ریکگنا ئزیشن فائل بھی جمع ہو گئی بلکہ کالج کے 27 طلباء کو انرولمنٹ کارڈ بھی جاری کر دیئے گئے۔
کونسل کی انسپکشن کمیٹی جس میں ڈاکٹر مصباح الحق اور ڈاکٹڑ خورشید بھی شا مل تھے نے بھی لیہ کالج کا وزٹ کیا اور تھل کالج کے حق میں اپنی رپورٹ لکھی ۔انرولمنٹ کے بعد آ نے والا مرحلہ خا صا سخت تھا سوال یہ تھا کہ ہمارے طلباء کا امتحانی سینٹر کو نسا اور کہاں ہو گا ہمارے خیال میں دوسرے کالجز ہمارے طلبا سے تعاون کر نے والے نہیں تھے اس مسئلے کا حل ہم نے یہ نکالا کہ کالج کے سٹوڈنٹ اور لیہ کے سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے ہم نے ایک درخواست پاکستان ہو میو پیتھی کو نسل ، وزارت صحت اور دیگر با اختیار لو گوں کے نام بھجوائی جس میں مطا لبہ کیا گیا کہ چو نکہ تھل ہو میو پیتھک میڈ یکل کالج واحد کالج ہے جو علا قہ تھل کے پسماندہ ترین اضلاع میں ہو میو پیتھی کے فروغ کے لئے مشکل حالات میں بے مثال خد مات انجام دے رہا ہے اس لئے علاقائی پسماند گی کو مد نظر رکھتے ہو ئے کالج طلباء کے لئے امتحانی سینٹر لیہ میں ہی قائم کیا جائے۔
ان دنوں رضوی صاحب کے ایک عزیز حسین حقا نی صدر پا کستان جزل ضیاء الحق کے مشیر تھے یہ وہی حسین حقانی ہیں جو بعد میں پی پی پی دور میں امریکہ میں پا کستان کے سفیر رہے ۔ فضل حق رضوی نے مجھے اس مسئلہ کے حل کے لئے ان سے رابطہ کرنے کے لئے اسلام آباد بھیجا ، حسین حقانی صاحب سے میری ملا قات اسلام آباد ان کے گھر پر ہو ئی ۔ اس ساری تگ و دو سے ہم تھل ہو میو پیتھک میڈ یکل کالج میں زیر تعلیم فسٹ ایئر کے طلباء کے لئے امتحانی سنٹر منظور کرانے میں کا میاب ہو گئے ۔ پہلے سال کے ہو نے والے ان امتحانات میں شریک ہو نے والے ستائیس طلبا و طالبات میں سے خالد پرویزخان نے کالج میں ٹاپ کیا ۔ خالد پرویز خان کا تعلق یوں تو ملتان سے تھا لیکن وہ بسلسلہ ملازمت کند یاں میں مقیم تھے یہاں میں یہ بات واضع کرتا چلوں کہ اس زمانے میں کالج میں شام کی کلا سز لگا کرتی تھیں ۔
باقی اگلی قسط میں۔