الیکشن کمیشن کی جانب سے ہمیں ملنے والا نوٹس ایک روٹین کا نوٹس تھا ایسے نوٹس الیکشن کمیشن انتخابات کے بعد تقریبا انتخابات میں حصہ لینے والے سبھی امیدواروں کو بھیجتا ہو گا میں نے اس نوٹس ملنے کے ردعمل میں ایک کالم “الیکشن کمیشن کے نام نعذرت کے ساتھ “کے عنوان سے ایک کالم لکھا اور اسلام آباد پو سٹ کر دیا اس کالم میں میں نے اس نوٹس کو اپنے سا تھ ہو نے والا ایک مذاق قرار دیا وہ اس لئے کہ دوران الیکشن ریٹرننگ آ فیسر کے سا منے پیش کئے گئے اعتراضات بارے تو الیکشن کمیشن خاموش رہا مگر نا اہلی کا نوٹس بھیج دیا ۔اس زما نے میں چو ہدری بشیروڑائچ لیہ کے الیکشن آ فیسر ہوا کرتے تھے نوٹس ملنے کے کئی ہفتوں بعد سر راہ ان سے ملاقات ہو ئی تو انہوں نے ہمیں بتا یا کہ اسلام آباد ہو نے والی ایک میٹنگ میں ہمارے اس کالم کا تذ کرہ بھی ہوا ۔ اور یوں ہم الیکشن اخراجات کے گو شوارے پیش کئے بغیر نا اہل ہو نے سے بچ گئے ۔
25 اپریل 1996 کا دن پا کستانی سیا سی تاریخ کا اس لحاظ سے ایک خاص دن ہے کہ اس دن پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان نے تحریک انصاف قا ئم کی ۔ تحریک انصاف کے فا ئونڈر کپتان عمران خان 1992 کے ورلڈ کرکٹ میلہ کے فاتح اور پا کستانی نو جوانوں کے آ ئیڈل ہیں۔ کرکٹ ریٹائر منٹ کے بعد عمرا ن خان نے اپنے سماجی کام کا آغاز کیا اور لا ہور میں اپنی والدہ کے نام پر ایشیا میں کینسر کا ایک بڑا شو کت خانم میمو ریل کینسر ہسپتال قائم کیا او یوں کرکٹ ورلڈ کپ کا ہیرو قوم کا ہیرو بن گیا عمران خان نے مئی 1995 میں ایک انگلش جر نلسٹJemima Marcelle Goldsmith سے شادی کی ۔ان دنوں تحریک استقلال ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی فلیٹیز ہو ٹل لا ہور میں ہو نے والے پارٹی کے جزل کو نسل کے ایک اجلاس میں قا ئد تحریک ایئر مارشل محمد اصغر خان پارٹی قیادت سے علیحدگی کا اعلان کر چکے تھے جس سے ہمیں بہت اختلاف تھا مگر ہم چند دوستوں کے اختلاف رائے کے با وجود ایئر مارشل محمد اصغر خان پارٹی قیادت سے علیحدہ ہو گئے اور ملک حامد سرفراز صدر منتخب ہو گئے۔
ایئر مارشل محمد اصغر خان کی پارٹی صدارت سے علیحد گی اور ملک حامد سرفراز کی صدارت کے بعد تحریک استقلال بہت سے گروپوں میں منقسم ہو گئی منظور گیلانی نے استقلال پار ٹی اور رحمت خان وردگ نے تحریک استقلال وردگ گروپ کے نام سے اپنے اپنے گروپ قائم کر لئے ْ یہ ساری صورت حال ہم جیسے کار کنوں کے لئے بہت تکلیف دہ تھی ۔میں نے تحریک استقلال زندگی کے ابتدائی دور میں جوا ئن کی تھی عام پارٹی کارکن سے سفر شروع کیا اور پارٹی کے صوبائی کو نسلر ، صوبا ئی جوائینٹ سیکریٹرری جیسے عہدوں پر خدمات انجام دیں ۔ایک وقت ایسا بھی آیا جب مجھے مر کزی قیادت کے بہت قریب ہو نے کا موقع ملا ۔ مجھے قائد محترم نے پارٹی کے پندرہ روزہ خبر نامہ کی ادارت سو نپی ۔ اور مجھے اس ذمہ داری کے ضمن میں ایئر مار شل محمد اصغر خان کے ساتھ پنجاب کے فیصل آباد ، سر گو دھا سمیت بہت سے اضلاع میں ہم سفر رہنے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔
میں نے ایڈ یٹر حبر نامہ کی حیثیت سے پشاور ، کو ئٹہ کے دورے بھی کئے اور ٹھریک استقلال کے دوستوں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ پی ڈی اے لانگ مارچ میں تحریک استقلال کے مر کزی قیادت ملتان سے لا ہور تک کے سفر کا احوال تو میں آپ کو سنا ہی چکا ہوں ۔راجن پور اور لیاقت آباد میں احتجاجی ریلیوں اور جلسوں میں تحریک کی نمائندگی کی تحریک استقلال کے بارے ایک بڑی حقیقت جو میں اپنے پڑھنے والوں سے شیئر کر نا چا ہوں گا وہ یہ ہے کہ ضیا ئالحق کی حکومت کے دور میں تحریک استقلال ذوالفقار علی بھٹو کے جوڈیشنل مر ڈر کے بعد ایک بڑی اپو زیشن پارٹی کے طور پر سا منے آ ئی تھی 1979 کے الیکشن میں میاں محمد نواز شریف ، اکبر بگٹی ، سید فخر امام ۔ عابدہ حسین ، شیخ رشید احمد ، جا وید ہا شمی ، گو ہر ایوب ، مشیر پیش امام ،اعتزاز حسن ، محمود علی قصو ری ، مشا ہد حسین ، نادر پرویز ، منظور وٹو ،شیر افگن نیازی ، ظفر علی شاہ ،احمد علی قصوری جیسے لوگ تحریک استقلال کا ہراول دستہ تھے۔
لیکن 1979 کے الیکشن نہ ہو سکے اور ضیاء حکومت نے ایئر مارشل محمد اصغر خان کو نظر بند کر دیا یہ نظر بندی 5 سال پر محیط تھی قا ئد محترم کی اس طویل نظر بندی کے سبب پا رٹی کو نا قا بل تلا فی نقصا ن پہنچا اور حسب روایت بہت سے لوگ تحریک استقلال کو چھوڑ گئے ان چھوڑنے والوں میں سے ایک میاں محمد نواز شریف بھی تھے جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے با قا عدہ بتا کر پارٹی چھوڑ کر ضیاء حکو مت کو جوائن کیا اور گورنر جیلا نی کے دور میں پنجاب حکو مت میں وزیربنے ۔ مستقبل میں نواز حکو مت کے خلاف بننے والے سیاسی اتحاد پی ڈی اے میں تحریک استقلال نے ایک بھر پور مر کزی کردار ادا کیا پی ڈی اے کی کا میاب حکومت مخالف تحریک کے بعد جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تب ایک بڑا مرحلہ صدارتی الیکشن کا تھا ہو نے والے صدارتی الیکشن بارے تحریک استقلال کا موقف تھا کہ پیپلز پارٹی پی ڈی اے تحریک میں شامل تحریک استقلال کے قائد ایئر مارشل محمد اصغر خان کو اپنا صدارتی امیدوار نا مزد کرے تحریک استقلال کے کار کنوں میں یہ بات زبان زد عام تھی کہ پی ڈی اے مو و منٹ کے دوران پیپلز پارٹی کی قیادت نے آنے والے صدارتی الیکشن میں ایئر مار شل کو اپنا صدارتی امیدوار بنا نے کا وعدہ بھی کیا تھا
اب اس افواہ میں کس حد تک صداقت تھی اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن یہ بات ہم کار کنوں میں بہت زیادہ زیر بحث رہتی تھی ان دنوں۔ اسی دوران بیگم مہناز رفیع جو ہماری پنجاب تحریک استقلال کی چیئر پرسن تھیں نے پنجاب کی صوبائی کو نسل کا ایک اجلاس لا ہور میں طلب کیا ۔قائد تحریک ایئر مارشل محمد اصغر خان نے بھی اس اجلاس میں شر کت کی دوران کاروائی اچانک جہلم سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک ساتھی مودی نے (جن کا پورا نام مجھے یاد نہیں آ رہا ) تحریک استقلال کی جانب سے ایئر مارشل محمد اصغر خان کو صدارتی امیدوار نامزد کر نے کی ایک قرارداد
پیش کر دی قرارداد میں پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی اے کی دیگر جما عتوں سے بھی یہ مطا لبہ کیا گیا تھا کہ وہ ہو نے والے صدارتی الیکشن میں تحریک استقلال کے نامزد امیدوار کی حما یت کریں یہ قرارداد بھاری اکثریت سے منظور بھی ہو گئی
لیکن یہ سوال بہر حال اپنی جگہ بڑا اہم تھا کہ صدارتی الیکشن کے لئے ہمارے دامن میں اپنے ووٹ نہ ہو نے کے برابر تھے ایسے میں یہ مر حلہ کیسے سر ہو گا ؟ پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار نا مزد کئے جانے کے بعد اگلے روز ایئر مارشل اصغر خان نے باقائدہ پریس کا نفرنس کر کے پریس کو پارٹی فیصلے سے آ گاہ کیا ہم بھی ہو نے والی اس پریس کا نفرنس میں مو جود تھے ۔میں نے صدارتی امیدوار ایئر مار شل محمد اصغر خان کے عنوان سے ایک کالم لکھا جو خبریں کے ایڈیٹو ریل پیج پر شا ئع ہوا ۔ صدارتی الیکشن ہو ئے پیپلز پارٹی نے اسحق خان کو اپنا امیدوار نامزد کیا ۔ ایئر مارشل محمد اصغر خان اور نواب زادہ نصر اللہ خان بھی اس دوڑ میں شا مل تحے اور پی پی پی کے حمایت یا فتہ محمد اسحق خان صدر مملکت منتخب ہو گئے۔