رات کے دو ڈھائی کا ٹائم ہو گا جب میں نے آ نکھیں کھو لیں یعنی جب مجھے ہو ش آ یا ۔ اوسان بحال ہو ئے تو میں نے محسوس کیا کہ نہ یہ میرا کمرہ ہے اور نہ ہی میں اپنے بستر پر ہوں بلکہ ہسپتال میں ہوں ۔ حلق خشک تھا پانی کی طلب محسوس ہو رہی تھی میں نے گردن دائیں جا نب موڑ کر دیکھا تو میرے بیڈ کے ساتھ کر سی پر آ ڑا تر چھا بیٹھا اسلم خواب خر گوش کے مزے لے رہا تھا ، بجلی کے زیرو بلب نے ساے کمرے میں زرد رنگ کی روشنی بکھیری ہو ئی تھی بیڈ کے ساتھ رکھے سٹینڈ پر پانی کا جگ پڑا تھا میں نے کروٹ لے کر قدرے سر اونچا کیا اور ہاتھ بڑھا کر گلاس میں پانی انڈیلنے کی کو شش کی تو اسلم جاگ گیا مجھے ہو ش میں دیکھ کر بو لا ، سر کب جا گے ؟ اور میرے ہاتھ سے گلاس لے کر جگ سے پانی ڈالا اور مجھے دے دیا ۔ میں نے آ ہستہ آ ہستہ پا نی پیا ، پانی خا صا ٹھنڈا اور میٹھا تھا پانی پینے کے بعد میں ایک بار پھر بیڈ پر لیٹ گیا اور اسلم سے پو چھا مجھے کیا ہواہے ؟ مجھے کیوں ہسپتال لا ئے ہو ؟
سر کل آپ کی طبیعت خراب ہو ئی مجھے جب پتہ چلا تو گھر والے آپ کو ہسپتال لا چکے تھے ۔ ڈاکٹر بتا رہے تھے کہ آ پ کو کچھ بھی نہیں لیکن آپ سوئے ہو ئے تھے ڈاکٹرکہنے لگے انہیں سو نے دیں صبح جا گنے کے بعد ان کا چیک ا پ کریں گے ، یہ آج رات آ بزرویشن میں رہیں تو اچھا ہے
اچھا ، میں کب کا سویا ہوا ہوں ؟ میں نے کچھ سو چتے ہو ئے پو چھا
آپ کل دو پہر کمپیوٹر پر کام کرتے کرتے کر سی پر ہی سو گئے تھے ، گھر والوں نے آ پ کو جگانے کی بہت کو شش کی مگر آپ بہت گہری نیند میں تھے ، جب آ پ نہیں جا گے تب سب پریشان ہو گئے ، لگا آپ بے ہو ش ہو گئے ہیں اسی لئے آپ کو ہسپتال لے آ ئے ۔
اسلم کی بات سن کر میں نے آ نکھیں مو ند لیں ۔تب مجھے دھیرے دھیرے یاد آ نے لگا کہ مجھے کیا ہوا تھا ۔ کارٹون با با سے ملاقات ، ہمزاد کا تذ کرہ اور پھر میری بے خبری یا بے ہو شی ۔یہ کل دو پہر کا واقعہ تھا اس کا مطلب یہ کہ میں 18/20گھنٹے ہر حال سے بے خبر سویا رہا تھا ۔
ہمزاد کا تصور آ تے ہی مجھے بڑی عجیب سی قوت محسوس ہو ئی اپنے بدن میں ، میں نے کہیں پڑھا تھا ہمزاد کے بارے میں کہ اگر انسان اپنا ہمزاد تسخیر کر لے تو وہ جو چا ہے کر سکتا ہے اس کا ہمزاد نہ صرف اس کی ہر خواہش پوری کر سکتا ہے بلکہ اس کے ہر دشمن کو نا کوں چنے چبوا سکتا ہے ، قوت ، طاقت اور اختیار کا ارتکاز بڑا ہی زبر دست نشہ ہے ، اس نشہ کا محور انسان کی اپنی ذات ہے انسان ہر قوت ، طاقت اور اختیار حا صل کر کے با اختیارو با جبروت بننا چا ہتا ہے وہ سبھوں کو اپنے سامنے سر نگوں دیکھنا چا ہتا ہے اسی لئے حضرت انسان تسخیر کا ئنات کی خواہش کا اسیر ہے ا قتدار اور اختیار کا ہما اپنے سر بٹھا نے کی اسی خواہش نے دھرتی پر تیرو تفنگ اور تلوار سے دو بدو لڑائیوں سے لے کر ایٹم بم اور بارود کی تباہ کار یوں تک کی داستانیں رقم کیں ۔ اور اس سے بھی بڑھ کر جہاں خلاؤں میں کہکشا ں ،چا ند ، مریخ اور سورج انسان کی تسخیری خواہش کا نشا نہ بنے وہاں پہاڑوں اور زمین کی تہوں کو حضرت انسان نے اس بری طرح رگیدا اور کھنگالاکہ نیچر (NATURE)کا حسن گہنا دیا۔ انسانی خواشات کا دائرہ صرف مادی کامیابیوں کا حصول ہی نہیں رہا بلکہ اس نے روحانیت اور شیطا نیت کے میدان میں بھی اپنی خواہشات کے گھوڑے دوڑائے ، جادو ٹونا ،سفلی اور روحانی علوم اسی کتاب کے باب ہیں ، جادو ٹونا کتنا قدیم علم ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں ساحروں اور پھو نکیں مارنے والوں کا نہ صرف ذکر ہے بلکہ ان سے پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے ۔قوت و اختیار کے حصول کی یہی انسانی خواہش ہمیں عملیات کی دنیا میں ملتی ہے صدیوں سے انسان روحانی اور سفلی علوم کے ذر یعے ماورائی مخلوق کی تسخیر میں سر گرداں ہے بھوت جن پری اور ہمزاد کو تسخیر اور تابع کرنے کے لئے۔
بھوت، دیو جن اور پری بارے ہمارا ما ننا ہے کہ یہ ناری مخلوق ہیں یعنی جیسے آ دم کو اللہ تعالی نے مٹی سے بنایا اسی طرح جنوں کو آ گ سے تخلیق کیا ۔ انسانوں اور جنوں کی تخلیق اور مقصد تخلیق کا بیان قرآن مجید کی آ یت کریمہ ” وما خلقت الجن ولانس الالیعبدون ” میں مو جود ہے قرآن مجید میں انسان اور جن کی تخلیق کی طرح ہمزاد بارے ہمیں کو ئی ایسی واضح رہنمائی تو ہمیں نہیں ملتی لیکن بعض مفسرین اور علماء کے نزدیک قرآن مجید کی آ یت کریمہ "من کل شی خلقنا زوجین لعلکم تذ کرون ( تر جمہ ۔ ہم نے دنیا کی ساری چیزوں کو زوجین بنایا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو )” میں زوجین سے "نر مادہ "مرادہے لیکن ایک مکتب فکر کی رائے ہے کہ زوجین سے مراد صرف نر اور مادہ نہیں بلکہ جوڑا جوڑا ہے یعنی ایک نہیں دو ، ان کا ماننا ہے کہ ذات انسان جوڑا جوڑا ہے مطلب یہ کہ بظاہر ہمارا خاکی جسم ایک ہے جو مادہ سے بنا ہے اور دکھائی دیتا ہے موت اس کا مقدر ہے اور اس مادی جسم نے ایک دن مرنے کے بعد نے بیکار اور فنا ہو جانا ہے انسان کی دوسرا جسم وہ جسم لطیف ہے جو انسا نی مادہ جسم کے مرنے اور فنا ہو جانے کے بعد بھی بد ستور باقی رہتا ہے عملیات کی دنیا میں اسی جسم لطیف کو روح اور نوری جسم اور ہمزاد کہا جاتا ہے
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ہمزاد فارسی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ساتھ "پیدا ہو نا” ہے انگریزی میں ساتھ پیدا ہو نے والے کے لئے ٹوئن اینجل کی اصطلاح استعمال کی جا تی ہے لیکن ہمزاد کے لئے انگریزی میں ایسٹرل باڈی (ASTRAL BODY)عربی میں قرین اور اردو میں جسم لطیف کے الفاظ بھی استعمال کئے جا تے ہیں ۔
سر آپ ٹھیک تو ہیں نا ، آپ کے لئے چا ئے لے آ ؤں ۔ اسلم کی آ واز نے میری سو چوں کا تسلسل توڑ دیا ۔ہاں یار چا ئے بھی لے آ ؤ اور ساتھ کچھ بسکٹ بھی لے آ نا مجھے بھوک بھی لگی ہے ۔ میں نے ادھ کھلی آ نکھوں سے اسے دیکھا اور آ ہستہ سے جواب دیا
اسلم جی کہہ کر کمرے سے با ہر نکل گیا اور میری سوچ کے سفر کا پھر ہمزاد محور بن گیا ۔ نیلا با بامیرے ذہن پر سوار ہو گیا تھا مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی کسی بھوت ، پری یا ہمزاد کو تسخیر کرنے بارے سو چا بھی ہو۔ نہ یہ میدان میرا ہے اور نہ ہی میں اس میدان کا شہسوارہوں ، البتہ بچپن سے ہی پڑھنے کی عادت تھی مطا لعہ کا شوق دو آ نے کی لا ئبریری کی ابن صفی ، عمران سیریز سے شروع ہوا اور نسیم حجازی کے ناول ، اخبارات ،کتا بوں اور رسا لوں تک جا پہنچا ۔ سب رنگ ، سسپنس اور جا سوسی ڈائجسٹ میں چھپنے والی سلسلہ وار کہا نیاں دیوتا ،صدیوں کا بیٹا اور جا نگلوس ایک زمانے تک میری فیورٹ رہیں ، یہ بچپن کا ہی دور تھا جب ہم نے محی الدین نواب کے دیوتا سے متا ثر ہو کر ٹیلی پیتھی سیکھنے کی عملی کو شش کی ۔ کئی کئی گھنٹوں رات کو اگر بتی جلا کر اسے گھورنے کی پریکٹس کرتے رہے چند روزہ جلتی ہو ئی موم بتی کی لو پر نظر گاڑے رکھنے کی مشقت سے ٹیلی پیتھی کی صلا حیت تو نہیں ملی البتہ آ نکھیں اتنی سرخ ہو گئیں کہ اماں کو لا لے پڑ گئے کہ ہا ئے میرے لا ڈلے کو کیا ہو گیا ، اماں نے مجھے پکڑا اور سرکاری ڈسپنسری والے کمپوڈر ڈاکٹر ساب کے پاس لے گئیں کہ پو چھا دیکھیں اسکی آ نکھوں کو کیا ہوا ہے ؟
ڈاکٹر ساب نے باری باری دو نوں آ نکھوں کی پتلیاں اوپر نیچے کیں دائیں با ئیں کھینچیں اور فرمایابچے کی آ نکھوں میں ککرے ہو گئے ہیں بورک ایسڈ سے دھو نا پڑیں گی ۔
بورک ایسڈ سے ڈاکٹر نے میری آ نکھیں کیسی دھو ئیں ذہن میں اس منظر کے تصور نے ایک لمحہ کے لئیمجھے ہمزاد سے غافل کر دیا ۔تبھی اسلم نے کہا سر چا ئے پی لیں ۔ میں نے آ نکھیں کھو لیں تو اسلم چا ئے کا مگ اور بسکٹ کا پیکٹ لئے کھڑا تھا ۔اچھا پیتا ہوں ۔تم یہ چا ئے اور بسکٹ سائیڈ سٹینڈ پر رکھ دو ۔ میں ذرا واش روم ہو لوں میں نے بیڈ سے اترتے ہو ئے کہا اور واش روم چلا گیا ۔ تھوڑی دیر بعدواش روم سے با ہر آ یا تو دیکھا کہ کمرے کے دروازے کھلے ہیں اور اسلم کمرے میں نہیں ہے ۔میں نے بیڈ کے سا ئیڈ سٹینڈ پر رکھے چا ئے کے مگ اور بسکٹ رول کے ساتھ گلاب کے پھول کی ایک نازک سی ٹہنی بھی پڑی ہے ۔گہرے سرخ رنگ کے گلاب کا یہ پھول اتنا تازہ اور اتنا مہکتا ہوا تھا جیسے اسے ابھی کو ئی باغ سے توڑ کر لا یا ہو۔محبت کا یہ اظہار دیکھ کر میں مسکرا دیا مجھے اسلم پر بہت پیار آیا ۔میں نے سو چا یقیناًاسلم ہی یہ پھول لایا ہو گا ظاہر ہے ابھی صبح ہو نے میں خا صی دیر تھی کوئی ملاقات تو نہیں آ سکتی اتنی رات گئے اسلم چا ئے لینے گیا ہو گا کوئی پھول بیچنے والا نظر آ گیا ہو گا اس نے لے لیا ہو گا ۔ یہ سو چتے ہو ئے میں نے گلاب کی ٹہنی اٹھائی اور پھول سو نگھنے لگا ۔تبھی اسلم کمرے کے اندر آ یا اور بو لا سر چا ئے تو آپ نے پی نہیں یہ تو ٹھنڈی ہو گئی ہو گی ۔ یہ سن کر میں نے ٹہنی کو سائیڈ پر رکھا چا ئے کا مگ اٹھایا اور چا ئے کے چسکی لگاتے ہو ئے اسلم سے پو چھا یار یہ اتنا تازہ گلاب کہاں سے مل گیا تمہیں اتنی صبح صبح ۔گلاب ۔۔ نہیں سر میں تو نہیں لایا یہ گلاب ۔۔ اسلم کے جواب نے مجھے الجھا دیا ، تم نہیں لا ئے توکون رکھ گیا ہے ؟ابھی کچھ دیر پہلے تو نہیں تھا میں واش روم سے واپس آیا تو یہ پڑا تھا ، کون لا یا اسے ؟ بڑ بڑاتے ہو ئے میری نظر دروازے پر پڑی تو سفیدبادلوں جیسا وہ غیر مر ئی سا احساس وہاں موجود تھا ۔۔۔
با قی اگلی قسط میں۔۔
ضرور پڑھیں ۔ بات بتنگڑ قسط 5