کرپشن زادے تحریر: محمد شہروز دنیا میں کرپشن کی دو اقسام پائی جاتی ہیں- ایک وہ جو باقی دنیا میں...
Read moreDetailsچھوٹو گینگ کا سرغنہ پاک فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر تیار پیدائشی ڈاکو نہیں، اس نے پولیس کے ظلم...
Read moreDetailsتعلیمی اداروں میں کھیلو ں کو فروغ کے لئے حکو مت پنجا ب فنڈز فراہم کر رہی ہے ، ایم...
Read moreDetailsآواز تحصیل فورم لیہ کے زیر اہتمام ٹیکس کلچر کے فروغ میں معاشرہ کے کردار کے مو ضوع پر مذاکرہ...
Read moreDetailsضلع لیہ کے مزید 60گرلز بوائز پرائمری سکول پرائیویٹ کرنے کی سکیرٹری تعلیم کی طرف سے لسٹ جاری لیہ(صبح پا...
Read moreDetailsماڈل ریلوے اسٹیشن کا ریسٹ ہاؤس اور رہائشی کوارٹرز غیر قا نو نی قابضین کے تصرف میں کیوں ؟ لیہ(صبح...
Read moreDetailsاستاد کی کم عمر طالبعلم سے زیادتی، ملزم گرفتار لیہ(صبح پا کستان)مدرسہ کے استاد کی کم عمر طالبعلم سے زیادتی،...
Read moreDetailsچھوٹوگینگ کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے پولیس نوجوانوں کے ورثاء کا احتجا ج لیہ(صبح پا کستان)راجن پور میں چھوٹوگینگ کے...
Read moreDetailsایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج کا ڈسٹرکٹ جیل کا دورہ لیہ (صبح پا کستان)ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج لیہ جاوید اقبال شیخ...
Read moreDetailsپولیس کا نشیبی علاقوں میں سرچ آپریشن ،کئی مشکوک اشخاص حراست میں لیہ(صبح پا کستان)پولیس اوردیگرقانون نافذکرنے والے اداروں کاتھانہ...
Read moreDetailsلاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...
Read moreDetails
ایک زما نہ میں سر کلر روڈ پر واقع افضل بلڈ نگ سا بقہ یو بی ایل برانچ کے سا منے ایک ہو میو پیتھ ڈاکٹر عبد الحق کا کلینک ہوا کرتا تھا یہ دو بھا ئی تھے دوسرے بھائی کا نام علا مہ محمد ارشد تھا جو گورٹمنٹ ڈگری کالج میں پرو فیسر تھے دونوں کا نظریاتی اور فکری تعلق جماعت اسلامی سے تھا اسی نا طے ہمارے بھی مہربان اور محترم تھے ڈاکٹر عبد الحق ہمارے دوست تھے سو ہم نے لیہ میں ہو میو پیتھ کالج قیام بارے ان سے مشاورت کا فیصلہ کیا میں نے ان سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ کیوں نہ چند دوستوں کے اشتراک سے یہاں ہو میو پیتھ کالج کے قیام کی جدو جہد کا آ غاز کیا جائے انہوں نے میری تجویز سے اتفاق کیا اور طے پایا کہ دو ستوں کے ساتھ ایک میٹنگ کی جائے اور یہ معا ملہ دوستوں کی میٹنگ میں ڈسکس کیا جائے ۔ ہو نے والی میٹنگ میں علامہ ارشد ، ڈاکٹر عبد الحق ، ڈاکٹر ایم آر اختر اور
نہیں اور آپ ہم سے خفا ہو گئے تو کہنے لگے نہیں ایسی کو ئی بات نہیں میں نے رابطہ کیا تھا ڈاکٹر صاحب سے لیکن انہوں نے بتایا کہ کالج قیام کا فیصلہ ابھی پیڈ نگ ہو گیا ہے ۔۔ لیکن اب پتا چلا ہے کہ کچھ اور دوست مل کر کالج بنا رہے ہیں میں یہ سن کر بڑا حیران ہوا میں نے کہا کہ ہمارے بغیر تو بو لے۔۔ شا ئد
میرے اس سوال کا جواب تو مجھے نہیں ملاکہ کالج بنا نے والے کون لوگ ہیں ، لیکن مجھے یہ یقین ہو گیا کہ آ ئیڈیا چوری ہو گیا ہے اور ہم سے زیادہ با وسائل لو گوں نے اس پرا جیکٹ پر کام شروع کر دیا ہے ۔
ہمارے مہربان بزرگ دوست ہوا کرتے تھے فضل حق رضوی ، محکمہ ریو نیو سے ریٹائرڈ تحصیلدار تھے ۔انہیں ہو میو پیتھی سے گہرا شغف تھا اور اسی نا طے ہو میو پیتھ ڈاکٹر بھی کہلایا کرتے تھے ۔ ڈاکٹر فضل حق رضوی ایک علم دوست شخصیت تھے شاعر بھی تھے انہی دنوں
اس رشتہ کو نبھا یا ۔ مہر نور محمد تھند نے بعد میں تاریخ کو مو ضوع بنا تے ہوئے اولیائے لیہ ، تاریخ لیہ اور تاریخ بھکر سمیت بہت سی کتب تصنیف کیں ۔ ہفت روزہ اخبار لیہ کا آ غاز بھی کیا ۔ بطور صحافی وہ ایک نڈر اور بے باک جرنلسٹ تھے اخبار لیہ کے حوالے سے ایک یاد گار واقعہ جو میں یہاں قارئین کرام سے شیئر کرنا چا ہوں گا وہ کچھ یوں ہے کہ لیہ کے ایک ڈپٹی کمشنر ہوا کرتے تھے اور نام تھا ان کا انعام الحق ، ان کے زما نہ میں ضلع کو نسل میں ہو نے والے ٹھیکوں کی نیلامی کے روز مہر نور محمد تھند بھی اپنے صحافتی فرائض کی ادا ئیگی کے لئے ضلع کو نسل میں مو جود تھے شا ئد مہر صاحب کو محسوس ہوا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے جب مہر نور محمد تھند نے ٹھیکوں میں ہو نے والی مشکوک کاروائی کی نشا ند ہی کی تو مو قع پر موجود سرکاری اہلکاران کو نا گوار گذریابات تو تکار تک جا پہنچی مہر نور محمد تھند ضلع کو نسل سے واپس اپنے گھر آ گئے بعد میں خبر ملی کہ ضلع کو نسل کے اہلکاران کی رپورٹ پر مہر نور محمد تھند کے خلاف کار سرکار میں مداخلت کے جرم پر تھا نہ سٹی میں پرچہ درج کر لیا گیا ہے ہم نے اس اڑتی خبر کی تصدیق چا ہی تو خبر بالکل درست نکلی دوستوں کے مشورے سے مہر نور محمد تھند نے بھی ضلع کو نسل کے چند ملازمین کے خلاف تھا نے میں درخواست گذاردی جس میں زدو کوب کرنے اور دھمکیاں دینے کا الزام لگا یا گیا تھا لیکن تو قع کے عین مطا بق پو لیس والوں نے ان کی ایک نہ سنی جس پر انہوں نے ہم دوستوں سے رابطہ کیا ۔ اس زما نے میں ہم نے ڈسٹرکٹ پریس کلب کی ایک متوازی تنظیم قائم کی ہو ئی تھی ہم نے اپنی اس تنظیم کا اجلاس طلب کر لیا چوک اعظم سے عابد کھرل ۔ کروڑ سے طارق پہاڑ اور فتح پور سے اقبال اعظم چیمہ سمیت لیہ کے بہت سے دوستوں نے اس ہنگا می اجلاس میں شر کت کی فیصلہ ہوا کہ ڈسٹرکٹ انتظا میہ سے بات کی جائے کہ یا تو مہر نور محمد تھند کے خلاف درج پولیس پرچہ خارج کیا جائے یا پھر ضلع کو نسل کے ملازمین کے خلاف بھی مہر نور محمد کی طرف سے دی گئی درخواست پر کاروئی کرتے ہو ئے مقد مہ درج کیا جائے ۔ ہم نے ڈسٹرکٹ انتظا میہ سے بات کرنے کی بہت کو شش کی مگر کسی نے ہماری نہ سنی اور یوں مایوس ہو کر ہم سرفراز چوک (گھوڑا چوک ) پر احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھ گئے ۔ جوں جوں وقت گذرتا گیا دوستوں کی تعداد احتجاجی کیمپ میں بڑ ھتی گئی اور تھوڑے ہی وقت میں ضلع بھر کے کثیر صحا فی دوست ہمارے ساتھ ا حتجاج میں شا مل ہو گئے آ کر چند گھنٹے گذ ر نے کے بعد ڈسٹرکٹ انتظا میہ کو بر لب سڑک بیٹھے صحا فیوں کا خیال آ ہی گیا ، مرحوم ملک ممتاز حسین کلول مجسٹریٹ اور ملک محمد رمضان مجسٹریٹ مذاکرات کے لئے کیمپ میں آ ئے ہمارے مطالبات سنے اور چلے گئے کچھ اور وقت گذرا تو چوہدری یعقوب جو اس وقت اسسٹنٹ کمشنر تھے کیمپ میں آ ئے اور خو شخبری سنا ئی کہ گو مہر نور محمد تھند نے کار سرکار میں مداخلت کر کے زیادتی کی ہے مگر ڈپٹی کمشنر کی خصو صی ہدا یت پر ضلع کو نسل کے ملازمین نے اپنی درخواست واپس لے لی ہے اور یوں یہ معا ملہ حل ہوا اور ہمارا احتجاج کا میاب ہوا ۔ احتجاجی کیمپ میں دیگر شریک ہو نے والے صحافی دوستوں میں گلزار شاہ ،مقبول الہی ، مختیار جوتہ ،جا وید لو دھی ،حنیف شیرازی ، شیر خان ، منیر عاطف ، عبد الرحمن قریشی اور مہر نور محمد تھند کے نام مجھے یاد ہیں ۔
ڈپٹی کمشنر انعام الحق بڑے وضعدار ، دبنگ اور قدر شناش آ فیسر تھے میرے ذاتی طور پر ان سے اچھے تعلقات تھے بعد میں جب ہماری ان سے ملاقات ہو ئی تو وہ ہمارے اس احتجاجی کیمپ کے انعقاد پر خا صے ناراض تھے ا نہوں نے گلہ کرتے ہو ئے سوال کیا کہ اس دن وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کا دورہ لیہ متوقع تھا وہ تو شکر ہوا کہ دورہ کینسل ہو گیا اگر وزیر اعلی آ جاتے تو ڈسٹرکٹ انتظا میہ کی کیا پو زیشن بنتی ؟ ان کا سوال سن کر میں نے عرض کیا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن اگر پو لیس ہمارے صحافی دوست کو اٹھا لیتی تو سو چیئے کہ ہم صحا فیوں کی کیا عزت رہتی ؟ میرا یہ جواب سن کر وہ خاموش ہو گئے ۔ باقی اگلی قسط میں ۔۔۔