• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

امداد کی تقسیم اور کورونا کا پھیلاؤ، مظہر اقبال کھوکھر 

webmaster by webmaster
اپریل 14, 2020
in کالم
0
ہمیں کورونا نہیں ہو سکتا۔۔۔! مظہر اقبال کھوکھر
ایک افسوس ناک خبر کے مطابق ملتان کے قاسم پورہ سنٹر میں احساس پروگرام کے تحت مستحقین میں امداد کی نقد رقوم کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے کے نتیجے میں ایک بزرگ خاتون جانبحق اور 20 خواتین زخمی ہو گئیں جبکہ راجن پور سمیت مختلف شہروں میں احساس سنٹرز پر بدنظمی کی وجہ سے دھکم پیل کے واقعات سامنے آئے جہاں خواتین آپس میں گتھم گتھا ہوگئیں جبکہ وزیر اعلٰی پنجاب نے ملتان اور راجن پور کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
اس وقت دنیا بھر کی طرح وطن عزیز بھی کورونا وائرس کی زد میں ہے اور پاکستانی قوم اس وباء کے ساتھ بھر پور طریقے سے جنگ لڑ رہی ہے پورے ملک میں گزشتہ تین ہفتوں سے لاک ڈاون ہے کھانے پینے اور اشیاء ضروریہ کے علاوہ تمام مارکیٹیں بند اور کاروبار زندگی معطل ہے یہاں تک کہ تمام مذہبی مقامات زیارت گاہیں بند اور عبادت گاہیں چند مخصوص لوگوں تک محدود کر دی گئی ہیں گزشتہ جمعہ کو بھی حکومت کی طرف سے جاری کردہ طریقہ کار کے مطابق 5 سے 7 افراد کو جمعہ کے اجتماع میں آنے کی اجازت دی گئی جبکہ باقی لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں نماز ظہر ادا کی۔
یقیناً جس طرح دنیا بھر کے مختلف ممالک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی خبریں سامنے آرہی ہیں اور جس شدت کے ساتھ اس وباء میں اضافہ ہو رہا ہے اس سنگین صورتحال کے تناظر میں نہ صرف حکومت بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ زیادہ سے زیادہ احتیاط کریں اس کا بہترین حل یہی ہے کہ ہم گھروں میں رہیں پوری دنیا کے طبی ماہرین اس بات پر متفق ہیں بار بار ہاتھ دھونے کے علاوہ سماجی فاصلہ برقرار رکھ کر اس وائرس کی چین کو توڑا جاسکتا ہے۔
اسی بنیاد پر حکومت بھی یہی کوشش کر رہی ہے کہ لوگوں کے درمیان سماجی فاصلے کو  یقینی بنانے  کے لیے  لوگوں کو زیادہ سے زیادہ گھروں تک محدود رکھا جاۓ یہی وجہ ہے ڈبل سواری پر پابندی ہے اور انتہائی ضرورت کے لیے کھولی جانے والی دکانوں ، دفاتر اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں اس مخصوص فاصلے کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مگر تشویشناک پہلو یہ ہے گزشتہ جمرات سے لے کر اب تک ملک بھر میں قائم کیے گئے احساس مراکز  پر امدادی رقوم کی تقسیم کے غیر محفوظ طریقہ کار کی وجہ سے ایک نیا خطرہ سر اٹھا رہا ہے ملتان اور راجن پور کے واقعات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان مخصوص فاصلہ برقرار رکھنے کا فارمولا ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے۔
اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کے غریب عوام کو دو طرفہ لڑائی کا سامنا ہے ایک طرف انہیں کورونا سے بچنا ہے اور دوسری طرف بھوک سے بھی لڑنا ہے کیونکہ وطن عزیز کی زیادہ تر آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے جو غربت کے عالمی معیار سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہی ہے جن کا گزر بسر روزانہ کی آمدنی پر منحصر ہوتا ہے یہی وجہ ہے لاک ڈاون کے بعد پورے ملک سے یہ آواز اٹھی کہ مشکل کی اس گھڑی میں غریب سفید پوش اور عام لوگوں کے لیے فوری طور پر امداد جاری کی جاۓ۔ گوکہ حکومت فوری طور پر اس کام کا آغاز کرنے میں ناکام رہی مگر دیر آئد درست آئد اب اس کام کا آغاز ہو گیا ہے اس حوالے سے ملک بھر میں ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں میں 144 ارب روپے تقسیم کیے جائیں گے اور فی خاندان 12 ہزار روپے دیے جائیں گے گوکہ رجسٹریشن کے مراحل میں بہت سی ٹیکنیکل خامیاں سامنے آرہی ہیں مگر پھر بھی یہ بات باعث اطمینان ہے کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے جس کے تحت پہلے مرحلے میں بینظیر انکم سپورٹ کے لیے رجسٹرڈ خاندانوں کو امدادی رقوم  کی فراہمی شروع کر دی گئی ہے دوسرے مرحلے میں احساس کفالت پروگرام کے لیے رجسٹرڈ ہونے والوں کو امداد جاری کی جاۓ گی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ملک بھر میں قائم کردہ 17 ہزار احساس مراکز  پر مستحق لوگوں کو بائیو میٹرک تصدیق کے بعد نقد رقوم دی جارہی ہیں۔ مگر تشویشناک پہلو یہ ہے لاک ڈاون ، بازاروں ، مارکیٹوں ، دفاتر کی تالا بندی اور مساجد کی بندش کے باوجود ملک بھر میں  لاکھوں لوگوں کو امداد کے حصول کے لیے باہر نکال دیا گیا ہے اور پھر  غیر محفوظ طریقہ کار کے زریعے  احساس مراکز پر  لوگوں کو کورونا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے آنے والی خبروں کے مطابق بہت سے مراکز ایسے ہیں جہاں محدود فاصلے اور دیگر حفاظتی اقدامات کو نظر انداز کیا جارہا ہے ملتان اور راجن پور کے واقعات اس کی واضح مثال ہیں۔ احساس سہولت مراکز پر آنے والی اکثر خواتین ہوتی ہیں اور پھر ان کے ساتھ کوئی ایک مرد ضرور ہوتا ہے ایسی صورتحال میں  مرکز کے اندر پہنچ جانے والی خواتین کے لیے تو باہمی فاصلہ برقرار رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر مراکز کے باہر خواتین کا جو رش ہوتا ہے اور  پھر ان کے لواحقین کا جو  رش ہوتا ہے اسے دیکھ کر ان خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ یہ صورتحال امداد تقسیم کرتے کرتے کہیں کورونا کے پھیلاؤ کا سبب نہ بن جاۓ۔
ایک ایسے وقت میں جب ہم نے کورونا سے بھی بچنا ہے اور بھوک سے بھی لڑنا ہے حکومت کو امدادی رقوم کی تقسیم کے لیے کوئی محفوظ طریقہ کار اپنانا چاہئے کیونکہ حکومت کے پاس بینظیر انکم سپورٹ اور احساس پروگرام کے تحت رجسٹرڈ ہونے والوں کا مکمل ڈیٹا موجود ہے جس میں ان کے موبائل نمبر سے لیکر رہائش تک سب معلومات شامل ہیں  اگر لوگوں کو موبائل اکاؤنٹ یا منی آرڈر کے زریعے گھروں سے نکلے بغیر امدادی  رقوم ان تک پہنچانے کا کوئی طریقہ کا طے کرے تو اتنی بڑی تعداد میں  لوگوں کو گھروں سے نہیں نکلنا پڑے گا یا پھر بائیو میٹرک تصدیق اتنی ہی  لازم ہے تو دیہی علاقوں میں چک اور موضع اور شہری علاقوں میں محلہ جاتی بنیاد وہاں جا کر یہ امداد تقسیم کی جاسکتی ہے اس سے لوگوں کو گھروں اور علاقوں تک محدود رکھا جاسکتا ہے کیونکہ موجودہ صورتحال معلومات کی کمی کی وجہ سے ہر مرد و خاتون شناختی کارڈ لے کر احساس مراکز پر پہنچ جاتے ہیں لیکن اگر ہر ضلع کی  انتظامیہ کی طرف سے ہر محلے علاقے کے لیے باقاعدہ اعلان کر دیا جاۓ کہ آپ سب کو اپنے گھروں کے قریب امدادی رقوم دی جائیں گی تو اس بھی رش کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے حکومت کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کیونکہ ہماری تھوڑی سی غفلت کسی بڑے المیے کو جنم دے سکتی ہے جس کورونا سے بچنے کے لیے لوگ گھروں میں  بیٹھے تھے کہیں ایسا نہ ہو کہ  امداد  لیتے لیتے اس کورونا کو بھی ساتھ گھروں میں لے جائیں#
03007785530
mkhokhar433@gmail.com
Attachments area
Tags: colimn by mazhar khokhar
Previous Post

منقول خط ہے ۔ ریاض الحق بھٹی

Next Post

کورونا وائرس سوائن فلو سے زیادہ خطرناک ہے ،متاثرہ ممالک لاک ڈاون میں نرمی نہ کریں :عالمی ادارہ صحت

Next Post
کورونا وائرس سوائن فلو سے زیادہ خطرناک ہے ،متاثرہ ممالک لاک ڈاون میں نرمی نہ کریں :عالمی ادارہ صحت

کورونا وائرس سوائن فلو سے زیادہ خطرناک ہے ،متاثرہ ممالک لاک ڈاون میں نرمی نہ کریں :عالمی ادارہ صحت

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
ایک افسوس ناک خبر کے مطابق ملتان کے قاسم پورہ سنٹر میں احساس پروگرام کے تحت مستحقین میں امداد کی نقد رقوم کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے کے نتیجے میں ایک بزرگ خاتون جانبحق اور 20 خواتین زخمی ہو گئیں جبکہ راجن پور سمیت مختلف شہروں میں احساس سنٹرز پر بدنظمی کی وجہ سے دھکم پیل کے واقعات سامنے آئے جہاں خواتین آپس میں گتھم گتھا ہوگئیں جبکہ وزیر اعلٰی پنجاب نے ملتان اور راجن پور کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
اس وقت دنیا بھر کی طرح وطن عزیز بھی کورونا وائرس کی زد میں ہے اور پاکستانی قوم اس وباء کے ساتھ بھر پور طریقے سے جنگ لڑ رہی ہے پورے ملک میں گزشتہ تین ہفتوں سے لاک ڈاون ہے کھانے پینے اور اشیاء ضروریہ کے علاوہ تمام مارکیٹیں بند اور کاروبار زندگی معطل ہے یہاں تک کہ تمام مذہبی مقامات زیارت گاہیں بند اور عبادت گاہیں چند مخصوص لوگوں تک محدود کر دی گئی ہیں گزشتہ جمعہ کو بھی حکومت کی طرف سے جاری کردہ طریقہ کار کے مطابق 5 سے 7 افراد کو جمعہ کے اجتماع میں آنے کی اجازت دی گئی جبکہ باقی لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں نماز ظہر ادا کی۔
یقیناً جس طرح دنیا بھر کے مختلف ممالک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی خبریں سامنے آرہی ہیں اور جس شدت کے ساتھ اس وباء میں اضافہ ہو رہا ہے اس سنگین صورتحال کے تناظر میں نہ صرف حکومت بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ زیادہ سے زیادہ احتیاط کریں اس کا بہترین حل یہی ہے کہ ہم گھروں میں رہیں پوری دنیا کے طبی ماہرین اس بات پر متفق ہیں بار بار ہاتھ دھونے کے علاوہ سماجی فاصلہ برقرار رکھ کر اس وائرس کی چین کو توڑا جاسکتا ہے۔
اسی بنیاد پر حکومت بھی یہی کوشش کر رہی ہے کہ لوگوں کے درمیان سماجی فاصلے کو  یقینی بنانے  کے لیے  لوگوں کو زیادہ سے زیادہ گھروں تک محدود رکھا جاۓ یہی وجہ ہے ڈبل سواری پر پابندی ہے اور انتہائی ضرورت کے لیے کھولی جانے والی دکانوں ، دفاتر اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں اس مخصوص فاصلے کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مگر تشویشناک پہلو یہ ہے گزشتہ جمرات سے لے کر اب تک ملک بھر میں قائم کیے گئے احساس مراکز  پر امدادی رقوم کی تقسیم کے غیر محفوظ طریقہ کار کی وجہ سے ایک نیا خطرہ سر اٹھا رہا ہے ملتان اور راجن پور کے واقعات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان مخصوص فاصلہ برقرار رکھنے کا فارمولا ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے۔
اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کے غریب عوام کو دو طرفہ لڑائی کا سامنا ہے ایک طرف انہیں کورونا سے بچنا ہے اور دوسری طرف بھوک سے بھی لڑنا ہے کیونکہ وطن عزیز کی زیادہ تر آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے جو غربت کے عالمی معیار سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہی ہے جن کا گزر بسر روزانہ کی آمدنی پر منحصر ہوتا ہے یہی وجہ ہے لاک ڈاون کے بعد پورے ملک سے یہ آواز اٹھی کہ مشکل کی اس گھڑی میں غریب سفید پوش اور عام لوگوں کے لیے فوری طور پر امداد جاری کی جاۓ۔ گوکہ حکومت فوری طور پر اس کام کا آغاز کرنے میں ناکام رہی مگر دیر آئد درست آئد اب اس کام کا آغاز ہو گیا ہے اس حوالے سے ملک بھر میں ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں میں 144 ارب روپے تقسیم کیے جائیں گے اور فی خاندان 12 ہزار روپے دیے جائیں گے گوکہ رجسٹریشن کے مراحل میں بہت سی ٹیکنیکل خامیاں سامنے آرہی ہیں مگر پھر بھی یہ بات باعث اطمینان ہے کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے جس کے تحت پہلے مرحلے میں بینظیر انکم سپورٹ کے لیے رجسٹرڈ خاندانوں کو امدادی رقوم  کی فراہمی شروع کر دی گئی ہے دوسرے مرحلے میں احساس کفالت پروگرام کے لیے رجسٹرڈ ہونے والوں کو امداد جاری کی جاۓ گی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ملک بھر میں قائم کردہ 17 ہزار احساس مراکز  پر مستحق لوگوں کو بائیو میٹرک تصدیق کے بعد نقد رقوم دی جارہی ہیں۔ مگر تشویشناک پہلو یہ ہے لاک ڈاون ، بازاروں ، مارکیٹوں ، دفاتر کی تالا بندی اور مساجد کی بندش کے باوجود ملک بھر میں  لاکھوں لوگوں کو امداد کے حصول کے لیے باہر نکال دیا گیا ہے اور پھر  غیر محفوظ طریقہ کار کے زریعے  احساس مراکز پر  لوگوں کو کورونا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے آنے والی خبروں کے مطابق بہت سے مراکز ایسے ہیں جہاں محدود فاصلے اور دیگر حفاظتی اقدامات کو نظر انداز کیا جارہا ہے ملتان اور راجن پور کے واقعات اس کی واضح مثال ہیں۔ احساس سہولت مراکز پر آنے والی اکثر خواتین ہوتی ہیں اور پھر ان کے ساتھ کوئی ایک مرد ضرور ہوتا ہے ایسی صورتحال میں  مرکز کے اندر پہنچ جانے والی خواتین کے لیے تو باہمی فاصلہ برقرار رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر مراکز کے باہر خواتین کا جو رش ہوتا ہے اور  پھر ان کے لواحقین کا جو  رش ہوتا ہے اسے دیکھ کر ان خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ یہ صورتحال امداد تقسیم کرتے کرتے کہیں کورونا کے پھیلاؤ کا سبب نہ بن جاۓ۔
ایک ایسے وقت میں جب ہم نے کورونا سے بھی بچنا ہے اور بھوک سے بھی لڑنا ہے حکومت کو امدادی رقوم کی تقسیم کے لیے کوئی محفوظ طریقہ کار اپنانا چاہئے کیونکہ حکومت کے پاس بینظیر انکم سپورٹ اور احساس پروگرام کے تحت رجسٹرڈ ہونے والوں کا مکمل ڈیٹا موجود ہے جس میں ان کے موبائل نمبر سے لیکر رہائش تک سب معلومات شامل ہیں  اگر لوگوں کو موبائل اکاؤنٹ یا منی آرڈر کے زریعے گھروں سے نکلے بغیر امدادی  رقوم ان تک پہنچانے کا کوئی طریقہ کا طے کرے تو اتنی بڑی تعداد میں  لوگوں کو گھروں سے نہیں نکلنا پڑے گا یا پھر بائیو میٹرک تصدیق اتنی ہی  لازم ہے تو دیہی علاقوں میں چک اور موضع اور شہری علاقوں میں محلہ جاتی بنیاد وہاں جا کر یہ امداد تقسیم کی جاسکتی ہے اس سے لوگوں کو گھروں اور علاقوں تک محدود رکھا جاسکتا ہے کیونکہ موجودہ صورتحال معلومات کی کمی کی وجہ سے ہر مرد و خاتون شناختی کارڈ لے کر احساس مراکز پر پہنچ جاتے ہیں لیکن اگر ہر ضلع کی  انتظامیہ کی طرف سے ہر محلے علاقے کے لیے باقاعدہ اعلان کر دیا جاۓ کہ آپ سب کو اپنے گھروں کے قریب امدادی رقوم دی جائیں گی تو اس بھی رش کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے حکومت کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کیونکہ ہماری تھوڑی سی غفلت کسی بڑے المیے کو جنم دے سکتی ہے جس کورونا سے بچنے کے لیے لوگ گھروں میں  بیٹھے تھے کہیں ایسا نہ ہو کہ  امداد  لیتے لیتے اس کورونا کو بھی ساتھ گھروں میں لے جائیں#
03007785530
mkhokhar433@gmail.com
Attachments area
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.