• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

مہ رُخ۔۔ادبی افق کا نیا دمکتا ستارہ .. حسیب اعجاز عاشرؔ

webmaster by webmaster
جنوری 3, 2020
in کالم
0
مہ رُخ۔۔ادبی افق کا نیا دمکتا ستارہ .. حسیب اعجاز عاشرؔ

زندگی کے قرطاس پہ کچھ قلم واقعی میں موتی بکھیر دیتے ہیں ان قلمو ں کے لفظ کسی کے لیے دوا ہو تے ہیں اور کسی کے لیے دعا۔ادب اور ادیب عقل اور فہم سے ذرا مختلف چیز ہے اکثر ادبا نے اپنی تحریروں سے زندگی میں واقعیت برپا کی ہے اور شاید ہمیشہ یہ سلسلہ رہے گا۔

ضعیفی میں بڑی باتیں کرنا دانائی ہے ہی مگر کم عمری میں دانائی پرونا بہت کم لوگوں کا خاصہ ہے اور اِس صف میں ایک نمایاں نام شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والی ہونہار سٹوڈنٹ مہ رُخ چودھری کا بھی ہے۔ نہایت ہی کم عمری میں نہ صرف کالم نگاری افسا نہ میں طبع آزمائی کر رہی ہیں بلکہ شعری اُفق میں بھی روشنا ئی بکھیرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔گزشتہ دنوں ان کے ساتھ ہونے والی نشست میں انہوں نے اپنی شخصیت اور قلمی فن و ہنر بارے کئے رازوں سے پردہ ہٹایا ان کا کہنا تھاکہ”میں ایک سنجیدہ مزاج۔تنہائی پسند اور خاموش کن انسان ہوں۔ لو گوں کے سا تھ رشتہ صرف مہربا نی کی حد تک ہے۔ ہم تین بہن بھائی ہیں میرے بڑے بھائی میرے دوست ہیں اور میرا یقین۔چھوٹا بھائی میرا پیار۔ ماں با پ ہماری کائنات کی رونق ہوتے ہیں اور میں خدا سے دعا کرتی ہوں میری کائنات کی رونق سدا قائم رہے“۔یہ بات واضح ہوگئی کہ ماں باپ سے محبت اور اُن کی قدرومنزلت کا ہی کمال خاص ہے کہ عرصہ قلیل قلمی حلقے میں وہ مقام حاصل کر لیا جس جو چھونے کیلئے بڑے بڑے لکھاریوں کو بھی کئی دہائیاں درکار ہوتی ہیں۔ ایک سوال پر اُنہوں نے بتایا کہ مجھے فطری طور پر ادب سے لگاؤ ہے کسی بھی نقطے کو میں عام لوگوں سے ذرا مختلف سو چتی ہوں اور پھر اس پر لکھ کر مجھے تسکین ملتی ہے،مھے پچپن سے ہی لکھنے کا شوق رہالیکن با قاعدہ کالج کے دنوں میں لکھنا شروع کیا 17 سال کی عمر میں بزم ادب میں میری غزل کو بہت سراہا گیا تھا اورپہلا کالم گزشتہ سال روزنامہ آفتاب میں شائع ہوا۔لکھنے کے مقصدپر کہنا تھا کہ دراصل میں اکثر جو کچھ اپنے اردگرد رونما ہوتا دیکھتی ہوں اس کی حمایت یا بغاوت میں لکھتی ہوں۔لکھنے کے اوقات بارے کہا کہ یوں تو لکھنے کا کوئی مقرر وقت نہیں مگر اکثر میں رات گئے لکھتی ہوں یہ وہ وقت ہے جب عقل والے سوتے ہیں اور عشق والے جا گتے ہیں۔عورت یا مرد کس صنف کی حامی ہیں؟ کے جواب میں کہا کہ کسی صنف کی نہیں بلکہ انسان کی حامی ہوں کیونکہ غلط یا درست ہونے کے لیے مرد اور عورت ہونا ضروری نہیں صرف انسان ہو نا ضروری ہے۔یہ کونسا عشق ہے؟کے سوال پر کہنا تھا کہ ”کام اور مقاصد سے۔۔مجازی بھی ہو سکتا ہے الغرض یہ لا محدود ہے۔ اور میرے نزدیک میرا وہ عشق مجازی ہے جسے میں قرآن کے لفظوں کی طرح پاک سمجھتی ہوں“جب ماہ رُخ سے پوچھا گیا کہ شاعر کیسے بنا جائے؟تو ان کا کہنا تھا کہ شاعر بنا نہیں جا تا نہ ہی بنایا جاسکتا بلکہ یہ خدا داد صلا حیت ہے، ہاں۔۔اصلاح سے بہتری پیدا ضرور کی جاسکتی ہے اور میں نے دیوان غالب و داغ سے اصلاح لی۔ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ محبت خود ایک شعر کی طرح ہے جسے سمجھ آ جائے اسے سرور دیتی ہے اور جسے سمجھ نہ آئے اس پر بے سود ہو تا ہے۔دوسرا یہ کہ اصل محبت میں نا کا می نہیں ہوتی کیونکہ یہ تو بے حد و حسا ب ہوتی ہے مزید کہنا تھا کہ ایک انسان ایک خیال جو کہ میری زندگی کی رعنائی ہے میری شاعری اسی ایک شخص پر ہے جس سے میرا روح کا رشتہ ہے۔ماہ رُخ کا اس سوال پر کہ ادب آداب اور ادب ادیب ایک پیچ پر ہیں؟کہنا تھا کہ میرے خیا ل میں ادیب ایک طبیب کی مانند ہوتا ہے جسے معا شرے کا ہر مرض محسوس ہو جاتا ہے۔۔مگر آج کل نہ تو ادب رہا ہے نہ ادب شناس۔ ایک ادیب کو عام انسانوں سے ذرا گہرا اور سنجیدہ مزاج ہو نا چاہیے۔ آج کے ادیب کو اسلا ف کے ادب سے رہنمائی اور اصلاح کی ضرورت ہے یہ میں ہر برائی کو اس سلیقے سے بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ برائیوں کا سد باب ہو کیونکہ اگر قلم حق بجانب ہو تو یہ تلوار سے کہیں زیادہ طا قتور ہے لیکن اس کے لیے ہمارا اپنی مفاد پرستی سے مبرا ہو نا ہو گا۔اس مختصر نشست میں اس آخری سوال پرکہ اتنی چھوٹی سی عمر میں اتنی گہرائی اتنی دانشمندی اتنا عجز کیسے ہوتا ہے یہ سب؟ان کا لاجواب جواب کچھ یوں تھا کہ”علمیت کے لیے ذہین ہونا کا فی نہیں میرے خیا ل سے زندگی ایک معتبر استا د ہے جو ہمیں ہر پل تراش رہا ہے اب یا تو ہم کانچ کا ہتھیار بن جاتے ہیں یا پھر ایک نایاب نگیں۔بحر حال میری دانائی اور سنجیدگی یہ سب زندگی کی عطا ہے“۔ ان سے ہونے والی گفتگو میں یہ باتیں بھی آشکار ہوئی کہ انکی نظر میں زندگی ایک حسین چیز ہے مگر تب تک جب تک کہ مہربان ہو جو نہی اس نے آزمائش کا اردہ کیا تو یہ تراش دیتی ہے۔عیش و عشر ت اور زیادہ دولت کی انہیں چاہت نہیں سادگی کو ہی اصل حسن مانتی ہیں اور دوستی کے رشتہ کو تمام رشتوں سے کہیں زیادہ مضبوط اور پاکیزہ قرار دیتی ہیں، ان کی نظر میں عورت ایک وقار کا نام ہے ایک غرور کا نام ہے اور اور یہ غرور تب تک ہوتا ہے جب تک عورت کا وقار قائم رہتا ہے۔آخر میں مہ رُخ کیلئے دعا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی تہذیب اور اقدار کا دامن تھامے اپنے قلم سے اس معاشرے میں روشنیاں بانٹتی، رعنائیاں بکھیریتی اور دعائیں سمیٹتی رہیں۔

Tags: column by hasid ejaz
Previous Post

اماراتی ولی عہد نے پاکستان کو 20کروڑ ڈالر دینے کااعلان کردیا

Next Post

لیہ۔ ایل پی جی ری فلنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی جاری

Next Post

لیہ۔ ایل پی جی ری فلنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی جاری

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
زندگی کے قرطاس پہ کچھ قلم واقعی میں موتی بکھیر دیتے ہیں ان قلمو ں کے لفظ کسی کے لیے دوا ہو تے ہیں اور کسی کے لیے دعا۔ادب اور ادیب عقل اور فہم سے ذرا مختلف چیز ہے اکثر ادبا نے اپنی تحریروں سے زندگی میں واقعیت برپا کی ہے اور شاید ہمیشہ یہ سلسلہ رہے گا۔ ضعیفی میں بڑی باتیں کرنا دانائی ہے ہی مگر کم عمری میں دانائی پرونا بہت کم لوگوں کا خاصہ ہے اور اِس صف میں ایک نمایاں نام شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والی ہونہار سٹوڈنٹ مہ رُخ چودھری کا بھی ہے۔ نہایت ہی کم عمری میں نہ صرف کالم نگاری افسا نہ میں طبع آزمائی کر رہی ہیں بلکہ شعری اُفق میں بھی روشنا ئی بکھیرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔گزشتہ دنوں ان کے ساتھ ہونے والی نشست میں انہوں نے اپنی شخصیت اور قلمی فن و ہنر بارے کئے رازوں سے پردہ ہٹایا ان کا کہنا تھاکہ”میں ایک سنجیدہ مزاج۔تنہائی پسند اور خاموش کن انسان ہوں۔ لو گوں کے سا تھ رشتہ صرف مہربا نی کی حد تک ہے۔ ہم تین بہن بھائی ہیں میرے بڑے بھائی میرے دوست ہیں اور میرا یقین۔چھوٹا بھائی میرا پیار۔ ماں با پ ہماری کائنات کی رونق ہوتے ہیں اور میں خدا سے دعا کرتی ہوں میری کائنات کی رونق سدا قائم رہے“۔یہ بات واضح ہوگئی کہ ماں باپ سے محبت اور اُن کی قدرومنزلت کا ہی کمال خاص ہے کہ عرصہ قلیل قلمی حلقے میں وہ مقام حاصل کر لیا جس جو چھونے کیلئے بڑے بڑے لکھاریوں کو بھی کئی دہائیاں درکار ہوتی ہیں۔ ایک سوال پر اُنہوں نے بتایا کہ مجھے فطری طور پر ادب سے لگاؤ ہے کسی بھی نقطے کو میں عام لوگوں سے ذرا مختلف سو چتی ہوں اور پھر اس پر لکھ کر مجھے تسکین ملتی ہے،مھے پچپن سے ہی لکھنے کا شوق رہالیکن با قاعدہ کالج کے دنوں میں لکھنا شروع کیا 17 سال کی عمر میں بزم ادب میں میری غزل کو بہت سراہا گیا تھا اورپہلا کالم گزشتہ سال روزنامہ آفتاب میں شائع ہوا۔لکھنے کے مقصدپر کہنا تھا کہ دراصل میں اکثر جو کچھ اپنے اردگرد رونما ہوتا دیکھتی ہوں اس کی حمایت یا بغاوت میں لکھتی ہوں۔لکھنے کے اوقات بارے کہا کہ یوں تو لکھنے کا کوئی مقرر وقت نہیں مگر اکثر میں رات گئے لکھتی ہوں یہ وہ وقت ہے جب عقل والے سوتے ہیں اور عشق والے جا گتے ہیں۔عورت یا مرد کس صنف کی حامی ہیں؟ کے جواب میں کہا کہ کسی صنف کی نہیں بلکہ انسان کی حامی ہوں کیونکہ غلط یا درست ہونے کے لیے مرد اور عورت ہونا ضروری نہیں صرف انسان ہو نا ضروری ہے۔یہ کونسا عشق ہے؟کے سوال پر کہنا تھا کہ ”کام اور مقاصد سے۔۔مجازی بھی ہو سکتا ہے الغرض یہ لا محدود ہے۔ اور میرے نزدیک میرا وہ عشق مجازی ہے جسے میں قرآن کے لفظوں کی طرح پاک سمجھتی ہوں“جب ماہ رُخ سے پوچھا گیا کہ شاعر کیسے بنا جائے؟تو ان کا کہنا تھا کہ شاعر بنا نہیں جا تا نہ ہی بنایا جاسکتا بلکہ یہ خدا داد صلا حیت ہے، ہاں۔۔اصلاح سے بہتری پیدا ضرور کی جاسکتی ہے اور میں نے دیوان غالب و داغ سے اصلاح لی۔ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ محبت خود ایک شعر کی طرح ہے جسے سمجھ آ جائے اسے سرور دیتی ہے اور جسے سمجھ نہ آئے اس پر بے سود ہو تا ہے۔دوسرا یہ کہ اصل محبت میں نا کا می نہیں ہوتی کیونکہ یہ تو بے حد و حسا ب ہوتی ہے مزید کہنا تھا کہ ایک انسان ایک خیال جو کہ میری زندگی کی رعنائی ہے میری شاعری اسی ایک شخص پر ہے جس سے میرا روح کا رشتہ ہے۔ماہ رُخ کا اس سوال پر کہ ادب آداب اور ادب ادیب ایک پیچ پر ہیں؟کہنا تھا کہ میرے خیا ل میں ادیب ایک طبیب کی مانند ہوتا ہے جسے معا شرے کا ہر مرض محسوس ہو جاتا ہے۔۔مگر آج کل نہ تو ادب رہا ہے نہ ادب شناس۔ ایک ادیب کو عام انسانوں سے ذرا گہرا اور سنجیدہ مزاج ہو نا چاہیے۔ آج کے ادیب کو اسلا ف کے ادب سے رہنمائی اور اصلاح کی ضرورت ہے یہ میں ہر برائی کو اس سلیقے سے بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ برائیوں کا سد باب ہو کیونکہ اگر قلم حق بجانب ہو تو یہ تلوار سے کہیں زیادہ طا قتور ہے لیکن اس کے لیے ہمارا اپنی مفاد پرستی سے مبرا ہو نا ہو گا۔اس مختصر نشست میں اس آخری سوال پرکہ اتنی چھوٹی سی عمر میں اتنی گہرائی اتنی دانشمندی اتنا عجز کیسے ہوتا ہے یہ سب؟ان کا لاجواب جواب کچھ یوں تھا کہ”علمیت کے لیے ذہین ہونا کا فی نہیں میرے خیا ل سے زندگی ایک معتبر استا د ہے جو ہمیں ہر پل تراش رہا ہے اب یا تو ہم کانچ کا ہتھیار بن جاتے ہیں یا پھر ایک نایاب نگیں۔بحر حال میری دانائی اور سنجیدگی یہ سب زندگی کی عطا ہے“۔ ان سے ہونے والی گفتگو میں یہ باتیں بھی آشکار ہوئی کہ انکی نظر میں زندگی ایک حسین چیز ہے مگر تب تک جب تک کہ مہربان ہو جو نہی اس نے آزمائش کا اردہ کیا تو یہ تراش دیتی ہے۔عیش و عشر ت اور زیادہ دولت کی انہیں چاہت نہیں سادگی کو ہی اصل حسن مانتی ہیں اور دوستی کے رشتہ کو تمام رشتوں سے کہیں زیادہ مضبوط اور پاکیزہ قرار دیتی ہیں، ان کی نظر میں عورت ایک وقار کا نام ہے ایک غرور کا نام ہے اور اور یہ غرور تب تک ہوتا ہے جب تک عورت کا وقار قائم رہتا ہے۔آخر میں مہ رُخ کیلئے دعا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی تہذیب اور اقدار کا دامن تھامے اپنے قلم سے اس معاشرے میں روشنیاں بانٹتی، رعنائیاں بکھیریتی اور دعائیں سمیٹتی رہیں۔
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.