گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
محمدعماراحمد
یہ دل وجان سے عزیز پاکستان، بننے سے پہلے ہی خون کاپیاسا تھااوراب تک اس کی پیاس بجھی نہیں۔تحریک پاکستان میں خون مسلم اس کے حصول کے لئے بہتارہااورپھر حصول کے بعددورانِ ہجرت بہت سے لوگ اپنی جانوں سے گزرکراپنی اَن دیکھی دھرتی کی طرف جانے والوں کے لئے راستہ بناتے گئے۔پاکستان بناتولوگ ادھراس سپنے کے ساتھ آئے کہ ادھرہردکھ کامداواہوگامگرایساکچھ نہ ہوا۔تب سے اب تک ہم استحکام کے لئے ہی خون دیتے آرہے ہیں اورکب تک دیتے رہیں گے اس کی خبر نہیں۔افسوس اس کانہیں کہ جانیں چلی جاتی ہیں اورخون بہہ رہاہے بلکہ افسوس اس پرہے کہ یہ
محمدعماراحمد
یہ دل وجان سے عزیز پاکستان، بننے سے پہلے ہی خون کاپیاسا تھااوراب تک اس کی پیاس بجھی نہیں۔تحریک پاکستان میں خون مسلم اس کے حصول کے لئے بہتارہااورپھر حصول کے بعددورانِ ہجرت بہت سے لوگ اپنی جانوں سے گزرکراپنی اَن دیکھی دھرتی کی طرف جانے والوں کے لئے راستہ بناتے گئے۔پاکستان بناتولوگ ادھراس سپنے کے ساتھ آئے کہ ادھرہردکھ کامداواہوگامگرایساکچھ نہ ہوا۔تب سے اب تک ہم استحکام کے لئے ہی خون دیتے آرہے ہیں اورکب تک دیتے رہیں گے اس کی خبر نہیں۔افسوس اس کانہیں کہ جانیں چلی جاتی ہیں اورخون بہہ رہاہے بلکہ افسوس اس پرہے کہ یہ
سب کچھ رائیگاں جارہاہے۔بڑے کام بڑی قربانی مانگتے ہیں مگراس کے بدلے میں بہت کچھ دیتے بھی ہیں اور قربانی دینے والے بھی یہی سوچ کرقربانی دیتے ہیں کہ ہمارے بعدکے لوگ سکھ سے رہ سکیں۔
تاریخ میں جھانکیں توکئی ممالک ہمارے سامنے ہی امتحان وآزمائش سے گزرکردنیامیں اپناایک مقام بناچکے ہیں مگروطنِ عزیزکاقصہ کچھ اورہی ہے۔اول روزسے ہی یہ دھرتی خون مانگ رہی ہے اورہم خون دے رہے ہیں ،آزمائشیں ومصائب سہتے آرہے ہیں مگرنتیجہ ندارد۔تحریک پاکستان سے حصول پاکستان تک ایک طویل صبر آزمامراحل سے گزرکراس دھرتی پر آئے اورپھرتعمیر پاکستان کے لئے 70سال سے قربانیاں دی جارہی ہیں مگرسب رائیگاں۔دھرتی پرجان نچھاورکرنابہت بڑی سعادت ہے مگراتنی قربانیوں کاکوئی فائدہ بھی تونہیں نظرآرہا۔جان لینے کے بدلے میں دھرتی اپنے باقی باسیوں کوسکھ دیتی ہے توجانے والوں کے پیارے فخرمحسوس کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے پیارے اپنی دھرتی کودیے ہیں اورانہی کے سبب سے یہ گلشن آج مہک رہاہے مگریہاں اس بات پرفخرکرنے کاموقع تاحال توسامنے نہیں آیا۔
دہشتگردی کے خلاف جنگ اسی دھرتی کوسکھ دینے کے لئے شروع کی گئی اوریہ جنگ تعمیر پاکستان کی اہم ترین جنگ ہے ۔مگراس جنگ کوشروع ہوئے کئی سال گزرگئے ہیں اورلاکھوں جانیں دی جاچکی ہیں مگریہ سب اب تک اس عفریت کوکچل نہ سکا۔مناواں پولیس سنٹر،جی ایچ کیو،نیوی وائیربیسز،سرکاری وتعلیمی ادارے ،مساجد،امام بارگاہیں،غیرمسلموں کی عبادت گاہیں اورعوامی مقامات سب نشانہ بن چکے ہیں۔سانحہ پشاور،ہزارہ قبائل اورسانحہ صفوراجیسے زخم برداشت کئے ہیں۔ہم نے کیاکچھ نہیں پیش کیااسی دھرتی کی خاطر۔؟ فوجی جوان،پولیس ورینجرز،سیاسی ومذہبی راہنما،عوام ،بوڑھے،عورتیں اورنوجوان یہاں تک کہ 150سے زائد معصوم کلیاں پشاور میں چھلنی کرائیں اوراب لاہورمیں 29معصوم پھول گنواددیے ہیں مگرکچھ ہاتھ نہ آیا۔یہ درست کہ ہمارے عزم وہمت میں کمی نہیں آئی مگرمنظرنامہ بھی توواضح نہیں کہ کب اس امتحان سے سرخروہوکرنکلیں۔ہمیں اس سرزمین سے پوچھناچاہئے کہ کب تک ہمارے لہوسے اپنی پیاس بجھاتی رہے گی۔؟کب تک یہاں درندگی کاراج رہے گااورظلم وستم کے سائے ہمارے تعاقب میں رہیں گے۔؟کوئی ایسی صبح طلوع ہوگی کہ ہمیں یقین ہوجائے کہ ہم محفوظ فضامیں جی رہے ہیں اوراگراقبال پارک جائیں گے تو درختوں کی شاخوں پرانسانی جسم کے ٹکڑے نہیں بلکہ پھل اور پھول دیکھ کرلوٹیں گے۔اس دھرتی کی کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں ہم خودکومطمئن پائیں کہ ہم محفوظ ہیں اوریہاں ہم کسی اندھی نفرت کانشانہ نہیں بنیں گے۔
اس دھرتی کے باسی بھی خون کے ہی پیاسے ہیں اورخودہی باہم دست وگریباں رہتے ہیں۔فرقہ واریت،سیاسی چپقلش،ذاتی عنادیا’اسلام‘اور’شریعت‘کانفاذسب کچھ میں اپناہی خون بہایاجاتاہے۔اہل اقتداراپنے اقتدار کی خاطرانسانی جانوں سے کھیلتے ہیں تواہلِ مذہب اپنے مفادکے لئے انسانی خون کوحلال سمجھتے ہیں ۔اول روزسے ہی انسانی خون سے اپنی پیاس بجھانے والی دھرتی شایدباسی بھی ایسے ہی پیداکررہی ہے جوانسانی خون کے پیاسے ہیں۔ہماری اپنی ہی کوتاہیوں اورغلطیوں کے نتائج ہمارے سامنے آرہے ہیں مگرہم ان غلطیوں کوتسلیم کرنے پرتیارنہیں۔ہمیں ان غلطیوں کوتسلیم کرناچاہئے جن کے سبب ہم مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں کیوں کہ جب تک ہم غلط کوغلط نہیں کہیں گے تب تک درست سمت کاانتخاب ناممکن ہے ۔ہماری موجودہ صورتحال کی ذمہ داری ریاستی پالیسیوں اورمذہبی جنونیت پرعائدہوتی ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے صرف نظرکرنے کی بجائے انہیں سدھارنے کی کوشش کریں۔یہ خوداحتسابی کاوقت ہے ،ملک ومذہب کے پہرے داراپنااپنااحتساب کریں اوراپنی کوتاہیوں کوتسلیم کرکے مل بیٹھ کرایک پرامن دھرتی کی تشکیل کے لئے مثبت کرداراداکریں اس کے بغیرہم کبھی کسی اورگلشن کوخون میں نہلانے والوں کوروکنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
تاریخ میں جھانکیں توکئی ممالک ہمارے سامنے ہی امتحان وآزمائش سے گزرکردنیامیں اپناایک مقام بناچکے ہیں مگروطنِ عزیزکاقصہ کچھ اورہی ہے۔اول روزسے ہی یہ دھرتی خون مانگ رہی ہے اورہم خون دے رہے ہیں ،آزمائشیں ومصائب سہتے آرہے ہیں مگرنتیجہ ندارد۔تحریک پاکستان سے حصول پاکستان تک ایک طویل صبر آزمامراحل سے گزرکراس دھرتی پر آئے اورپھرتعمیر پاکستان کے لئے 70سال سے قربانیاں دی جارہی ہیں مگرسب رائیگاں۔دھرتی پرجان نچھاورکرنابہت بڑی سعادت ہے مگراتنی قربانیوں کاکوئی فائدہ بھی تونہیں نظرآرہا۔جان لینے کے بدلے میں دھرتی اپنے باقی باسیوں کوسکھ دیتی ہے توجانے والوں کے پیارے فخرمحسوس کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے پیارے اپنی دھرتی کودیے ہیں اورانہی کے سبب سے یہ گلشن آج مہک رہاہے مگریہاں اس بات پرفخرکرنے کاموقع تاحال توسامنے نہیں آیا۔
دہشتگردی کے خلاف جنگ اسی دھرتی کوسکھ دینے کے لئے شروع کی گئی اوریہ جنگ تعمیر پاکستان کی اہم ترین جنگ ہے ۔مگراس جنگ کوشروع ہوئے کئی سال گزرگئے ہیں اورلاکھوں جانیں دی جاچکی ہیں مگریہ سب اب تک اس عفریت کوکچل نہ سکا۔مناواں پولیس سنٹر،جی ایچ کیو،نیوی وائیربیسز،سرکاری وتعلیمی ادارے ،مساجد،امام بارگاہیں،غیرمسلموں کی عبادت گاہیں اورعوامی مقامات سب نشانہ بن چکے ہیں۔سانحہ پشاور،ہزارہ قبائل اورسانحہ صفوراجیسے زخم برداشت کئے ہیں۔ہم نے کیاکچھ نہیں پیش کیااسی دھرتی کی خاطر۔؟ فوجی جوان،پولیس ورینجرز،سیاسی ومذہبی راہنما،عوام ،بوڑھے،عورتیں اورنوجوان یہاں تک کہ 150سے زائد معصوم کلیاں پشاور میں چھلنی کرائیں اوراب لاہورمیں 29معصوم پھول گنواددیے ہیں مگرکچھ ہاتھ نہ آیا۔یہ درست کہ ہمارے عزم وہمت میں کمی نہیں آئی مگرمنظرنامہ بھی توواضح نہیں کہ کب اس امتحان سے سرخروہوکرنکلیں۔ہمیں اس سرزمین سے پوچھناچاہئے کہ کب تک ہمارے لہوسے اپنی پیاس بجھاتی رہے گی۔؟کب تک یہاں درندگی کاراج رہے گااورظلم وستم کے سائے ہمارے تعاقب میں رہیں گے۔؟کوئی ایسی صبح طلوع ہوگی کہ ہمیں یقین ہوجائے کہ ہم محفوظ فضامیں جی رہے ہیں اوراگراقبال پارک جائیں گے تو درختوں کی شاخوں پرانسانی جسم کے ٹکڑے نہیں بلکہ پھل اور پھول دیکھ کرلوٹیں گے۔اس دھرتی کی کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں ہم خودکومطمئن پائیں کہ ہم محفوظ ہیں اوریہاں ہم کسی اندھی نفرت کانشانہ نہیں بنیں گے۔
اس دھرتی کے باسی بھی خون کے ہی پیاسے ہیں اورخودہی باہم دست وگریباں رہتے ہیں۔فرقہ واریت،سیاسی چپقلش،ذاتی عنادیا’اسلام‘اور’شریعت‘کانفاذسب کچھ میں اپناہی خون بہایاجاتاہے۔اہل اقتداراپنے اقتدار کی خاطرانسانی جانوں سے کھیلتے ہیں تواہلِ مذہب اپنے مفادکے لئے انسانی خون کوحلال سمجھتے ہیں ۔اول روزسے ہی انسانی خون سے اپنی پیاس بجھانے والی دھرتی شایدباسی بھی ایسے ہی پیداکررہی ہے جوانسانی خون کے پیاسے ہیں۔ہماری اپنی ہی کوتاہیوں اورغلطیوں کے نتائج ہمارے سامنے آرہے ہیں مگرہم ان غلطیوں کوتسلیم کرنے پرتیارنہیں۔ہمیں ان غلطیوں کوتسلیم کرناچاہئے جن کے سبب ہم مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں کیوں کہ جب تک ہم غلط کوغلط نہیں کہیں گے تب تک درست سمت کاانتخاب ناممکن ہے ۔ہماری موجودہ صورتحال کی ذمہ داری ریاستی پالیسیوں اورمذہبی جنونیت پرعائدہوتی ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے صرف نظرکرنے کی بجائے انہیں سدھارنے کی کوشش کریں۔یہ خوداحتسابی کاوقت ہے ،ملک ومذہب کے پہرے داراپنااپنااحتساب کریں اوراپنی کوتاہیوں کوتسلیم کرکے مل بیٹھ کرایک پرامن دھرتی کی تشکیل کے لئے مثبت کرداراداکریں اس کے بغیرہم کبھی کسی اورگلشن کوخون میں نہلانے والوں کوروکنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
محمدعماراحمد